مزدوری لُوٹ کھسوٹ کا بازار گرم تھا۔ اس گرمی میں اِضافہ ہو گیا جب چاروں طرف آگ بھڑکنے لگی۔ ایک آدمی ہارمونیم کی پیٹی اُٹھائے خوش خوش گاتا جا رہا تھا۔ “جب تم ہی گئے پردیس لگا کے ٹھیس، او پیتم پیارا، دُنیا میں کون ہمارا۔” ایک چھوٹی عمر کا لڑکا جھولی میں پاپڑوں کا انبار ڈالے بھاگا جا رہا تھا، ٹھوکر لگی تو پاپڑوں کی ایک گڈی اس کی جھولی میں سے گر پڑی، لڑکا اسے اُٹھانے کے لیئے جھکا تو ایک آدمی نے جس نے سر پر سلائی مشین اُٹھائی ہوئی تھی، اُس سے کہا۔ رہنے دیے بیٹا!رہنے دے۔ اپنے آپ ہی بھن جائیں گے۔ بازار میں دھب سے ایک بھری ہوئی بوری گری۔ ایک شخص نے جلدی سے بڑھ کر اپنے چھُرے سے اس کا پیٹ چاک کیا۔ آنتوں کے بجائے شکر، سفید دانوں والی شکر اُبل کر باہر نکل آئی۔ لوگ جمع ہو گئے اور اپنی جھولیاں بھرنے لگے۔ ایک آدمی کرتے کے بغیر تھا، اُس نے جلدی سے اپنا تہبند کھولا وار مُٹھّیاں بھر بھر کر اس میں ڈالنے لگا۔ “ہٹ جاؤ، ہٹ جاؤ” ایک تانگہ تازہ تازہ روغن شدہ الماریوں سے لدا ہوا گزر گیا۔ اُونچے مکان کی کھڑکی میں سے مل مل کا تھان پھڑپھڑاتا ہوا باہر نکلا، شعلے کی زبان نے ہولے ہولے اسے چاٹا۔ سڑک تک پہنچا تو راکھ کا ڈھیر تھا۔ “پوں پوں، پوں پوں” موٹر کے ہارن کی آواز کے ساتھ دو عورتوں کی چیخیں بھی تھیں۔ لوہے کا ایک سیف دس پندرہ آدمیوں نے کھینچ کر باہر نکالا اور لاٹھیوں کی مدی سے اس کو کھولنا شروع کیا۔ کاؤ اینڈ کیٹ، دودھ کے کئی ٹیں دونوں ہاتھوں پر اُٹھائے اپنی تھوڑی سے ان کو سہارا دیے ایک آدمی دُوکان سے باہر نکلا اور آہستہ آہستہ بازار میں چلنے لگا۔ بلند آواز آئی، “آؤ وؤ لیمونیڈ کی بوتلیں پیو، گرمی کا موسم ہے ” گلے میں موٹر کا ٹائر ڈالے ہوئے آدمی نے دو بوتلیں لیں اور شکریہ ادا کیے بغیر چل دیا۔ ایک آواز آئی” کوئی آگ بجھانے والوں کو تو اطلاع کر دے ، سارا مال جل جائے گا۔” کسی نے اس مشورے کی طرف توجہ نہ دی، لُوٹ کھسوٹ کا بازار اسی طرح گرم رہا اور اس گرمی میں چاروں طرف بھڑکنے والی آگ بدستور اضافہ کرتی رہی۔ بہت دیر کے بعد تڑ تڑ کی آواز آئی۔ گولیاں چلنے لگیں۔ پولیس کو بازار خالی نظر آیا، لیکن دُور دھوئیں میں ملفوف موڈ کے پاس ایک آدمی کا سایہ دکھائی دیا۔ پولیس کے سپاہی سیٹیاں بجاتے اس کی طرف لپکے۔ سایہ تیزی سے دھوئیں کے اندر گھس گیا تو پولیس کے سپاہی بھی اس کے تعاقب میں گئے۔ دھوئیں کا علاقہ ختم ہوا تو پولیس کے سپاہیوں نے دیکھا کہ ایک کشمیری مزدور پیٹھ پر وزنی بوری اُٹھائے بھاگا چلا جا رہا ہے۔ سیٹیوں کے گلے خشک ہو گئے مگر وہ مزدور نہ رُکا۔ اُس کی پیٹھ پر وزن تھا۔ وزن معمولی نہیں ، ایک بھری ہوئی بوری تھی مگر وہ یوں دوڑ رہا تھا جیسے پیٹھ پر کچھ ہے ہی نہیں۔ سپاہی ہانپنے لگے۔ ایک نے تنگ آ کر پستول نکالا اور داغ دیا۔ گولی کشمیری مزدور کی پنڈلی میں لگی۔ بوری اس کی پیٹھ سے گر پڑی، گھبرا کی اس نے اپنے پیچھے سپاہیوں کو دیکھا۔ پنڈلی سے بہتے ہوئے خون کی طرف بھی اس نے غور کیا لیکن ایک ہی جےبر سے بوری اُٹھائی اور پیٹھ پر ڈال کر پھر بھاگنے لگا۔ سپاہیوں نے سوچا، “جانے دو، جہنم میں جائے ” مگر پھر اُنہوں نے اُسے پکڑ لیا۔ راستے میں کشمیری مزدور نے بارہا کہا “حضرت ! آپ مجھے کیوں پکڑتی ہے ، میں تو غریب آدمی ہوتی، چاول کی ایک بوری لیتی، گھر میں کھاتی۔ آپ ناحق مجھے گولی مارتی۔” لیکن اُس کی ایک نہ سنی گئی۔ تھانے میں کشمیری مزدور نے اپنی صفائی میں بہت کچھ کہا۔ حضرت! دوسرا لوگ بڑا بڑا مال اُٹھاتی، میں تو ایک چاول کی بوری لیتی۔ حضرت! میں بہت غریب ہوتی۔ ہر روز بھات کھاتی۔ جب وہ تھک گیا تو اُس نے اپنی میلی ٹوپی سے ماتھے کا پسینہ پونچھا اور چاولوں کی بوری کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ کر تھانے دار کے آگے ہاتھ پھیلا کر کہا۔ اچھا حضرت! تم بوری اپنے پاس رکھ۔ میں اپنی مزدوری مانگتی، چار آنے۔