امریکا کے نئے منتخب ہونے والے صدر جوبائیڈن نئے سال کے آغاز 20؍ جنوری 2021ء کو نو منتخب صدر کی تقریبِ حلف برداری کے بعد امریکا کے نئے صدر کی حیثیت سے وائٹ ہاؤس میں سابق صدر ٹرمپ کی جگہ براجمان ہورہے ہیں۔ امریکا کا صدر صرف امریکا کے لیے ہی اہم نہیں ہوتا، پوری دنیا کی پالیسیوں پر اثرانداز امریکی نظام کا نمائندہ اپنی اہمیت کے سبب دنیا بھر میں مختلف حوالوں سے زیرِبحث رہتا ہے۔
جب بھی امریکا میں نئے انتخابات کے نتیجے میں امریکی صدر کی تبدیلی ہوتی ہے تو دنیا بھر میں ایک بحث شروع ہوجاتی ہے کہ امریکا کے نئے صدر کی کیا پالیسیاں ہوں گی؟ وہ دنیا پر کتنے اثر انداز ہوں گے؟ خصوصاً تیسری دنیا کے ممالک اپنے اپنے ملکوں اور خطوں کے حوالے سے اس کا جائزہ لینا شروع کردیتے ہیں کہ نئے امریکی صدر کے آنے سے ان کے خطے اور ملک میں کون کون سی نئی تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں۔
اس میں عموماً اس حقیقت کو نظر انداز کردیا جاتا ہے کہ امریکا کے سرمایہ داری نظام میں صدر کی حیثیت سرمایہ داروں کے ایک خدمت گزار کی ہوتی ہے۔ ہر اُمیدوار کے پیچھے سرمایہ داروں کے بڑے گروپ ہوتے ہیں، جو اپنے اپنے مفادات کے تحت اپنے پسندیدہ اُمیدوار پر سرمایہ کاری کررہے ہوتے ہیں۔ جس نظام کی بھی بنیاد انسانی احتیاجات و ضروریات کے علیٰ الرغم سرمائے کے مفادات کے تابع ہوتی ہیں، ان کی مشترکہ اساس انسانیت دشمنی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام اپنی قومی اور بین الاقوامی پالیسیاں اپنی بقا اور سرمائے کے مفادات کے تحفظ کی بنیاد پر بناتا اور قائم رکھتاہے۔ اسے انھیں پالیسیوں کی دیکھ بھال کرنا ہوتی ہے۔ ایک صدر اس نظام میں سرمایہ داروں کا ایک ایجنٹ ہوتا ہے، جو اُن کے مفادات کے لیے کام کرتا ہے اور بس!
تیسری دنیا کے لوگوں کی اُمیدیں خوش فہمی سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ ان ممالک میں معمولی تبدیلیاں بھی دراصل کروٹ بدلتے نئے حالات کے سرمایہ دارانہ نظام سے ہم آہنگ تقاضے ہوتے ہیں۔ جنھیں نظام اپنے تحفظ کے لیے پورا کرنا ضروری سمجھتا ہے۔ جنھیں خوش نما بناکر وقت کا تقاضا باور کروایا جاتا ہے۔ حقیقت میں اس کا وقت کے حقیقی تقاضوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
امریکی انتخابات کا نتیجہ آجانے کے بعد سب سے اہم سوال یہ ہوتا ہے کہ آیا امریکا کے صدر کی تبدیلی سے امریکا کی خارجہ اور داخلہ پالیسی میں کوئی تبدیلی آسکتی ہے؟ اس بارے میں پاکستان کے باشعور حلقوں کی ہمیشہ سے یہی رائے رہی ہے کہ صدر ڈیموکریٹ کا آئے، یا ری پبلکن پارٹی کا، یا موجودہ صورتِ حال میں ٹرمپ کی جگہ جوبائیڈن آرہے ہیں۔ امریکا کی داخلہ اور خصوصاً خارجہ پالیسیوں میں کوئی بہت بڑی تبدیلی نہیں آرہی۔ توقعات ہیں، وہ جتنی مرضی قائم کرلی جائیں۔ گزشتہ چار سالوں سے جو بہت زیادہ اُمیدیں قائم کی گئی تھیں، اس کے عملی مظاہر بھی سامنے ہیں۔ جو کچھ آئندہ ہوگا، وہ بھی سامنے آجائے گا۔ دراصل امریکا کا نظام اصل طاقت ہے، جس کی انتظامیہ، ایجنسیاں اور تھنک ٹینک مل کر اپنے سرمایہ داری نظام کے حق میں کم از کم پچاس برس آگے کی پالیسیاں اور منصوبہ بندی بنا چھوڑتے ہیں۔ جس پر ہر نئے آنے والے کو عمل درآمد کروانا ہوتا ہے۔ انتخابات میں صرف چہرے تبدیل ہوتے ہیں اور چہرے بدلنے سے سب کچھ تبدیل نہیں ہوسکتا۔
سرمایہ دار دُنیا کے ماتحت ہر سطح کے انتخاب کی طرح امریکی صدارتی انتخاب بھی ایک فریب سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا، جس میں اس نظام کے اَن داتا سرمایہ دار دُنیا کی آنکھوں میں دُھول جھونکنے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔ اس نظام کے ہر سطح کے انتخابات کے جوے میں جُتے اُمیدوار بھی انتخابی مہم کے درمیان جذباتی نعروں سے عوام کو کھلا دھوکا دیتے ہیں۔ جیساکہ ہم اپنے ہاں اُمیدواروں کے پوسٹروں پر ’’نصرمن اللہ وفتح قریب‘‘، ’’عرش والے میری توقیر سلامت رکھنا فرش والے سارے خداؤں سے الجھ بیٹھا ہوں‘‘ جیسے نعروں سے ان کے خون گرمانے کا سامان کیا جاتا ہے۔ حال آںکہ اس سارے کھیل سے انھیں سرمائے کے خداؤں کی چاکری کا بندوبست کیا جا رہا ہوتا ہے۔
دنیا پر برطانوی امپیریلزم کی گرفت ڈھیلی پڑنے کے بعد جب سے امریکی استعماری نظام نے اس کی جگہ سنبھالی ہے، تاریخ اس کی گواہ ہے کہ اس امریکی امپیریلزم نے دنیا کو تضادات، جنگوں اور بھوک کے سوا کچھ نہیں دیا۔ اس کے بعد بھی اس کے کامیاب امیدواروں سے دودھ اور شہد کی نہریں چلانے کے وعدوں پر اُمیدیں باندھنا اپنے آپ کو دھوکا دینے کے سوا کچھ نہیں ہے۔
امریکا میں موجودہ تبدیلی سے وابستہ پاکستانی توقعات کے حوالے سے اصل اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک کی اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ امریکا کے نظام کی ترجیحات کے تابع رہی ہے۔ جس پر ہمارے ملک کا ماضی گواہ ہے کہ جب انھیں سوویت یونین کے خلاف ہمارے کردار کی ضروت تھی تو مذہب کے نام پر ہم سے ’’جہاد‘‘ کروایا گیا اور جب ضرورت ختم ہوگئی تو ’’امن‘‘ کے نام پر ساری بساط لپیٹ دی گئی۔ اسی جہاد کو دہشت گردی قرار دے دیا گیا۔ دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے وہی قومیں فائدہ اٹھا سکتی ہیں، جو اپنے نظام میں خود مختار ہوتی ہیں۔ تابعِ محض قوموں کو تو کسی نہ کسی سے نتھی رہنا پڑتا ہے۔
اب پاکستان میں ضرورت اس امر پر سوچنے کی ہے کہ ہم کس طرح اپنا خودمختار قومی نظام قائم کرسکتے ہیں، تاکہ ہم دنیا میں آزاد قوموں کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوکر آزادانہ قومی فیصلے کرسکیں اور بین الاقوامی حوالے سے کردار ادا کرسکیں۔
(شذرات: ماہنامہ رحیمیہ لاہور، دسمبر 2020ء)