• کوئی سوال ہے؟
  • 923009426395+
  • darulshaour.magazine@gmail.com
مزدوری — تحریر: سعادت حسن منٹومزدوری — تحریر: سعادت حسن منٹومزدوری — تحریر: سعادت حسن منٹومزدوری — تحریر: سعادت حسن منٹو
  • صفحہ اول
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • قرآنیات
  • تاریخ و فلسفہ
  • تعلیم | تربیت
  • انتخاب
  • شخصیات | انٹرویوز
  • کالم
  • کتابوں پر تبصرے
  • یوٹیوب چینلز
    • “Hakayat O Rawayat”
      حکایات و روایات
    • “Darulshaour Audio Books”
      دارلشعور آڈیو بکس
    • آڈیوز/ وڈیوز
  • آن لائن کتابیں
✕

مزدوری — تحریر: سعادت حسن منٹو

  • صفحہ اول
  • بلاگ
  • اردو ادب | لٹریچر
  • مزدوری — تحریر: سعادت حسن منٹو
اپنی تلاش — تحریر: ادریس هادی خان
مارچ 23, 2017
عمران خان اور روایتی سیاست — تحریر: محمد عباس شاد
مارچ 23, 2017
Show all

مزدوری — تحریر: سعادت حسن منٹو

مزدوری لُوٹ کھسوٹ کا بازار گرم تھا۔ اس گرمی میں اِضافہ ہو گیا جب چاروں طرف آگ بھڑکنے لگی۔ ایک آدمی ہارمونیم کی پیٹی اُٹھائے خوش خوش گاتا جا رہا تھا۔ “جب تم ہی گئے پردیس لگا کے ٹھیس، او پیتم پیارا، دُنیا میں کون ہمارا۔” ایک چھوٹی عمر کا لڑکا جھولی میں پاپڑوں کا انبار ڈالے بھاگا جا رہا تھا، ٹھوکر لگی تو پاپڑوں کی ایک گڈی اس کی جھولی میں سے گر پڑی، لڑکا اسے اُٹھانے کے لیئے جھکا تو ایک آدمی نے جس نے سر پر سلائی مشین اُٹھائی ہوئی تھی، اُس سے کہا۔ رہنے دیے بیٹا!رہنے دے۔ اپنے آپ ہی بھن جائیں گے۔ بازار میں دھب سے ایک بھری ہوئی بوری گری۔ ایک شخص نے جلدی سے بڑھ کر اپنے چھُرے سے اس کا پیٹ چاک کیا۔ آنتوں کے بجائے شکر، سفید دانوں والی شکر اُبل کر باہر نکل آئی۔ لوگ جمع ہو گئے اور اپنی جھولیاں بھرنے لگے۔ ایک آدمی کرتے کے بغیر تھا، اُس نے جلدی سے اپنا تہبند کھولا وار مُٹھّیاں بھر بھر کر اس میں ڈالنے لگا۔ “ہٹ جاؤ، ہٹ جاؤ” ایک تانگہ تازہ تازہ روغن شدہ الماریوں سے لدا ہوا گزر گیا۔ اُونچے مکان کی کھڑکی میں سے مل مل کا تھان پھڑپھڑاتا ہوا باہر نکلا، شعلے کی زبان نے ہولے ہولے اسے چاٹا۔ سڑک تک پہنچا تو راکھ کا ڈھیر تھا۔ “پوں پوں، پوں پوں” موٹر کے ہارن کی آواز کے ساتھ دو عورتوں کی چیخیں بھی تھیں۔ لوہے کا ایک سیف دس پندرہ آدمیوں نے کھینچ کر باہر نکالا اور لاٹھیوں کی مدی سے اس کو کھولنا شروع کیا۔ کاؤ اینڈ کیٹ، دودھ کے کئی ٹیں دونوں ہاتھوں پر اُٹھائے اپنی تھوڑی سے ان کو سہارا دیے ایک آدمی دُوکان سے باہر نکلا اور آہستہ آہستہ بازار میں چلنے لگا۔ بلند آواز آئی، “آؤ وؤ لیمونیڈ کی بوتلیں پیو، گرمی کا موسم ہے ” گلے میں موٹر کا ٹائر ڈالے ہوئے آدمی نے دو بوتلیں لیں اور شکریہ ادا کیے بغیر چل دیا۔ ایک آواز آئی” کوئی آگ بجھانے والوں کو تو اطلاع کر دے ، سارا مال جل جائے گا۔” کسی نے اس مشورے کی طرف توجہ نہ دی، لُوٹ کھسوٹ کا بازار اسی طرح گرم رہا اور اس گرمی میں چاروں طرف بھڑکنے والی آگ بدستور اضافہ کرتی رہی۔ بہت دیر کے بعد تڑ تڑ کی آواز آئی۔ گولیاں چلنے لگیں۔ پولیس کو بازار خالی نظر آیا، لیکن دُور دھوئیں میں ملفوف موڈ کے پاس ایک آدمی کا سایہ دکھائی دیا۔ پولیس کے سپاہی سیٹیاں بجاتے اس کی طرف لپکے۔ سایہ تیزی سے دھوئیں کے اندر گھس گیا تو پولیس کے سپاہی بھی اس کے تعاقب میں گئے۔ دھوئیں کا علاقہ ختم ہوا تو پولیس کے سپاہیوں نے دیکھا کہ ایک کشمیری مزدور پیٹھ پر وزنی بوری اُٹھائے بھاگا چلا جا رہا ہے۔ سیٹیوں کے گلے خشک ہو گئے مگر وہ مزدور نہ رُکا۔ اُس کی پیٹھ پر وزن تھا۔ وزن معمولی نہیں ، ایک بھری ہوئی بوری تھی مگر وہ یوں دوڑ رہا تھا جیسے پیٹھ پر کچھ ہے ہی نہیں۔ سپاہی ہانپنے لگے۔ ایک نے تنگ آ کر پستول نکالا اور داغ دیا۔ گولی کشمیری مزدور کی پنڈلی میں لگی۔ بوری اس کی پیٹھ سے گر پڑی، گھبرا کی اس نے اپنے پیچھے سپاہیوں کو دیکھا۔ پنڈلی سے بہتے ہوئے خون کی طرف بھی اس نے غور کیا لیکن ایک ہی جےبر سے بوری اُٹھائی اور پیٹھ پر ڈال کر پھر بھاگنے لگا۔ سپاہیوں نے سوچا، “جانے دو، جہنم میں جائے ” مگر پھر اُنہوں نے اُسے پکڑ لیا۔ راستے میں کشمیری مزدور نے بارہا کہا “حضرت ! آپ مجھے کیوں پکڑتی ہے ، میں تو غریب آدمی ہوتی، چاول کی ایک بوری لیتی، گھر میں کھاتی۔ آپ ناحق مجھے گولی مارتی۔” لیکن اُس کی ایک نہ سنی گئی۔ تھانے میں کشمیری مزدور نے اپنی صفائی میں بہت کچھ کہا۔ حضرت! دوسرا لوگ بڑا بڑا مال اُٹھاتی، میں تو ایک چاول کی بوری لیتی۔ حضرت! میں بہت غریب ہوتی۔ ہر روز بھات کھاتی۔ جب وہ تھک گیا تو اُس نے اپنی میلی ٹوپی سے ماتھے کا پسینہ پونچھا اور چاولوں کی بوری کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ کر تھانے دار کے آگے ہاتھ پھیلا کر کہا۔ اچھا حضرت! تم بوری اپنے پاس رکھ۔ میں اپنی مزدوری مانگتی، چار آنے۔

