مولانا ابوالکلام آزاد ہندوستان کے عظیم ترین بزرگوں میںسے تھے۔ جن کے بارے میں ہردور اورہر زمانے میں برصغیر ہندو پاک میں بہت زیادہ لکھا گیا ہے ان کی زندگی میں بھی اوران کے انتقال کے بعد بھی۔
ذیل میں مولانا آزاد کی شخصیت اور اُن کی علمی وادبی اورسیاسی خدمات کے بارے میں برصغیر ہندوپاک کے ممتاز ادیبوں،مصنفوں اور دانشوروں کے خیالات وافکار کے مختصر اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں جن سے اُن کی عظمت اُن کے بے داغ کردار اور اُن کی پرخلوص خدمات کا کسی حد تک اندازہ ہوسکے گا۔
مولانا کو صحیح معنی میں بین الاقوامی شہرت اور ناموری حاصل تھی۔ اسی لیے ان کے انتقال کے بعد بیرونی ممالک کے سربراہان مملکت ا ور دوسرے مشاہیر نے ان کو خراج عقیدت پیش کیا ہے اس کا انتخاب بھی پیش خدمت ہے۔
خواجہ حسن نظامی:
سروقد، دوہرابدن، گورارنگ، ایرانی وضع کی بڑی بڑی آنکھیں، کتابی چہرہ،سفید چھوٹی داڑھی، آواز سُریلی اور بلند، مزاج میں تمکنت اوروقار، طبیعت میں شوخی وظرافت۔
دہلی کے رہنے والے ہیں۔ ایک بڑے پیر کے بیٹے ہیں، مگر پیری مریدی کے زیادہ دلدادہ نہیں ہیں۔ قوم سید، پیشہ آزادی اور بے نیازی، حافظے کی قوت بے مثال، تصور کی طاقت چیونٹی کی ناک اور چیل کی آنکھ سے بڑھی ہوئی ،تقریر وتحریر کے خود مختار بادشاہ نازک مزاجی میں تاناشاہ، سیاست دانی میں ہر ہندومسلمان سے سو قدم آگے…!!
بیرون ہند کے مسلمانوں ،امریکیوں اور انگریزوںمیں بھی مقبول ہیں۔ یورپین مورخ سوچتے رہتے ہیں کہ ان کو یورپین کیوں کر ثابت کیاجائے!!!
صرف ابواکلام چالیس کروڑ باشندوں میں ایک ایسے ہندوستانی ہیں جو یورپ کی سیاست کو سمجھتے بھی ہیں اور اس کے وار کو بغیر ڈھال کے روکتے بھی ہیں اور مسکراکر نکیلا سیاسی نشتر حریف کو مارتے جاتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں…… غالباً کچھ زیادہ تکلیف نہیں ہوئی ہوگی…… یہ انجکشن آپ کی بیماری کے لئے بہت ہی مفید ہے۔
پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنے ایک راز دار دوست سے کہا تھا کہ جب مولانا ابوالکلام آزاد اور سرکرپس کی گفتگو کا میں ترجمہ کررہا تھا تو مجھے حیرت ہوئی تھی کہ مولانا ایسی گرفت سوالات کے ذریعے کرتے تھے کہ سرکرپس جواب سوچتے رہ جاتے تھے۔
قرآن مجید پر ایسا عبور ہے اور اس کے مقاصد کو اتنا زیادہ سمجھتے ہیں کہ مصر وشام کے علماء جدید بھی شاید اتنا نہ سمجھتے ہوں گے۔
ہوش سنبھالتے ہی مسلم لیگ کو سمجھ لیا تھا۔1908ء میں مسٹر زاہد سہروردی کے مکان پر انہوں نے حسن نظامی کو ایک کاغذ پر یہ لکھاتھا:
’’سب باتیں منظورہیں باستثنائے شرکت مسلم لیگ!‘
چراغ حسن حسرت:
میں پہلی مرتبہ شملہ میں مولانا سے ملا تھا۔ ایڈورڈگنج میں ان کی تقریر سنی، تقریر مکمل ہوچکی تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا، لیکن چند منٹ کی ملاقات تھی اور ملنے والوں میںصرف ایک میں ہی نہیں تھا بلکہ بہت سے لوگوں کا ایک وفد بھی تھا۔ لوگ سوال کررہے تھے اور وہ جواب دے رہے تھے۔ اس وقت ان کی صورت و شکل کے عام انداز سے ان پر عقاب کا دھوکا ہوتا تھا لیکن ایسا عقاب نہیں جو محض شکاریوں کا بازیچہ ہو بلکہ عقاب جوسنگ خارا کی چٹانوں میں آشیانہ بناتا ہے۔
ایک دفعہ میں نے افسانہ نگاری کے متعلق انہیں اپنا ایک مضمون دکھایا۔ پڑھ کرکہنے لگے:’’ تم نے فلاں فلاں فرانسیسی قصہ نویسوں کا ذکر نہیں کیا حالانکہ ان کے تذکرہ کے بغیر اس موضوع پرکوئی مضمون مکمل نہیں ہوسکتا‘‘ پھر افسانہ نگاری کے متعلق ایک تقریر شروع کردی اور اس سلسلے میں ایسے ایسے مصنفوں اور ان کی تصانیف کا ذکرکرگئے جن کے نام ہی میں نے نہیں سنے تھے۔
