کچھ گونگے بہرے اور اندھے لوگ چاہتے ہیں کہ دنیا انہی کی طرح ہوجائے ۔ایسا نہیں ہے کہ وہ بول نہیں سکتے ۔حق کو باطل اور باطل کو حق ثابت کرنے کے لئے انکے دہن میں چار گز لمبی زبان ہے ۔وہ لوگ بہرے بھی نہیں ہیں کیونکہ اپنے مطلب کی باتیں بہت دور سے سن لیتے ہیں۔انسانیت پر ظلم کے علاوہ انہیں سب کچھ دکھائ دیتاہے یعنی وہ اندھے بھی نہیں ہیں۔یہ لوگ’’ صم بکم عمی‘‘ کی زندہ مثال ہیں۔چاہتے ہیں جس طرح وہ گاندھی جی کے تین بندروںکی طرح ادھر اُدھر اچکتے پھاندتے پھرتے ہیں پورا معاشرہ انکی نقل کرتا پھرے۔یہ لوگ جابر حکومتوں کے پالتو اور زر خرید ہوتے ہیں۔اسی طرح جس طرح کسی زمانہ میں جانوروں کے گلّے کی حفاظت کے لئے کتے پالے جاتے تھے ۔یہ لوگ ان کتوں کے لئے بھی بدنامی کا باعث ہیں ۔کیونکہ وہ کتے اپنے مالک کا حکم بجالاتے تھے ۔گلّے کی حفاظت میں جی توڑ محنت کرتے تھے ۔وفاداری انکے خون میں تھی مگر یہ لوگ اپنے مفاد کے لئے وقت اور حالات کے تقاضوں کے پیش نظر مالک بدلتے رہتے ہیں۔آج جس کے وفادار ہیں حیرت نہیں کل انہی پر بھونکتے ہوئے نظر آجائیں۔جس کی کھائو اسی کی گائو کا زمانہ نہیں ہے ۔کیونکہ آج کل چپ چاپ کھائو اور پھر آگے بڑھ کر کسی دوسرے کے یہاں کھائو کی سنت پر عمل ہورہاہے۔وفاداری کس چڑیا کا نام ہے اور وہ کتنا اونچا اڑتی ہے ایسے لوگ کیا جانیں۔ مرزا نوشہ شاید ایسے ہی لوگوں کی فطرت دیکھ کر ہی کہہ گئے تھے ؎
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید جو نہیں جانتے وفا کیاہے
مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا میں ایسے ہی لوگوں کی قدر ہوتی ہے ۔کیونکہ دنیا ایسے لوگوں سے بھری پڑی ہے ۔اگر آپ ان کی طرح رنگ بدلنا نہیں جانتے ہیں تو سمجھ لیجیے آپ کے خون کارنگ سفید ہوگیا ہے ۔آنکھ میں سور کا بال نہیں ہے تو آپ خنزیروں کے درمیان زندگی نہیں گزار سکتے ۔
ہم ایک منافقانہ طرز فکر کے حامل سماج میں زندگی گزار رہے ہیں۔یہاں ہر انسان کے دو نہیں کئ چہرے ہیں۔چہروں پر دُہرا نقاب نہیں بلکہ کئ کئ نقاب ہیں۔ ان نقابوں کے پیچھے کتنے سفاک،مفاد پرست اور مکروہ چہرے چھپے ہوئے ہیں کوئ نہیں جانتا۔کوئ چہرہ مذہبی تقد کی آڑ میں سیاسی کھیل کھیلتاہے تو کوئ سیاست کی آڑ میں مذہب کے ساتھ کھیلتاہے۔ہماری منافقت کا عالم یہ ہے ہمیں عالمی سطح پر جاری ظلم و بربریت کےروح فرسا مناظر کھائ دیتے ہیں مگر سیاست کی آگ میں جلتے ہوئے کشمیر کی چیخیں سنائ نہیں دیتیں۔ ظلم کہیں بھی ہو اور کسی بھی قوم و قبیلے پرہو اسکی مذمت کرنا اور مظلوموں کی ہر ممکن مدد کرنا ہی اسلامی شعار ہے ۔مگر ہم ظلم کی مخالفت اور مظلوموں کی حمایت میں اسلامی طریق کار کے بجائے سیاسی مصلحت کوشی کا شکار ہیں۔ ہمیں نا تو حافظ جنید کا قتل نظر آتا ہے اور نہ سہارنپور کے شبیر پور میں ہوئے فرقہ وارانہ فساد کی حقیقت دکھائ دیتی ہے ۔دلتوں پر ہورہے مظالم میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے اور اقلیتی طبقہ خوف و دہشت کے ماحول میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے مگر ہم اب بھی ’’اچھے دنوں‘‘ کے قصیدہ خواں ہیں۔ بے چہرہ بھیڑ(جبکہ اس بھیڑکا چہرہ بھی ہے )مسلمانوں کے قتل عام پر آمادہ ہے اور ہم قاتلوں کی پزیرائ کررہے ہیں۔زعفرانی دہشت گردی کے بانیوں کی افطار پارٹی میں شریک ہونے والے مسلم رہنما ئوں اور مسلم عوام کو اللہ جانے کیوں شرم نہیں آئ۔ یہی لوگ مسلمانوں کے خون کے سوداگر ہیں۔