مناظر: 295
شئیر کریں
vicky
vicky

Related posts

مئی 16, 2017

ﺍﺭﺩﻭ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﮐﺎ ﺩﺭﺳﺖ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ — تحریر: شورش کاشمیری


مزید پڑھیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

✕

اقسام

  • قرآنیات
  • سیرت النبی
  • امروزیہ | آج کی تحریر
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاست | معیشت
  • شخصیات | انٹرویوز
  • تعلیم | تربیت
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خواتین کارنر | صحت
  • اردو ادب | لٹریچر
  • انتخاب | نادرتحریریں
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کتابوں پر تبصرے
  • Uncategorized

تازہ ترین پوسٹس

  • 0
    پیغام ابراہیم
    جولائی 12, 2022
  • 0
    عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
    جولائی 11, 2022
  • 0
    مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
    جولائی 8, 2022

حالیہ تبصرے

  • جون 7, 2022

    M Abbas Shad commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

  • جون 5, 2022

    امیر حمزہ وٹو commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

Array

اہم ضوابط

اکاؤنٹ

پالیسی و ترجیحات

اغراض و مقاصد

نئے لکھنے والوں کے لئے

تازہ تحاریر

  • پیغام ابراہیم
  • عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
  • مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
  • تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
  • سرسید اور حقوق نسواں

رابطہ

موبائل نمبر : 03009426395

فون نمبر : 04237239138

ای میل : da******************@***il.com

پتہ: دارالشعور 37.مزنگ روڈ لاہور

تعارف

"دارالشعورمیگزین" دارالشعور پبلیکیشنز کا ایک ذیلی پلیٹ فارم ہے۔ جو دارالشعورپبلیشرز اور مطبوعات مکی دارالکتب کے ترجمان سہ ماہی مجلے "الصدق" لاہورکی ترقی یافتہ شکل اور ماہنامہ رسالہ "دارالشعور،لاہور"کا ایک متبادل میگزین ہے۔ جو اب ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سوفٹ کاپی کی شکل میں آن لائن شائع ہوتا ہے۔اور اس میں کتابوں پر تبصروں اور تعارف کے علاؤہ مختلف سماجی ،سیاسی اور علمی موضوعات پر آپ کی خدمت میں معیاری مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ جو دارالشعورکے ہم خیال منصفین کی قلمی کاوشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز کو توانا بنانے کے لیے دارالشعور میگزین میں اپنے مضامین،تجزیے اور تبصرے بھیج کر ہماری ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ دارالشعور پبلیکیشنزکی آفیشل ویسائٹ کو نیچے دیئے گئے لنک کو کلک کرکے ویزٹ کرسکتے ہیں۔ www.darulshaour.com

دارالشعور میگزین © 2022
اکاؤنٹ