پٹنہ میں بڑی دھوم سے طبی کانفرنس ہوئی۔ غالباً حکیم مسیح الملک (اجمل خاں) اس کے صدر تھے۔ چوں کہ مولانا آزاد بھی اتفاق سے وہیں(پٹنہ) موجود تھے اس لئے بعض طبیبوں نے ان سے استدعا کی کہ آپ کانفرنس میں طب یونانی کے متعلق چند کلمات کہہ دیجیے۔ حکیم اجمل خاں مرحوم نے بھی سفارش کی۔ لیکن مولانا ابوالکلام آزاد تقریر کرنے کھڑے ہوئے تو پورے دو گھنٹے طب قدیم اور طب جدید کے نظریوں اور طریق علاج وغیرہ پربحث کرتے رہے۔ حکیم نثار احمد صاحب نے جو کلکتہ کے مشہور طبیب ہیں اور اس اجتماع میں موجود تھے خود مجھ سے بیان کیا کہ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی تقریر میں جو باتیں بیان فرمائیں وہ بڑے بڑے نامور طبیبوں کو بھی معلوم نہیں۔
ان کے(مولانا ابواکلام آزاد) والد بزرگوار مولانا خیر الدین ایک مشہور خانوادہ طریقت سے تعلق رکھتے تھے۔چنانچہ اب بھی ان کے عقیدت مند ملک کے مختلف حصوں میں موجود ہیں لیکن مولانا ابوالکلام آزادنے پیری مریدی سے کوئی سروکار نہیں رکھا۔
’’مولانا پر بڑے بڑے کڑے وقت بھی آئے ہیں لیکن اس غیرت کے پتلے نے کبھی کسی کا احسان نہیں اٹھایا۔ ان کے والد بزرگوار کے مریدوں میں بتہیرے لوگ ایسے ہیں جو اپنا سب کچھ انہیں دے ڈالنے کو تیار ہیں بعض عقیدت مندوں نے جو’’الہلال‘‘ کے دور اول سے آج تک ان کے مداح چلے آتے ہیں کئی مرتبہ ان کی مالی اعانت کرنا چاہی لیکن انہوں نے گوارا نہیں کیا۔ ان میں سے اکثر لوگوںنے بڑی بڑی رقموں کے منی آرڈر اورچیک بھیجے جو واپس کردئیے گئے۔
مہادیوڈیسائی:
ذہنی اعتبار سے تو مولانا کانگرس میں اپنی مثال نہیں رکھتے اور اکثر مسائل اور پالیسیوں کی تشریح اس طریقے سے کرتے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے کانگرس میں مولانا سے بڑھ کر کوئی معاملہ فہم سیاست داں اورسیاسی جوڑ توڑ کرنے والی شخصیت نہیں۔ ایک دفعہ آپ ایک پوزیشن قبول کرلیں تو پھر اس کے تمام پہلوئوں کو اس وضاحت سے بیان فرماتے ہیں کہ اس مسئلہ کا کوئی گوشہ بھی تشنہ نہیں رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ گاندھی جی سیاسی زندگی کے انتہائی خطرناک مراحل پر ہمیشہ مولانا کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
ایک دفعہ میں نے مولانا سے دریافت کیا کہ آپ کی گاندھی جی سے وابستگی کی کیا وجہ ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ گاندھی جی کی ذہانت کے علاوہ ان کی بے داغ سچائی نے مجھے ان کی طرف مائل کیا۔ لیکن1926ء تک میں ہرچیز کو تنقیدی نظر سے دیکھتاتھا ۔ اس کے بعد’’ ینگ انڈیا‘‘ میں گاندھی جی کا ایک مضمون میری نظر سے گزرا۔ جس میں انہوں نے اپنی بیوی پر ایک معمولی سی کوتاہی پر شدید گرفت کی۔ وہ آشرم میں ایک رقم جمع کرانا بھول گئی تھیں۔ اس پر مجھے خیال ہوا کہ یہ ایک ایسا شخص ہے جس کی سچائی کا اعتراف اس کے دشمنوں کو بھی ہونا چاہیے۔
کانگرس کے معاملات میں مولانا کی حیثیت ہمیشہ بے مثل رہی ہے انہیں سالہا سال سے یہی حیثیت حاصل ہے اور رہے گی۔ مگر اس کے باوجود آپ ہمیشہ اس قسم کے عہدے قبول کرنے سے بھاگتے تھے۔ آپ اگر چاہتے تو کسی صوبائی اسمبلی یامرکزی اسمبلی میں پارٹی لیڈر بن سکتے تھے مگر آپ ہمیشہ صاف بچ کر نکل جاتے رہے۔ آنجہانی سی آر داس اور پنڈت موتی لال نہرو آپ کے مشورے کے بغیر کوئی قدم نہ اٹھاتے تھے مگر آپ نے ہمیشہ نمائش اورہنگامہ کی جگہ مشیر ہونے کو ترجیح دی۔
