• کوئی سوال ہے؟
  • 923009426395+
  • darulshaour.magazine@gmail.com
دھمال ڈالنا حل نہیں..!!! — تحریر: محمد عمیر اقبالدھمال ڈالنا حل نہیں..!!! — تحریر: محمد عمیر اقبالدھمال ڈالنا حل نہیں..!!! — تحریر: محمد عمیر اقبالدھمال ڈالنا حل نہیں..!!! — تحریر: محمد عمیر اقبال
  • صفحہ اول
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • قرآنیات
  • تاریخ و فلسفہ
  • تعلیم | تربیت
  • انتخاب
  • شخصیات | انٹرویوز
  • کالم
  • کتابوں پر تبصرے
  • یوٹیوب چینلز
    • “Hakayat O Rawayat”
      حکایات و روایات
    • “Darulshaour Audio Books”
      دارلشعور آڈیو بکس
    • آڈیوز/ وڈیوز
  • آن لائن کتابیں
✕

دھمال ڈالنا حل نہیں..!!! — تحریر: محمد عمیر اقبال

  • صفحہ اول
  • بلاگ
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • دھمال ڈالنا حل نہیں..!!! — تحریر: محمد عمیر اقبال
موثر ترین لوگوں کی سات عادات — تحریر: قاسم علی شاہ
فروری 26, 2017
مولانا آزاد معاصرین کی نظر میں — تحریر: نشاط عرفان
فروری 28, 2017
Show all

دھمال ڈالنا حل نہیں..!!! — تحریر: محمد عمیر اقبال

مقصد عام ہے “دہشتگردی کا خاتمہ” جس میں سب متفق ہیں اور اتفاق لا بُدِّی بھی ہے. لیکن ہر شخص، دہشت گردی کے خلاف احتجاج اور مذمت کے طریقوں کو اپنی اپنی فہم کے اعتبار سے ترجیح دے رہا ہے. دقتِ نظر اور طبیعتِ سلیمہ شیما کرمانی کی حرکت کو جائز اور درست نہیں گردانتی اور اس احتجاجی مظاہرے یا طریقے کو ترجیح دینے والے حمایتی طبقے کو بھی طبیعتِ فاسدہ کا متحمِّل سمجھتی ہے.. احتجاج حق ہے ظلم کے خلاف إعلاءِ أصوات لازمی ہے لیکن طریقہ انسانوں والا ہونا چاہئے –
دھمال ڈالنا کوئ حل نہیں، بس نظروں کی تشنگی کے لئے سیرابی کا باعث ہے. وصفِ انسانیت کے مساوی طریقہء احتجاج اپنایا جائے تو انشاءاللہ کوئ اختلاف نہیں کریگا. مخالفوں کو بھی حامی پایا جائے گا. دھماکوں کی مزاحمت میں دھمال کا انداز واقعی نرالا ہے – عقلمندی تو اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ عمل اور ردِّ عمل نوعیت میں مساوی ہوں کم از کم عقلی طور پر مطابقت تو نظر آئے دونوں میں. کیا آپکو دہشت گردوں کے دھماکوں میں اور شیما کرمانی کے احتجاجی رقص میں واقعی مطابقت اور یکسانیت نظر آرہی ہے.
اگر آرہی ہے تو یقیناً آپکا استدلال عمران خان کے دھرنے سے ہوگا کیونکہ اس میں بھی کرپشن کے خلاف اسی دھمال کے مثل خوب دھمالی احتجاج ہوا بلکہ اس دھمال کا لیول تو اس دھمال سے بھی زیادہ شدید تھا – مجھے تو لوگوں کی کم علمی اور بےبسی پر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ کس طرح کے بیہودہ سوالات کیے جارہے ہے کہ دھمال کو قرآن سے ثابت کرو..؟ اپنا مسلک بتاؤ..؟ افسوس بے حد افسوس بلکہ ایسے لوگوں پر تف ہے، محترموں جن چیزوں سے خدا اور اس اسکے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روک دیا ہے تو بس اسی پر عمل پیرا ہوکر اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت دیجئے ناکہ مسلک مسلک کهیلتے ہوئے فرقہ پرستی کو پروان چڑھائیے، بعض ڈانشوڑوں نے تو دھمال کو زاہدوں کی اللہ هو اللہ هو پر ترجیح دے دی کافی دیر تک پوسٹ پڑھ کر سوچتا رہا کہ یہ تو اسلامی تعلیمات سے کهلم کهلا انحراف ہے اور دهمال و بهنگڑے، مخلوط محافل، رقص و سرور تو جاہلیت اولی کی رسوم ہیں جنہیں اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے “کل امر الجاهلية تحت قدمی” کہہ کر دفنا دیا تها –
پهر قرآنی نصوص پر نظر گئی تو دیکها کہیں تو انبیاء کرام کے بعد پاکیزہ ترین ہستیوں ازواجِ مطہرات کو کہیں تو آواز میں کرختگی کا حکم دیا جا رہا ہے، کہیں انہیں بڑی چادر سے جسم ڈهانپنے کا حکم ہے، کہیں سج سنور کر گهر سے باہر قدم رکھنے کی ممانعت کی ہے تو کہیں صحابہ جیسی عظیم الشان ہستیوں کو پردے کے پیچھے سے ضرورت کی اشیاء مانگنے کا حکم ہے، غرض ہر طرح سے موصوف کے فتویٰ کو اسلام کی تعلیمات سے ثابت کرنے کی کوشش کی تو ناکام ہی رہی جس پر انکے لیے ہدایت کی دعا ہی مانگی جاسکتی ہے،بس…!!! نا میں بریلوی نا آپ دیوبندی آیئے صرف قرآن مجید پر عمل پیرا ہوکر ایسی لغویات سے بچیں جو ہمارے درمیان تفریق پیدا کرے –
جنہوں نے دهمال کو بزرگانہ ورثہ قرار دیا، شرما و حیاء کی حدود سے کوسوں دور غیر محرموں کے جهرمٹ میں تهرکتا جسم انہیں عبادت میں محو نظر آیا، ٹهمکے انہیں اسلاف کی انسانی دوستی کا اظہار کرتے نظر آئے، پهر دل کو یہ کہہ کر خاموش کر دیا کہ چپ ہو جا اور انتظار کر کہ موصوف بہت جلد مع اپنے خاندان کے کسی مزار پر اس سے بہتر دهمال ڈال کر اپنے اعمال نامے کو بهاری کرتے نظر آئیں گے کیونکہ ان کے نزدیک یہی عبادت ہے اور یہی فلاح و کامیابی کا گر ہے ، اکبر الہ آبادی ایسوں کیلئے ارشاد فرماتے ہے “یہی بس اکبر کی التجا ہے جناب باری میں یہ دعا ہے علوم و حکمت کا درس انکو پروفیسر دیں سمجھ خدا دے ” آپ لوگ شرفاء ہیں بد گمانی نہیں کرتا لیکن بالفرض کوئ شخص آپ سے لڑنے لگے اور فی الوقت آپ اس پر جوابی کارروائی کرنے کی قدرت نہ رکھتے ہوں تو کیا اس صورت میں ناچنا شروع کروگے..؟ بھائ بات یہ ہے کہ احتجاج آپکا حق ہے لیکن امن چاہتے ہو تو کچھ ایسا کرو جس سے دھشت گرد اوندھے منہ زمین پر گر پڑیں انکو اور انکے منصوبوں کو ناکام کرکے پیروں تلے روندا جائے، دہشتگردی کا نام و نشان مٹا دیا جائے. کیا اس دھمال کا حاصل یہی ہوگا..؟ اگر نہیں تو ایسا احتجاجی مظاہرہ نہ کرنا چاہیے جو انکو انکے مشن میں کامیابی کے بعد لطف اندوز کرے امید ہے سمجھ جاؤ گے.
شیما کرمانی کے کئے گئے کام کو چھوڑو بات خواہ مخواہ طول پکڑ جائے گی – اکبر الہ آبادی کی روح سے معزرت کرتے ہوئے: “‏