خون کے سوداگروں کو لاشوں کے ڈھیر پر چڑھ کر اپنا قد اونچا کرنے کا جنون ہمیشہ سے رہا ہے اور رہے گا،فلسطین کےلئے احتجاج کرنے والی قوم کے مذہبی رہنما اسرائیل کی دعوتیں اڑاتے نظر آتے ہیں اور جنت البقیع کے لئے سینہ چاک کرنے والے اسرائیلی پارٹیوں کے دعوت نامے تقسیم کرتے مل جاتے ہیں ۔ ہم خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیں مگر نصاب تعلیم میں ترمیم کی جارہی ہے ۔آرایس ایس اپنے نظریات کو داخل نصاب کررہی ہے اور ہم خاموش ہیں۔اردو اخبارات کو منصوبہ بند پالیسی کے تحت بند کردیا گیا ہے مگر ہمارے گوش مصلحت کوش پر جوں تک نہیں رینگتی ۔یہ موسم زبان بندی خوف کی بنیاد پر جاری ہے یا ذاتی مفادات کی خاطر ملک کی سالمیت اور قومی مفادات کا سودا کیا جارہاہے ؟۔اگر ہم اپنا گھر ہی نہیں بچا سکتے ہیں تو دوسروں کے گھروں کی فکر کیوں کرتے ہیں؟اپنے ملک اور اپنی قوم کے مفادات اور جان و مال کے تحفظ کے لئے سیاسی جگلروں کے خلاف اٹھنے کی جرآت نہیں ہےتو پھر دوسرے ملکوں میں ہونے والے واقعات و مظالم پر احتجاج کرنے کا حق نہیں ہے۔اگر ہم وہاں ہوتے تب بھی سیاسی مفادات کی بازی گری ،اقتدار کی ہوس،اور جان کا خوف ظالموں کے خلاف قیام کی اجازت نہیں دیتا۔ دراصل ہمارا مزاج منافقانہ ہے ۔اور یہ منافقانہ رویہ ہی ہمیشہ ملکی و قومی مفاد کے لئے خطرہ رہا ہے ۔
سیاسی گلیاروں میں بھونکنے والے کتوں کے لئے ہر صاحب اقتدار کے پاس ہڈیاں ہوتی ہیں۔کتے بھی چچوڑی ہوئی ہڈیوں کو نوچنا ہی پسند کرتے ہیں۔مگر ان انسان نما کتوں کی خصلتیں حقیقی کتوں کی خصلتوں سے بھی بد ترہے ۔شاید آپ کو علم نہ ہو کہ سید حسن بصری نے کتے کی دس ایسی خصلتیں بیان کی تھیں جو انسانوں میں نہیں ہوتیں۔یعنی ا س لحاظ سے کتے انسانوں سے افضل شمار ہوتے ہیں۔حسن بصری نے کہاتھا ’’کتے میں دس خصلتیں ایسی ہیں جو بہت کم انسانوں میں پائی جاتی ہیں۔ ایسا انسان جو ان خصلتوں سے یکسر عاری ہے، اس سے کتا ہزار درجہ بہتر ہے۔ اور اگر یہ دس خصوصیات انسان میں پیدا ہو جائیں تو انسان کی دنیا و آخرت دونوں سنور جائیں‘‘۔یعنی انسان بسا اوقات کتے سے بھی بدتر ہوجاتاہے ۔ایسے بدترین لوگ ہی دوسروں کو کتا سمجھتے ہیں مگر اپنی کتاگری کو بھول جاتے ہیں۔ایسے لوگوں کو کتوں کی ان خصلتوں کو اپنا نا چاہئے جو انسان کی دنیا و آخرت کو بہتر بناسکتی ہیں۔کچھ خصلتیں بیان کررہاہوں مگر دیگر خصلتوں کے علم کے لئے ’’سیاسی کتا‘‘ نہ بننے کے لئے آپ بھی تھوڑی جستجو ضرور کریں۔سید حسن بصری کہتے ہیں کہ کتے کا اپنا ذاتی مکان نہیں ہوتا یہ متوکلین کی علامت ہے ۔مگر انسان اپنا مکان ہوتے ہوئے بھی سیاسی گلیاروں میں ٹھوکریں کھاتا پھرتاہے کہ کس طرح نیتا جی کے منحوس قدم مل جائیں اور وہ انکے قدموں پر سجدۂ نیاز ادا کرے۔سید حسن بصری نے عجیب خصلت نقل کی ہے وہ کہتے ہیں کتا اپنے مالک کا ہر حال میں وفادار ہوتا ہے ۔خواہ وہ کتنا بھی اسے مارے یا پھٹکارے مگر وہ اپنے مالک کا ساتھ نہیں چھوڑتا۔مالک پر کتنی ہی مصیبتیں کیوں نہ آئیں مگر وہ اس سے جدا نہیں ہوتا ۔یعنی وہ انسان نما جانوروں سے کتنا افضل ہے جو وقت اور حالات کے بدلتے ہی مالک بھی بدل لیتے ہیں۔
ان سیاسی گلیاروں کےکتوں کو علم نہیں ہے کہ جس ملک میں جانوروں کو مذہبی تقدس عطا ہو اور انکے مُوت سے بھی ارزاں انسانوں کا لہو سمجھا جائے وہ ملک کبھی ترقی نہیں کرسکتا۔ایسے ملک پر ہمیشہ سامراجی طاقتیں مسلط رہتی ہیں۔انکی جہالت کو اپنے مقاصد کے تحت استعمال کیا جاتاہے ۔مگر احمقوں کو سمجھانے کا کوئی فائدہ نہیں مگر ہم گونگے بہرے اور اندھے بن کر زندگی نہیں گزار سکتے ۔اگر اندھے پن کا سوانگ رچانے کا اتنا ہی شوق ہے تو آنکھوں پر پٹی باندھ کر سڑکوں پر نکلا کریں ۔کہ نہ کچھ دیکھیں گے نہ کچھ بولیں گے ۔
مناظر: 110