اگرچہ آپ انگریزی بہت کم بولتے ہیں مگر آپ کی لائبریری انگریزی اور فرانسیسی کتب سے بھری ہوئی ہے۔ آپ نے کئی انگریزی شعراء کا مطالعہ کیا ہے مثلاً شیکسپیئر، ورڈزورتھ، شیلے وغیرہ مگر آپ بائیرن کو بہت پسند کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ یونان کی جنگ آزادی میں شریک ہوکر مارا گیا اور اس نے اپنی نظموں میں آزادی افکار اور آزادی عمل کی تعلیم دی ہے اور انقلابی سیاست میں نمایاں حصہ لیا۔ آپ کے پاس عربی، فارسی اور ترکی کی لاتعداد کتابیں موجود ہیں جن کے ناموں سے ہمارے ملک کے اکثرعالم اور ادیب بھی ناواقف ہیں۔
بیرونی دنیا سے آپ خط وکتابت کے ذریعے رابطہ قائم رکھتے ہیں مرحوم زغلول پاشا اورفتحی بے سے آپ کی خط وکتابت تھی۔ موخر الذکر تو آپ کے نہایت عزیز دوست تھے۔کمال اتاترک اورترکی کے سرکردہ قائدین سے آپ کے تعلقات نہایت گہرے تھے۔ ترکی کی نوجوان پارٹی کے لیڈر جنہوں نے 1908ء کا انقلاب برپاکیا تھا آپ کے ذاتی دوست تھے۔ یہ پارٹی گزشتہ جنگ عظیم تک برسر اقتدار رہی۔ احمد رضا صدر ترکی پارلیمان، ڈاکٹر صلاح الدین، انورپاشا اور جاوید بے سے آپ کی دوستانہ خط وکتابت رہی ہے۔ اسی طرح ایوان کا مشہور انقلاب پسند تقی زادے آپ کا بہت عزیز دوست تھا۔
کثرت مطالعہ اور استغراق کتب نے آپ کو خلوت پسند اور عزت گزیں بنادیا ہے۔اگرچہ آپ بہت خلیق اور ملنسار ہیں مگر آپ کے دوستوں کی تعداد بہت کم ہے۔ اگرچہ آپ بہترین گفتگو کرنے والے ہیں مگر اکثر خاموش رہتے ہیں۔ مولانا کو نمائش ہنگاموں اورجلوسوں سے سخت نفرت ہے۔ آپ رات کے کھانے پر بہت کم ہی دعوتیں قبول کرتے ہیں۔ آپ ایک سحر بیان مقرر ہیں آپ بڑے بڑے مجمعوں کو اپنے دلائل وبراہین سے قائل کراسکتے ہیں مگر اس کے باوجود آپ عوام میں بہت کم خلط ملط ہوتے ہیںہاں کانگریس کمیٹی کی بحثوں میں آپ نمایاں حصہ لیتے ہیں اور آپ کی بات ہمیشہ ایک قابل قدر اضافہ ہوتی ہے۔
مولانا سید سلیمان ندوی:
اگرہمارے نظر بندوں میں کوئی ایسا ہے جو اسوہ محمدی پر فائز ہوا تو ہم میں ایک اور ہستی ایسی ہے جو اسوہ یوسفی کے درجہ پرممتاز ہوئی جس عزم واستقلال استغناء اورقوت ایمانی کے ساتھ مولانا نے یہ زمانہ بسر کیا ہے وہ ائمہ سلف کی یاد کو تازہ کرتا ہے۔ شاید سب کو معلوم نہ ہوکہ انہوںنے حکومت کا وظیفہ لینے سے انکار کردیا اور اعانت نظر بنداں کا ماہوار عطیہ بھی قبول نہیں کیا۔ اس زمانے میں ان کو جو مالی دقتیں پیش آئیں وہ صرف عبادی الشکور کے رمز میں پنہاں ہیں۔ یہ معلوم ہوگا کہ رات کو انہیں گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس بنا پر وہ نماز عشاء کی جماعت میں شریک نہیں ہوسکتے تھے۔ لیکن انہوں نے اسے گوارہ نہیں کیا۔ انہوں نے حکومت سے اجازت چاہی اورجب کوئی جواب نہ ملا تو برملا اعلان کردیا کہ فریضہ الٰہی میں انسانوں کے فرمان مانع نہیں آسکتے! آہ ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جو آزادی کے بستر پر بھی اٹھ کر خدا کے آگے سر نہیں جھکاتے اور ایک وہ عباد صالحین ہیں جو قیدوتنگی میں بھی مساجد الٰہی کی یاد فراموش نہیں کرسکتے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ نوجوان مسلمانوں میں قرآن پاک کا ذوق مولانا ابوالکلام کے ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ نے پیدا کیا اور جس اسلوب بلاغت کمال انشاپروازی اور زور تحریر کے ساتھ انہوںنے انگریزی خواں نوجوانوں کے سامنے قرآن پاک کی ہر آیت کو پیش کیا اس نے ان کے لئے ایمان اور یقین کے نئے نئے دروازے کھول دئیے اور ان کے دلوں میں قرآن پاک کے معانی ومطالب کی بلندی ووسعت کو پوری طرح نمایاں کردیا۔ ضرورت تھی کہ اس موثر قلم سے قرآن پاک کی پوری تفسیر شائع ہوتی کہ عربی سے نابلد مسلمانوںکے لئے نوربینش اور افزائش بصیرت کا سروسامان اردو میں میسر آئے۔؎
