بلاول بھٹو کے صوفے پر دو کتابیں پڑی تھیں، دونوں لٹریچر سے متعلقہ تھیں۔ میں نے جب بلاول کو بتایا کہ میری ترک دوست یشار سیمان کا ترک ناول ’’بے نظیر‘‘ انگریزی میں ترجمہ ہوگیا ہے تو وہ بہت خوش ہوا، اور جب اس کو یہ معلوم ہوا کہ یہ سوانح حیات نہیں بلکہ ایک سوانحی ناول ہے تو اس کی خوشی دیدنی تھی۔ فرخ صاحب، یہ ناول ہے، واہ! میں نے کہا، جی بلاول صاحب، یہ ناول ہے اور شاید محترمہ بے نظیر بھٹو پر لکھا جانے والا پہلا ناول ہے۔ اسے لکھا ہے یشار سیمان نے جو ترکی کی بہت بڑی لیڈر ہیں اور اپوزیشن پارٹی جمہور خلق پارٹی کی رہنما ہیں۔ اسے ترجمہ بھی ایک ترک لڑکی نے کیا ہے جس کے دادا جدید ترکی کے بانی کمال اتاترک کے ساتھی اور والد جناب بلند ایجوت کے ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔ ناول میں بے نظیر بھٹو ، دریائے سندھ سے ہم کلام ہیں۔ کہیں کہیں تو رلا دیتا ہے یہ ناول۔ میری شریک حیات ریما گوئندی اس کی ایڈیٹنگ کرتے کرتے کبھی پُرنم آنکھوں سے میرے کمرے میں آجاتیں اور کہتیں، فرخ اس ناول کو ہمیں جلد شائع کرنا ہوگا۔ یشار سیمان، ترک ادیب مرحوم یشار کمال کی بیٹیوں جیسی ہیں اور باکمال خاتون ہیں۔ میں نے یشار سیمان سے کہا کہ آپ نے دختر مشرق پر ناول لکھا، جو ہم پر احسان ہے۔ بے نظیربھٹو شہید، دختر مشرق کے نام سے جانی جاتی ہیں اور میں نے آپ کو ناول کے تعارف میں دختر اناطولیہ لکھا ہے۔ اس پر یشار سیمان بہت خوش ہوئیں۔ اس ناول کی اشاعت کے دوران مجھے ستار طاہر مرحوم کا ذوالفقار علی بھٹو پر لکھا ناول یاد آگیا، ’’سورج بکف شب گزیدہ‘‘۔ بلاول بھٹو اس ناول کی اشاعت پر بہت خوش ہیں۔ پوچھنے لگے کہ کیا انگریزی کے بعد اردو ترجمہ بھی آئے گا۔ میں نے بتایا کہ جی ہاں، اردو میں ترجمے کا انتظام بھی کرلیا ہے۔ ’’بے نظیر‘‘ ناول جہاں انگریزی ادب میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے خوشی کا باعث ہوگا، وہیں اردو ناول یقینا اردو دنیا میں اپنا الگ مقام پیدا کرے گا۔
بلاول بھٹو پوچھنے لگے، کیا لوگ ترقی پسند کتابیں پڑھتے ہیں؟ تو میں نے کہا کہ اگر آپ ترقی پسند سیاست کو فروغ دیں گے تو ترقی پسند سوچ، تحریک، رحجانات اور نظریات زور پکڑیں گے اور اسی طرح اگر ترقی پسند ادیب اپنے قلم کے جوہر دکھلائیں گے تو سماج میں ترقی پسند سیاست زور پکڑے گی۔الیکٹرانک میڈیا نے جمہوریت کو کم فروغ دیا ہے، رجعت پسندی اور سنسنی خیزی کو زیادہ۔ اگر آپ اپنی پارٹی کو نانا کی پارٹی جیسی بنانا چاہتے ہیں تو ان کی پرواہ نہیں بلکہ پسے ہوئے عوام کی فکر کریں۔ بلاول بھٹو کہنے لگے، الیکٹرانک میڈیا میں کوئی ترقی پسند اینکر ہی نہیں۔ میرا جواب تھا، جو ہوتا ہے اس کو فارغ کردیا جاتا ہے، جن میں مَیں بھی شامل ہوں۔ چوںکہ الیکٹرانک میڈیا لوگوں کے حقوق کے متعلق ، آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔ بلاول بھٹو بے چین تھے یہ جاننے کے لیے کہ پی پی پی کی ساکھ اور مقبولیت کو کیسے بحال کیا جائے۔ میں نے اس اشتیاق پر کہا کہ نظریہ بحال کردیں۔ سوشلزم۔ عوامیت اور غریبوں کی سیاست۔ اُن کو میں نے ایک سیکھنے والا نوجوان پایا۔ میں نے عرض کیا کہ بلاول بھٹو صاحب، آپ اپنے نانا کی پارٹی بحال کردیں۔ یہ پاکستان کی آج بھی سب سے طاقت ور جماعت بن کر ابھر سکتی ہے۔ پاکستان کی اب تین بڑی جماعتیں ، مسلم لیگ (ن)،پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی۔مسلم لیگ (ن) پنجاب کی مرکنٹائل کلاس کی جماعت ہے، دکان دار اور تاجر طبقات کی جماعت۔ پاکستان تحریک انصاف نے گلوبلائزیشن کے بطن سے جنم لیا۔ عالمی سرمایہ داری اور مقامی سرمائے نے ایک نئی پڑھی لکھی مڈل کلاس کو جنم دیا ہے۔ اس جماعت کے ساتھ خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی متحرک ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی، نئی مڈل کلاس کی نمائندہ ہے۔ اس نے تبدیلی کا پرچم بلند کیا ہے۔ وہ نظام کو مرمت کرنے پر یقین رکھتی ہے اور اسے تبدیلی سے تعبیر کرتی ہے۔ اسی لیے پی ٹی آئی، کسانوں، مزدوروں اور محنت کش طبقات کے لیے ریڈیکل مطالبات اور نظریات بلند کرنے سے گریزاں ہے۔ وہ گڈ گورننس یعنی اچھے لوگوں کی حکومت قائم کرنے پر یقین اور اتفاق کرتی ہے بلکہ وہ خوف زدہ ہے کہ اگر محنت کش طبقات کی لائن لی تو سب کچھ الٹ پلٹ جائے گا۔ اور یہ آپ کی خوش نصیبی ہے کہ عمران خان شعوری اور غیرشعوری طور پر اپنی پارٹی کی مقبولیت کو مڈل کلاس سے آگے لے جانے میں ناکام رہے ہیں۔ وہ سماج کے سب سے پسے ہوئے طبقات تک نہیں پہنچ پائے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کا سب سے بڑا سرمایہ ہی یہ طبقہ ہے۔ اگر پی پی پی اس پسے ہوئے طبقات کے لیے ریڈیکل لائن لے لے تو آپ دیکھیںگے، سماج میں ارتعاش نہیں بغاوت بلند ہوگی اور آپ کی پارٹی مقبولیت کی اس معراج پر جا سکتی ہے جس کا آپ خواب دیکھنا چاہتے ہیں۔ آپ کی پارٹی کی چار طاقتیں ہیں۔ آپ کی پارٹی کی تاریخ، دوسرا آپ کی پارٹی کا بنیادی منشور، تیسری طاقت ہے آپ کی پارٹی کے ورکرز اور چوتھی طاقت آپ کے ووٹرز، جہاں آپ کی پارٹی آج بھی مقبول پارٹی ہے، یعنی سب سے زیادہ استحصال زدہ طبقات۔ بس آپ ان چار طاقتوں کو جوڑ دیں اور ایک عوامی لائن لیں، پھر دیکھیں معجزے ہوں گے۔ اگر آپ اِن پسے ہوئے طبقات سے اپنی پارٹی کو درمیانے درمیانے طبقات تک مقبول کردیں تو پھر تبدیلی نہیں انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے۔
بلاول بھٹو حیران اور خوش تھے اس تجزیے سے۔ کہنے لگے، فرخ صاحب، ہماری مدد کریں۔ میں نے کہا، جی میں پارٹی کا کارکن نہیں رہا اور نہ ہی خواہاں ہوں کسی عہدے کا۔ وہ کہنے لگے کہ ہم پارٹی کا انتخابی منشور لکھ رہے ہیں، آپ مدد کریں۔ اور پوچھنے لگے کہ آپ پارٹی میں کب تھے۔ میرا یہ جواب سن کر مسکرائے کہ تب میں سات آٹھ سال کا تھا۔ اور پھر میں پاکستان پیپلزپارٹی شہید بھٹو میں چلا گیا۔ پوچھنے لگے، کب۔ میرا جواب تھا کہ 1998ء میں۔ اُن کے چہرے پر جستجو تھی۔ میں نے بتایا کہ میں وہاں شامل ہی نہیں تھا بلکہ نہایت متحرک اور کلیدی حیثیت رکھتا تھا۔ مگر میں نے دیکھا کہ پی پی پی (ش ب) سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتی تو پارٹی ہی چھوڑ دی اور عملی سیاست اور ایک نیا ماڈل بنایا جسے میں Intellectual Activism کہتا ہوں۔ اسی کے تحت ایک ترقی پسند اشاعتی ادارہ منظم کرنے کا فیصلہ کیا اور آج اس ترقی پسند اشاعت گھر جُمہوری پبلیکیشنز کو پاکستان کے صفِ اوّل کے اشاعتی اداروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ہمارے ادارے سے پاکستان میں سب سے زیادہ ترقی پسند لٹریچر شائع ہورہا ہے۔ سیاست، ادب، عالمی ادب، کرنٹ افئیرز، تاریخ، سب کچھ۔ اور اسی کے ساتھ میں نے اپنے آپ کو الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا سے باقاعدہ منسلک کرلیا اور اب ایک نیا منصوبہ ہے، Alternative Media میں باقاعدہ منصوبہ بندی اور جدید پروفیشنل تقاضوں کے مطابق Contrbute کیا جائے۔ مقصد ایک ہی کہ میرے وطن میں سیاسی، سماجی، معاشی اور ثقافتی انقلاب برپا ہو۔ بلاول بھٹو کہنے لگے کہ فرخ صاحب آپ بہت بڑا کام کررہے ہیں۔ پارٹی کے لیے بھی کچھ کریں۔ میرا جواب تھا کہ میرے ان کاموں کا فائدہ کسی رجعتی جماعت یا تحریک کو نہیں ہوسکتا، یقینا آپ کی جیسی جماعتیں ہی ان علمی، ادبی، نظریاتی اور فکری سرچشموں سے مستفید ہوتی ہیں۔ وہ میری ایک بات پر چونکے جب میں نے کہا کہ میں اگرچہ آپ کی پارٹی میں نہیں ہوں، لیکن میرا سب سے بڑا عشق ہے، ذوالفقار علی بھٹو۔ وہ اس پر مسکرائے۔ اور میں نے یہ بھی بتایا کہ مجھے چاہنے والے اکثر مجھ سے پوچھتے ہیں، بشمول میری شریک حیات ریما بھی کہ مجھ سے زیادہ؟ تو میں کہتا ہوں، جی ہاں۔ سب سے زیادہ۔ جو شخص دوسروں کے لیے سُولی پر چڑھ جائے، اس سے عشق نہ کیا جائے تو کتنی کم ظرفی ہوگی۔ سولیوں پر چڑھنے والے انقلابیوں سے عشق کرنا بہادری ہے، بزدلی نہیں۔
یہ ایک طویل ملاقات تھی۔ ایک ایسے نوجوان لیڈر سے جس کی پارٹی پنجاب میں مایوس کن حد تک سکڑ چکی ہے اور وہ اس کو دوبارہ مقبول بنانے کے لیے بے قرار ہے۔ میں نے کہا، بلاول، سب کچھ ممکن ہے۔بس آپ عوام کی لائن لیں۔ احتیاط کے ساتھ۔ کسانوں کی لائن۔ پسے ہوئے طبقات کی لائن۔ ذوالفقار علی بھٹو آج بھی سب سے مقبول رہنما ہیں، اُن کی سیاسی فکر کا پرچم بلند کریں اور اپنے گرد اُن کے جانثار اکٹھے کریں۔ پارٹی صرف بحال نہیں ہوگی بلکہ بہت سوں کو بہا کرلے جائے گی۔
بلاول بھٹو اس ملاقات پر بڑے خوش تھے۔ میں نے چلتے چلتے کہا، اگر آپ پاور چاہتے ہیں تو وہ مل جائے گی۔ اگر پارٹی چاہتے ہیں تو محنت درکار ہے۔ اقتدار جناب آصف علی زرداری صاحب حاصل کرہی لیں گے۔ وہ میری اس بات پر مسکرائے۔ میں نے مزید کہا کہ اہم یہ ہے کہ آپ پارٹی کو پاکستان کے عوام کی پارٹی میں بدل دیں، یہ اقتدار حاصل کرنے سے بڑا اور تاریخی کام ہے۔ بلاول بھٹو نے کہا، مجھے پارٹی کو ذوالفقار علی بھٹو کی جیسی مقبول پارٹی بنانا ہے۔ میرا کہنا تھا کہ جی اگر آپ پارٹی کو مضبوط بنائیں گے تو اقتدار By-product ہے اور اقتدار بھی عوام کے لیے ہوگا، چند لوگوں کا نہیں۔ بہنوں کو پیار کہیے گا اور اپنی سیکیوریٹی کا ہروقت خیال رکھنا بلاول۔ اگلی ملاقات کا وعدہ دے کر روانہ ہوا۔ (ختم شد)