کبھی ہماری سیاست مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے درمیان تقسیم ہوتی تھی اور باقی قوتین انہیں دو قوتوں کے ساتھ اپنے معاملات طے کرتی تھیں لیکن جب سے عمران خان نے اپنے آپ کو منوایا ہے تب سے وہ ہماری سیاست اور صحافت کی خاصی توجہ حاصل کئے رہتے ہیں ۔ان پر کئی حوالے سے بہت کچھ کہا جاتا ہے۔کسی کے ہاں تو وہ کلی طور پر رد کردیئے جاتے ہیں اورکہیں ان کو پاکستان کے سارے مسائل کا حل سمجھ لیا گیا ہے۔ہمارے ہاں چونکہ وابستگیاں عقل وشعور سے زیادہ جذباتی طورپر قائم کی جاتی ہیں تو اسی لیے ہمارے ہاں اعتدال سے زیادہ انتہاپسندی موجود رہتی ہے۔
اب جب کہ دو نومبر آنے کو ہے اور عمران خان اسلام آباد کو بند کرنے جارہے ہیں تو اس موقع پر عمران خان کے بارے میں دونوں پہلووں پر بات کیوں نہ کرلی جائے کہ ان کی طرز سیاست میں کیا مثبت ہے اور کیا منفی ہے۔ہمارے وہ دوست جو عمران خان سے جذباتی وابستگی رکھتے ہیں اور وہ لوگ جو حکومت وقت کے چوکھٹے میں فٹ ہیں وہ یہ بات یاد رکھیں کہ عمران خان پر تنقید کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ نواز شریف بہترین حکمرانی کررہے ہیں اور نوازحکومت پر تنقید کا بھی یہ مطلب نہیں ہوتا کہ عمران خان موجودہ حکومت کا بہترین متبادل ہیں۔بلکہ پاکستانی سیاست کو اس کے معروضی حقائق کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے اور قوم کے سامنے حقائق بیان ہونے چاہئیں کیونکہ اب قوم کسی بھی خوش فہمی اور تجربے کی متحمل نہیں ہے۔
شریف خاندان کا طرز حکمرانی ایسا ہے کہ وہ سیاست کے ہر کھلاڑی کو اپنے ساتھ شریک کرلیتے ہیں اور اچھے کاروباری کی طرح اپنے پارٹنر کے مفادات اور حصے کو تسلی بخش طریقے سے حلیف کی جھولی میں ڈالتے ہیں ۔ مشرف کے مارشل لاء کے بعد ان کے اس رویے میں اور زیادہ سنجیدگی اور پختگی آئی ہے اور انہوں نے پپلز پارٹی سمیت بہت سی پارٹیوں کو اپنا پارٹنر بنالیا اور یہ ساری پارٹیاں جمہوریت کے نام پر اپنی اپنی باریاں لگانے لگیں اور طرفہ تماشہ یہ کہ مذہبی پارٹیوں نے بھی اس گنگا سے فیض یاب ہونے کے گر سیکھ لیے۔
اور وہ بھی نظریات کی دھوپ سے تنگ آکر اقتدارکے سائے تلے سستانے کو ہی اسلام کی خدمت سمجھ لیتے ہیں اور اقتدارکا شجرسایہ دارنوازشریف کا ہو یا زرداری کا اس سے انہیں کوئی فرق نہیں پرت۔
ا پہلے پہل تو نظریاتی کارکن جماعتوں کے اندر ہنگامے کھڑے کردیتے تھے کہ بدنام زمانہ جماعتوں سے اتحاد ہماری کاز کو نقصان پہنچاتے ہیں لیکن اب ایسا نہیں ہوتا کارکنوں کے اخلاص کو حالات کی سنگینی بتاکر راضی برضا رہنے کا فلسفہ سمجھایا جاتا ہے کہ ہم اگر اسمبلی میں نہ ہوں گے تو وہاں کوئی اور ہوگا لہذا یہ وقت کی ضرورت اور دینی حمیت کا تقاضا ہے کہ ہمیں اقتدارکے ایوانوں میں موجود رہ کر اسلام کے خلاف ہونے والی سارشوں پر نظر رکھنی ہے۔
لہذا یوں یہاں اقتدارکا پہیہ گھومتا رہتا ہے اور عوام امیدوں کے سراب میں زندہ رہتے ہیں۔اس صورتحال نے سیاست دانوں کا ایک ایسا مافیا جنم دیا ہے جسے عوام اور ملک سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔وہ صرف پاکستان میں آکر الیکشن لڑتے ہیں جیت جائیں تو اقتدار کے لیے رہ جاتے ہیں نہیں تو بیرون ملک جاکر اپنے کاروبار کووقت دیتے ہیں ۔
گویا ان کا تعلق اس ملک سے صرف اقتدار اور حکمرانی کا رہ گیا ہے اور بس ۔ بددل ہوتے عوام نے جب دیکھا کہ اس سکوت کو عمران خان توڑ سکتاہے تووہ جوق درجوق اس کی طرف لپکے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک کاررواں بن گیا ۔ جن لوگوں کی نظر اس ملک میں پارٹیاں بننے کی تاریخ پر ہے وہ جانتے ہیں کہ ان دیکھی قوتیں کس طرح نئی بننے والی پارٹیوں کو آکوپائے کرلیتی ہیں ۔عمران خان نے جیسے ہی سر نکالنا شروع کیا تووہ سارے لیڈر جو دوسری پارٹیوں میں پچھلی صفوں میں کھڑے تھے وہ یہاں آکر کارکنوں کو کہنیاں مارتے ہوئے پہلی صفوں میں آ بیٹھے اور عمران خان کو بھی شریف فیملی کی اندھی دولت کے مقابل ایسے پہلوان چاہئیں تھے جو ان کا مقابلہ کرسکیں الیکشن میں موٹر سائیکلیں دے کر ووٹ توڑ سکیں سو ایک پوری رجیم جوساری زندگی اسی سیاسی کلچر کا حصہ رہی اور سرمایہ دارانہ ،جاگیردارانہ بیوروکریٹک اور فیوڈل نفسیات کے ساتھ عمران خان کے ساتھ آشریک ہوئی۔ عمران خان پارٹی میں ایسا کوئی میکنزم نہ بنا سکے جس کی بدولت وہ اس زنگ آلود قیادت سے جماعت کو بچھاسکتے۔
کیا عمران خان اسی نظام کی تیارشدہ بیساکھیوں کے ذریعے اقتدار کے ایوان میں پہنچ کر قوم کے مسئلے حل کرسکیں گے یا وہ بھی مذہبی جماعتوں والا نظریہ ضرورت اپنا کر کارکنوں کو اگر ہم نہیں تو کوئی اور ہوگا کے فلسفے کے ذریعے مطمئن کئے رکھیں گے۔ ہماراخیال ہے کہ عمران خان پاکستان کی روایتی سیاست میں کوئی ڈراڑ ڈاالنے سے پہلے ہی اس کا شکار ہوچکے ہیں ۔ قوم کا مسئلہ اقتدار کی تبدیلی نہیں بلکہ مسائل کے حل کا کوئی جوہری طریقہ ہے جس سے قوم موجودہ دلدل سے نکل سکے۔