مولانا غلام رسول مہر:
مولاناؒ نے پہلی مرتبہ انجمن حمایت اسلام لاہور کے سالانہ اجلاس میں تقریر فرمائی تھی تو وہ عمر کی سولہویں منزل میں تھے اور اس زمانے میں انجمن کے اسٹیج پرممتاز اصحاب علم وفضل کو بھی بہ مشکل بارملتا تھا۔ یہ تقریر اتنی مسلسل مربوط مدلل اور عام تقریروں سے ہر لحاظ سے اتنی مختلف تھی کہ مولانا ثنا اللہ مرحوم ومغفور نے فرمایا ہم تو تھے پسنجر ٹرین ہمارے بعد کلکتہ میل آرہی ہے۔ اس زمانے میں کلکتہ میل کو رفتاری کی تیزی اور ہنگامہ خیزی کے باعث تمام ٹرینوں پر بدرجہا فوقیت حاصل تھی مولانا آزاد کے وطن کی نسبت سے کلکتہ میل کے ساتھ تشبہیہ میں جولطف تھا وہ تشریح سے بے نیاز ہے۔
یہ 1904ء کا واقعہ تھا۔ آئندہ سال مولانا دوسری مرتبہ انجمن کے سالانہ اجلاس میں شریک ہوئے(منعقدہ اپریل1905)22اپریل کو انہوں نے تقریر فرمائی۔اس کا موضوع تھاـ’’ اسلام زمانہ آئندہ میں‘‘ اس وقت مولانا سترہویں سال میں تھے۔ یہ تقریر اس قدر پسند کی گئی کہ صدر اجلاس نے حاضرین کو خوشخبری سنائی کہ آزاد صاحب کل پھر تقریر فرمائیں گے۔چنانچہ23اپریل کو مولانا نے دوبارہ تقریر کی۔ انجمن کی روداد مظہر ہے کہ تقریر پر صدر اجلاس نے لیکچرار کی خوش بیانی نہیں، جادوبیانی کی داد دی اور ان کی درازی عمر کے لئے دعا کی۔
سترہ سال کی عمر میں مولانا کی سحر بیانی کے کرشمے آپ نے ملاحظہ فرمائے اب شہرت واشاعت سے بے نیازی کی شان دیکھئے۔ انجمن کی روئداد میں ایک جگہ مرقوم ہے’’ افسوس ہے کہ باوجود متعددتقاضوں کے آزاد صاحب نے لیکچر قلم بند کرے نہیں دیا اور اس لئے شامل روئداد نہیں ہوسکا‘‘۔دوسری جگہ لکھا ہے:’’چوں کہ یہ تقریر قلم بند ہوکر نہیںملی اس واسطے درج نہیں کی جاتی‘‘ انجمن حمایت اسلام کی جس تقریر کا ذکر پہلے کیا ہے اس سے تقریباً سات سال بعد مولانا نے ’’الہلال‘‘ جاری کیا جس کی کوئی مثال تاریخ صحافت اردو میں نہ پہلے موجودتھی اور نہ اس کے بعد آج تک منظر عام پر آسکی۔ حالاں کہ پہلے ’’الہلال‘‘ کے ظہور پر آج باون سال پورے ہوچکے ہیں اور دوسرے’’الہلال‘‘ کی بندش پربھی چھتیس سال گزرچکے ہیں۔
اگر اس مختصر سی مدت کے کارناموں پرسرسری نظر ڈالی جائے تو ایک ضخیم کتاب مرتب ہوجائے۔ اس میں بتانا ہوگا کہ چوبیس سال کے اس نوجوان نے اچانک نمودار ہوکر علم وعمل اور فکرونظر کے دوائر میں کیسے بنیادی انقلاب پیدا کردئیے! ہر گوشے پر کتنے گہرے اثرات ڈالے، کون سا معاملہ تھا جو مولانا کے سامنے آیا اور اس پر ایسی سیر حاصل دل نشین اور یقین افروز بحث نہ کی گئی کہ اس بارے میں دوبارہ کچھ پوچھنے کی ضرورت باقی رہ جاتی۔؎
مولانا عبدالماجد دریا آبادی:
