پاکستانی عوام کا عجیب آلمیہ ہے کہ اپنی زندگی کے مسائل سے نجات تو چاہتے ہیں. مگر نجات حاصل کرنے کی راہ میں جدوجہد کرنے کو تیار نہیں بس کسی ریڈیمیڈ ہیرو یا لیڈر کی تلاش میں رہتے ہیں. کہ کہیں سے کوئی مسیحا آجاےُ اور راتوں رات ان کے حالات بہتر کر دے. یعنی انڈے جنے بی فاختا اور کوا مزے اڑاےُ ۔
پوری قوم کی سوچ چلاک کووںّ کی طرح ہوگئی ہے. دوسرے کی محنت پر عیش کرنا چاہتے ہیں. مگر یہ بھول گئے ہیں کہ چالاک کوا گند ہی کھاتا ہے. یہی وجہ ہے کہ آج تک ہمارے معاشرے میں قومی لیڈر پیدا نہیں ہوےُ. جو پوری قوم کے لئے آزادی اور نجات کی لڑائی لڑتے. ظاہری بات ہے کہ جب قوم نہیں قومی تنظیمیں نہیں تو قومی لیڈر کہاں سے پیدا ہونگے. اب لیڈر ہوائوں, خلاوُں میں تیار تو ہونے سے رہے.
آخر لیڈر بھی اسی کرپشن کے ماحول کی پیداوار ہوتے ہیں. جہاں ہر فرد لالچی خود غرض اور موقع پرست ہے. اور پوری زندگی اپنے ذاتی مفادات اور ذاتی ملکیت کو پانے اور بنانے کی دوڑ و دھوپ میں گزار دیتا ہے. تو کیا لیڈر کو کسی پاگل کتے نے کاٹا ہے کہ جو وہ اپنے مفادات کو ترک کرکے عوام کے مسائل کے لئے جدوجہد کرے. جبکہ وہ عوام جو خود اپنے مسائل کے لئے لڑنے کو تیار نہیں تو کسی لیڈر کو کیا غرض جو بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالے. یہی وجہ ہے کہ پچھلے 70 سالوں سے اب تک عوام کے اوپر جو فوجی یا سویل ریڈیمیڈ لیڈر یا جرنیل مسلط رہے ہیں وہ میڈ فور اسٹبلشمنٹ ہی رہے ہیں . جن کا تعلق نہ عوام سے رہا اور نہ عوامی ایجنڈوں سے. اصل میں دیکھا جاےُ تو اقتدار پر آنے والے تمام حکمران خود الیڈ کلاس کے ہاتوں کی کٹھ پتلیاں ہوتے ہیں.
جن کے پاس اقتدار تو ہوتا ہے مگر اختیار نہیں جن کو کرپشن کرنے کی اجازت تو ہوتی ہے مگرنظام بدلنے کی اجازت نہیں ہوتی. اور اگر کوئی نظام بدلنے کی کوشش کرے تو اسکا انجام موت کے سوا کچھ نہیں ہوتا. یہ تمام حکمران اشرافیہ طبقے کے ترجمان ہوتے ہیں. جن کا کام اشرافیہ طبقے کے مفادات کو تحفظ دینا اور ان کی خدمت کرنا ہوتا ہے. اور ان کا باری باری اقتدار پر آنا کوئی اتفاق نہیں ہوتا بلکہ سب سوچی سمجھی اسکیم کا حصہ ہوتا ہے. جو وقت کے حساب سے بہتر ہوتا ہے وہی گھوڑا سیاسی میدان میں جوتا جاتا ہے. باقی عوام کا ووٹ ڈالنا ایک جمہوری ڈرامے سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا. یہ ایک دوسرے کے خلاف زندہ باد مردہ باد کے نعرے لگا کر نورا کشتی جاری رکھتے ہیں چیخ پکار دھرنے سب عوام کو بےوقوف بنانے کے گورک دھندے ہوتے ہیں تا کہ عوام کی توجہ اصل حقیقی مسائل اور سیاسی جدوجہد سے ہٹا کر رکھی جاسکے. تا کہ کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کا نظام جاری رہے.
یہی وجہ ہے کہ یہ ایک دوسرے کو چوراور لٹیرے تو بولتے ہیں مگر اقتدار پر آنے کے بعد ایک دوسرے کی جائیداد اور سرمایے کو ضبط کرنے کے بجاےُ پورا تحفظ دیتے ہیں. یہ بات طے شدہ ہے کہ عوام اس وقت تک اپنے مسائل سے نجات نہیں پاسکتے جب تک وہ یہ بات نہیں سمجھ جاتے کہ نظام کے بدلے بغیر کچھ نہیں بدلنے والا اور ان کے مسائل کے حل کسی سیاسی لیڈر یا فوجی جرنیل کے پاس نہیں بلکہ خود ان کے اپنے پاس ہے جس کو پانے کے لئے ان کو سیاسی اور شعوری جدوجہد کرنی ہوگی. اور اپنے اتحاد کی طاقت کے ساتھ شعوری بنیاد پر عوامی تنظیم کی بنیاد ڈالنی ہوگی جس تنظیم سے ریڈیمیڈ لیڈر شپ نہیں بلکہ قومی لیڈر شپ پیدا ہو سکے. جس کو اقتدار پر لانا اور ہٹانا عوام کے اختیار میں ہو اور انکا کام عوام پر حکمرانی کرنا نہیں بلکہ عوامی خدمت کرنا ہو.
مناظر: 96