میں ایسی تحاریر کو قابلِ ضبطی سمجھتا ہوں
جن کو پڑھ کر بیٹا باپ کو خبطی سمجھتا ہو “

مناظر: 278
شئیر کریں
vicky
vicky

Related posts

جون 13, 2022

عمران خان کا یہ قصور کم نہیں تھا!


مزید پڑھیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

✕

اقسام

  • قرآنیات
  • سیرت النبی
  • امروزیہ | آج کی تحریر
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاست | معیشت
  • شخصیات | انٹرویوز
  • تعلیم | تربیت
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خواتین کارنر | صحت
  • اردو ادب | لٹریچر
  • انتخاب | نادرتحریریں
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کتابوں پر تبصرے
  • Uncategorized

تازہ ترین پوسٹس

  • 0
    پیغام ابراہیم
    جولائی 12, 2022
  • 0
    عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
    جولائی 11, 2022
  • 0
    مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
    جولائی 8, 2022

حالیہ تبصرے

  • جون 7, 2022

    M Abbas Shad commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

  • جون 5, 2022

    امیر حمزہ وٹو commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

Array

اہم ضوابط

اکاؤنٹ

پالیسی و ترجیحات

اغراض و مقاصد

نئے لکھنے والوں کے لئے

تازہ تحاریر

  • پیغام ابراہیم
  • عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
  • مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
  • تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
  • سرسید اور حقوق نسواں

رابطہ

موبائل نمبر : 03009426395

فون نمبر : 04237239138

ای میل : da******************@***il.com

پتہ: دارالشعور 37.مزنگ روڈ لاہور

تعارف

"دارالشعورمیگزین" دارالشعور پبلیکیشنز کا ایک ذیلی پلیٹ فارم ہے۔ جو دارالشعورپبلیشرز اور مطبوعات مکی دارالکتب کے ترجمان سہ ماہی مجلے "الصدق" لاہورکی ترقی یافتہ شکل اور ماہنامہ رسالہ "دارالشعور،لاہور"کا ایک متبادل میگزین ہے۔ جو اب ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سوفٹ کاپی کی شکل میں آن لائن شائع ہوتا ہے۔اور اس میں کتابوں پر تبصروں اور تعارف کے علاؤہ مختلف سماجی ،سیاسی اور علمی موضوعات پر آپ کی خدمت میں معیاری مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ جو دارالشعورکے ہم خیال منصفین کی قلمی کاوشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز کو توانا بنانے کے لیے دارالشعور میگزین میں اپنے مضامین،تجزیے اور تبصرے بھیج کر ہماری ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ دارالشعور پبلیکیشنزکی آفیشل ویسائٹ کو نیچے دیئے گئے لنک کو کلک کرکے ویزٹ کرسکتے ہیں۔ www.darulshaour.com

دارالشعور میگزین © 2022
اکاؤنٹ