1912ء میں ’’الہلال ‘‘افق کلکتہ سے طلوع ہوا اور اب مولانا کا قیام کلکتہ میں مستقل ہوچکا تھا۔ اس نے اردو صحافت کی جیسے دنیا ہی بدل دی صورت وسیرت مغزوقالب سب میں اپنے پیش روااور معاصر ہفتہ واروں سے بالکل مختلف اورکہیں زیادہ شاندار اور جاندار چھپائی کاغذ تصویریں سب کا معیار اعلیٰ الہلال نکلتے ہی ابوالکلام مسلم طور پر ’’مولانا‘‘ ہوگئے اور شہرت کے پروں پر اڑنے لگے۔ الہلال کی مانگ گھر گھر ہونے لگی اور مولانا کی خطابت کے جوہر بھی اسی وقت سے خوب چمکے ہر جلسے کی رونق ان کی ذات سے ہونے لگی۔ الہلال بظاہر ایک سیاسی پرچہ تھا لیکن اس کی دعوت تمام تردینی رنگ میں تھی اور اس کی سیاست پر بین الملی اسلامیت کی چھاپ لگی ہوئی۔ بات بات پر آیات قرآن سے استدلال واستناد علمی، ادبی پہلو بھی نمایاں تھے اور فکاہی رنگ بھی کچھ کم شوخ نہ تھا۔ اچھے اچھوں کی قلعی اس کے کالموں میں کھل جاتی تھی اور بڑے بڑے اس سے ٹکر لیتے دیتے ہچکچاتے تھے۔ مولانا کی بے پناہ ذات، فطانت،حاضر جوابی، برجستہ گوئی، بذلہ سنجی کا نمایاں ترین دور یہی رہا ہے۔
جن لوگوں نے مولانا کو بہ ا یں سنجیدگی ووقار ان کی زندگی کے آخری 30,25سال میں دیکھا ہے۔وہ اندازہ ہی نہیں کرسکتے کہ وہ13ء 14ء میں کیا تھے(اور اس سے بھی پہلے یعنی اپنی بھرپورجوانی نہیں بلکہ آغاز جوانی کے سن میں وہ کیا تھے اسے تو سرے سے چھوڑئیے) ذہانت وفطانت کا مجسمہ، شوخی وبذلہ سنجی کا مرقع، حاضر جوابی میں طاق، لطیفہ گوئی میں استاد۔ اسے چھیڑا اسے بنایا۔ اس پر فقرہ چست کیا، اسے چٹکیوں میں اڑایا۔ لوگ تنہا ملتے جلتے سامنا کرتے گھبراتے ہچکچاتے اور کنی کاٹ جاتے۔13ء کا آخر تھا یا14ء کا شروع لکھنو میں کھانے پر بلانے کو تو بلا لیا لیکن فکریہ ہوئی کہ اتنی دیر مسلسل ہدف ان حضرت کے گرما گرم فقروں کا کون بنارہے گا؟ اپنے جوار میں ایک بڑے طرار، شوخ گفتار، طلق اللسان خوش بیان، ادیب، ظریف چودھری محمد علی ردولوی تھے بس انہیں گھیر گھار کر لے آیا گیا اور ہم تماشائیوں کو لطف مہذب وشستہ لطیفہ گوئی، بذلہ سنجی اور برابر کی نوک جھونک کا آتا رہا۔ چودھری صاحب نے کہیں آپ حلفہ ظرافت کی اصطلاح بور چالو کی، مولانا نے فرمایا کہ آپ کی تعریف؟ چودھری صاحب بولے۔ بورمردے ست کم عقل کہ بے ارادہ دیگراں رامکلف باشد۔ مولانا نے داودی کہ سبحان اللہ تعریف کے لئے زبان بھی آپ نے خاص غیاث اللغات کی استعمال فرمائی۔۶؎
ڈاکٹر بی ۔ وی کیسکر۔ سابق وزیر اطلاعات حکومت ہند:
مولانا سے میری راہ ورسم کوئی بیس برس ہوئے شروع ہوئی تھی۔ ان دنوں مولانا اورمیں دونوں الہ آباد جیل میں تھے۔ میں ہر شام مولانا سے ملا کرتا تھا کیوں کہ ان کی ملاقات اور مختلف موضوعات پر گفتگو فکر ونظر کو جلا بخشتی تھی۔ وہ دنیا کے عظیم اسکالروں میں سے تھے وہ بہت بڑے عالم تھے لیکن عجزوانکساری ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔
مجھے یاد ہے ایک بار میں نے ان کی میز پر فرانسیسی زبان کی بہت سی کتابیں دیکھیں میں نے ان سے پوچھا تھاکہ آیا انہیں فرانسیسی ادب سے دل چسپی ہے اورکیا وہ یہ زبان اچھی طرح جانتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا، بس معمولی شدید ہے! بعد میں مجھے پتہ چلا کہ وہ فرانسیسی زبان کے بہت بڑے عالم ہیں اور فرانسیسی ادب سے خاصا شغف رکھتے ہیں۔ وہ عربی فارسی، اردو، انگریزی اور فرانسیسی کے عظیم اسکالر تھے۔ ؎
خواجہ غلام السیدین:
’’مولانا آزاد نے شعوری طور پر اور نہایت سلیقے کے ساتھ اپنی خودی کی تعمیر کی تھی۔ وراثت میں سیرت او ردل ودماغ کا بیش بہاخزانہ پایا تھا۔ بزرگوں کی تربیت سے بہت کچھ حاصل کیا تھا اور پھر اپنی ذاتی اپچ اور انفرادیت کے طفیل ہر معاملے میں اپنی ایک ذاتی راہ نکالی تھی اور باوجود وراثت اوربیعت کے اثرات قبول کرنے کے ان کو تمام وکمال اپنانے سے انکار کردیا تھا۔ زندگی بھر اپنے ہی بنائے راستے پر چلتے رہے اوردوسروں کو ان پر چلنے کی تربیت دیتے رہے۔ ایمان کو بھی انہوںنے بطور ایک عطیہ خداداد کے نہیں پایا بلکہ اس کے حصول کی راہ میں شک وشبہ کے بہت سے خار زاروں میں سے گزرے اور اس تک طلب سعی اور فکر سخت جدوجہد اور آزمائشوں کے بعد پہنچے۔
انہوں نے ملک کی سیاسی جدوجہد میں ایک فیصلہ کن حصہ لیا اور قومی زندگی میں بہت سے ایسے موڑ پیش آئے جس میں انہوں نے گاندھی جی اور نہرو کے روش بدوش انقلابی قیادت کا فرض انجام دیا۔ تیسری طرف ان کی تقریریں اور تحریریں اردو ادب میں ایک شاہکار کی حیثیت رکھتی ہیں او رعرصہ دراز تک رکھیں گی۔ وہ لفظوں کا جادو وہ عبارت کا دروبست وہ فصاحت جو ابتدائی دورمیں شوکت الفاظ سے معمور کرتی تھی اورآخری دور میں اپنی سلاست اور زور بیان سے جادو جگاتی تھی۔ پوری تحریر کو ضبط تحریر میں لائیں تو معلوم ہوگا کہ ادب عالیہ میں جگہ پانے کے قابل ہے۔
ان کی ذات میں وہ باتیں بہت نمایاں تھیں۔ ایک اصول پرستی جس کا تقاضہ ہے کہ انسان جب بات کو صحیح سمجھے اس پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہے اور دوسری جرات کا کسی خوف یا لالچ یا نام نہاد ’’مصلحت‘‘ سے متاثر ہو۔ دراصل خوف تو ان لوگوں پر طاری ہوتا ہے جن کا یا تو حساب صاف نہ ہویا جو اپنے یقین اور اصول کی قیمت ادا کرنے کو تیار نہ ہوں۔ لیکن مولانا کا حساب زندگی ہمیشہ صاف رہا اور کبھی نہ خواہش انعام ہوئی نہ ستائش کی تمنا۔ کوئی خطاب قبول نہیں کیا۔ سنتا ہوں کہ جب بھارت رتن نے دروازے پر دستک دی تو انہوں نے دروازہ نہیں کھولا۔ دیکھا کہ اعزازی ڈگریوں سے ہمیشہ پرہیز کیا۔ مجھے ہدایت تھی کہ اگر کوئی ادارہ یاجماعت ان کے نام پر کسی عمارت یا درس گاہ وغیرہ کا نام رکھنا چاہے تو بغیر ان سے دریافت کئے باسلوب مناسب معذرت کردو۔‘‘ میں نہیں چاہتا کہ میں جب تک وزیر تعلیم ہوں اس قسم کی کوئی چیز کی جائے۔ جرات کا یہ حال تھا کہ جب کبھی گاندھی جی یاجواہر لال سے اختلاف ہوتا تو اس کو کھلم کھلا ان کے سامنے مضبوطی کے ساتھ ظاہر کرتے برخلاف ان لوگوں کے جو سامنے تائید اور پیٹھ پیچھے مخالف کرتے تھے۔ اصول پرستی کا ایک قصہ سن لیجئے ایک صوبہ کی طرف سے پارلیمنٹ کے الیکشن کے لئے ایک امیدوار کا نام بہت اصرار کے ساتھ پیش کیا گیا۔ ان کے پاس صوبہ کانگرس کمیٹی کی طرف سے وفد آیا تار اور ٹیلی فون آئے ان کے اپنے ساتھیوں اور وزیروں نے سفارش کی لیکن پہاڑ اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔ اس شخص نے اناج کی ذخیرہ اندوزی کی اس وقت جب لوگ بھوکوں مررہے تھے۔ ’’میں کسی طرح اس بات کے لئے آمادہ نہیں ہوں کہ اس کو کانگرس کا ٹکٹ دیا جائے‘‘زندگی ایسی پاک وصاف گزری کہ جب پیدا کرنے والے نے ان کو اپنے پاس بلالیا تو بنک میں اتنا روپیہ نہ تھا کہ موٹر خریدنے کے لئے حکومت سے جو رقم لی تھی اس کو ادا کیاجاسکے! میں نے بحیثیت ان کے جوائنٹ سیکرٹری اور سیکرٹری کے آٹھ سال سے زیادہ ان کے ساتھ کام کیا اور انہوں نے کبھی کسی امیدوار کے تقرریاترقی کے بارے میں کوئی ہدایت نہیں دی۔ کوئی سفارش نہیں کی یہ تمہارا کام ہے کہ تم قاعدہ اور اصول کے مطابق فیصلہ کرو۔ ؎
پروفیسر آل احمد سرور:
مولانا آزاد کی بنیادی حیثیت ایک مفکر کی ہے۔ مفکر خلوت پسند ہوتا ہے فکر اپنے اظہار کے لئے علمی اصطلاحات لانے پر مجبور ہے۔ مولانا کے یہاں عربی کی اصطلاحات اسی وجہ سے ہیں۔ پھر مولانا ایک بہت بڑے خطیب بھی ہیں خطابت کے لئے رجزیہ لہجہ ضروری ہے اور سید عبداللہ نے الہلال کے مضامین کو رجز غلط نہیں کہا ہے ۔پھر مولانا ایک عظیم صحافی ہیں اور صحافت ہنگامی واقعات کو بھی آفاقی رنگ دینے پر مجبور ہے۔ ان اشاروں کی مدد سے الہلال اور البلاغ کے مصنف کا کارنامہ سمجھ میں آجانے لگا۔ یہ صحیح ہے کہ یہ نثر سرسید اور حالی کی سادہ نثر سے مختلف ہے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ یہ نثر کا بہترین نمونہ نہیں ہے مگر اس میں علمی، سیاسی، مذہبی اور تہذیبی موضوعات کو خطیبانہ بلند آہنگی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔اس میں ایک جلال ہے جس میں دلیری وقاہری ملے ہوئے ہیں۔ اس کے پیچھے ایک پیمبرانہ انداز ہے جو حق اور باطل، سودوزیاں، نوروظلمت، صراط مستقیم اور ضلالت کی نشاندہی کرتا جاتا ہے۔ ترجمان القرآن کی پہلی جلد جو سورہ فاتحہ کی تفسیر پر مشتمل ہے حکیمانہ نکتہ چینی کے ساتھ کہیں کہیں شاعرانہ شوخی سے بھی کام لیتی ہے تاکہ حکمت بوجھ نہ معلوم ہو بلکہ باعث کشش نظر آئے۔ ترجمان کی نثر کو ہم غالب کے درمیانی دور کی شاعری کی مثال سے سمجھ سکتے ہیں غالب کی انفرادیت اس دورمیں رنگ بہار ایجاد بیدل کی مرہون منت نہیں رہی، اس نے اپنی راہ پالی ہے۔ مولانا کی حکمت اب خطابت کے طوفان نہیں اٹھاتی ہاں شعریت کی ہلکی سی موجیں ضرور پیدا کرتی ہے۔ موضوع کی رعایت سے انداز بیان علمی ہے مگر اس میں علم کی خشکی نہیں ایک جمالیاتی حسن ہے جس کی وجہ سے ایک رعنائی پیدا ہوگئی ہے۔ مفکر کواظہار خیال کے لئے وسیع میدان ملا ہے مگر مفکر ذوق جمال رکھتا ہے اس لئے فکر کے پہاڑ نہیں لڑھکتاہاں اس کی آب وتاب دکھاتا ہے۔ یہاں صحافت نہیں ہے کہ طوفانی کیفیت پیدا کردے یہاں ازلی اور ابدی صداقتوں کی تشریح ہے جن کے لئے حکیمانہ اسلوب کی ضرورت ہے۔ مولانا آزاد نے اس طرح اردو نثر کو برگزیدگی عطا کی ہے۔ سجاد انصاری نے جب کہا تھا کہ اگر قرآن اردو میں اترتا تو اس کے لئے ابوالکلام کی نثر منتخب کی جاتی تو ان کا اشارہ اس برگزیدگی کی طرف تھا۔
جدید اردو نثر عربی اور فارسی سے جو کچھ لے سکتی تھی وہ ابوالکلام نے لے لیا۔ عرب کے سوزدروں اور عجم کے حسن طبیعت دونوں کو اردومیں سمولینا اور اردو کو عربی اور فارسی کا غلام نہ ہونے دینا معمولی کام نہیں ہے۔ مولانا آزاد کی نثر سے یہ کام ختم ہوگیا اور اقبال کی نظم سے اب اردو نثر کی ترقی کے لئے جو امکانات ہیں وہ عالمی ادب خصوصاً انگریزی سے ہی لئے جاسکتے ہیں مگر اچھی اردو نثر میں عربی اور فارسی کے اثرات جس طرح حل ہوگئے ان کو ہمیشہ ذہن میں رکھنا پڑے گا اس وجہ سے ابوالکلام آزاد کے جوش قدح سے ادب میں ہمیشہ چراغاں رہے گا۔۹؎
بیرونی ممالک کے مشاہیر کا خراج عقیدت
مصر کے سابق صدر جمال عبدالناصر
آہ! روشنی کا مینار اور عزم وحوصلہ کا سرچشمہ ہماری نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ ہم اہل مشرق اپنی تاریک راہوں کو کس طرح چراغ سے روشن کرسکیں گے اور مغرب کی سامراجی قوتوں سے کس طرح اپنالوہا منواسکیں گے۔
مصر 1956ء کے نہر سویئز کے معرکہ میں اپنی کامیابی پر سب سے زیادہ مولانا ابوالکلام کا شکرگزار ہے۔
وہ عرب اور ایشیائی اقوام کی آزادی کے سب سے بڑے علم بردار تھے، عرب دنیا اور ایشیاء نے گزشتہ پچاس سال میں جو کچھ حاصل کیا وہ مولانا ابوالکلام کی سعی مشکور کا ہی نتیجہ ہے۔ ہندوستان کے اس غم میں ہم اہل مصر اور اہل عرب پوری طرح شریک ہیں۔
میکمیلن(سابق وزیراعظم برطانیہ)
’’ میں جانتا ہوں کہ دنیا بھر کے وہ تمام لوگ جو مولانا آزاد کو جانتے ہیں ان کے مشورے اور دوستی سے محروم ہونے کو بہت محسوس کریں گے‘‘
عصمت انونو(سابق صدر ترکی)
ترک عوام انہیں نہیں بھلا سکتے، جنگ بلقان اور پہلی عالمی جنگ (1914ء) کے موقع پر ایشیاء کے وہ واحد شخص تھے جنہوں نے نہایت دلیری اور بے باکی کے ساتھ ترکوں کی حمایت کی اور اس حق کوئی کی پاداش میں انگریزوں کی قید وبند کی سختیاں برداشت کیں وہ ترک عوام کو اتنے عزیز تھے کہ ایک بار انہیں ترکی میں آکر قیام کرنے اور ترکوں کی رہنمائی کرنے کی دعوت تک دی گئی۔
ترکی اپنی آزادی اور بقا کی جدوجہد میں ان کی حمایت کو ہمیشہ قدرواحترام کی نظر سے دیکھتا رہے گا۔ ان کی وفات سے ہمیں بھی اتنا ہی صدمہ پہنچا ہے جتنا اہل ہند ہو۔
ظاہر شاہ(سابق شاہ افغانستان)
’’مولانا مرحوم مشرقی ممالک کے تعلقی افق کے نمایاں ستارے تھے۔ مولانا آزاد کی وفات سے ہندوستان کو بہت بڑا نقصان پہنچا ہے یہ نقصان ہندوستان کے دوستوں اور علم کے شیدائیوں کے لئے بھی بڑا نقصان ہے۔‘‘
سکندر مرزا(سابق صدر پاکستان)
’’اسلامی ادیب عالم کی حیثیت سے ان کا مقابلہ چند ہی لوگ کرسکتے ہیں۔ وہ اعلیٰ درجہ کے انسان تھے‘‘۔
سردار محمد دائود خاں(سابق وزیراعظم افغانستان)
’’مولانا ابوالکلام آزاد بہت بڑے سیاست داں اور کردہ دانشور تھے۔‘‘
حکومت روس کا تعزیتی بیان
’’مولانا ابوالکلام آزاد کی موت کا غم ہندوستان ہی کو نہیں بلکہ روس کے عوام کو بھی ہے۔ وہ ایسے مجاہد تھے جنہوں نے دنیا کی سب سے بڑی استبدادی قوت برطانیہ عظمی کے خلاف سب سے پہلے علم جہاد بلند کیا اور ظالم کے خلاف مظلوموں کی صف بندی کی۔
انقلاب روس کے رہنمائوں نے ان کی پرجوش جدوجہد آزادی سے بہت زیادہ حوصلہ پایا تھا۔ روس میں انقلاب کی کامیابی ان کی صدائے انقلاب کی بھی رہین منت ہے۔ روس کے عوام اس عظیم انسان کو سلام کرتے ہیں۔
حکومت چین کی تعزیت
’’چین کے عوام کے لئے آج صدمہ کا دن ہے۔ وہ اپنے ایسے ہمدرد سے محروم ہوگئے ہیں جس نے ہر مشکل وقت میں ان کی حمایت کی۔
چین پر جاپان کی جارحیت کے خلاف انہوں نے بحیثیت صدر کانگرس آواز بلند کی۔انقلاب چین کی انہوں نے پرزور حمایت کی۔اقوام متحدہ کے ادارہ، یونیسکو میں انہوں نے سب سے پہلے چین کی نمائندگی کی آواز اٹھائی۔
ہمارے سراس عظیم انقلابی اورعوام کے دوست کے سامنے خمیدہ ہیں۔
ہیکل(مشہور عرب مصنف)
’’علم آج سید پوش اور ماتم کناں ہے۔ علم کا شہسوار مرگیا ہے اب دل ودماغ کی تشنگی کہاں سے بجھائی جائے گی؟
آہ! دنیا پر کیا اس سے بڑا بھی کوئی سانحہ گزرا ہے؟
برٹرینڈرسیل(مشہور برطانوی فلسفی)
’’یہ خبر سن کر (مولانا ابوالکلام کی وفات کی خبر) مجھے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ میں یک و تنہا رہ گیا ہوں، جیسے وہ دریا خشک ہوگیا جس کی موجوںسے ہمیں ذہنی اور فکری سرور حاصل ہوجایا کرتا تھا۔
فیشاغورث، سقراط اورہیگل کے بعد شاید سب سے بڑے انسان کی موت ہے۔‘‘
سابق وزیر تعلیم مصر
’’مولانا ابوالکلام کی جدائی ساری دنیا کے لئے ناقابل تلافی نقصان ہے‘‘۔
ٹائن بی(مشہوربرطانوی مورخ)
’’تاریخ کی گتھیاں سلجھانے والا ہاتھ شل ہوگیا۔ ماضی حال اور مستقبل پر دورتک نظر رکھنے والا چلا گیا۔ ہندوستان ہی نہیں بلکہ ساری دنیا ایک ایسی روشنی سے محروم ہوگئی جس سے انسانی تاریخ کی پرپیچ اورتاریک راہوں کا سراغ لگانا ممکن ہوجاتا تھا‘‘۔
پروفیسرفوادکبیر(ترکی کے مشہور عالم)
’’مولانا آزاد مشرق ومغرب کے ثقافتی علوم کا خزانہ تھے اورجنگ آزادی کے ہیرو‘‘