ایک مذاکرے میں جو نظریۂ پاکستان کے فورم کے تحت ہورہا تھا، بزرگ کیا اور جوان کیا، سب ہی یہی کہہ رہے تھے کہ ہم نے نظریۂ پاکستان بھلا دیا، اس لیے ہم رسوا ہورہے ہیں۔ ہر کوئی بڑے جوش سے اپنی تقریر کرتا اور اقبالؒ کے دو چار اشعار سے جذبات کو مزید تقویت دے کر داد پا رہا تھا۔ تقریریں سنتے سنتے راقم حیران تھا کہ بزرگ معذرت کے ساتھ جو صرف عمر میں بزرگ تھے، فکرودانش میں طفل مکتب بھی نہ تھے، ان سب کی تقریریں سن کر عجیب بے چینی برپا ہورہی تھی۔ بس ایک ہی دلیل تھی جو ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ فلاں بازار میں سب دکانیں ہندوئوں کی تھیں، مسلمان ملازم اور غریب تھے، اب ہر دکان مسلمان کی ہے اور یوں پاکستان بننے سے مسلمانوں کی زندگیاں بدل گئیں۔ جب راقم کی باری آئی تو بڑی احتیاط سے اپنے الفاظ کو بُن کر بیان کرنے لگا اپنی تقریر میں۔ پوچھا کہ میں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ نظریۂ پاکستان کیا ہے۔ جو ہم یہاں سن رہے ہیں اور دہائیوں سے سن رہے ہیں، کیا اقبال کے شعروں کو نظریۂ پاکستان قرار دے کر اپنا فرض ادا کردینا ہی کافی ہے۔ اپنی خطابت کے تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سامعین، بزرگ (نامور بزرگ) اور نوجوان مقررین سے پھر سوال داغا کہ کیا ہے نظریۂ پاکستان۔ سناٹا چھا گیا۔ بس پھر کیا تھا، اگر میں سوال دہراتا تو یقینا مجھے سٹیج سے کھینچ کر اتار دیا جاتا۔ لیکن بات کرنے کا فن ہی دانش اور خطابت کا بنیادی حُسن ہے۔ جذباتی تقریریں، باتیں اور دعوے کرکے سامعین کے میلے لوٹنا آسان ہے اور ہمارے ہاں یہ روایت طاقت پا چکی ہے۔ افسوس اس جذباتیت نے قوم کو مزید اندھیروں میں دھکیل دیا۔ اور یوں ہم پاکستان کی آزادی کے باوجود بھی آزاد نہیں ہوسکے۔ غربت، جہالت اور پسماندگی کا راج ہے اور اس پر سارے نظام پر چند فیصد لوگوں کا راج جو سارے ملک کے وسائل کے مالک ہیں، شاید پانچ فیصد۔ میں نے سکتے میں آئے سامعین اور مقررین سے بڑے عاجزانہ انداز میں عرض کیا کہ نظریہ پاکستان ہے اس دھرتی پر بسنے والے لوگوں کی غربت کو خوش حالی میں بدلنا، جہالت زدہ معاشرے کو تعلیم یافتہ بنانا، محکوم لوگوں کو اُن کے پورے حقوق دے دینا نظریۂ پاکستان ہے۔ شہروں میں چند فیصد مال ودولت حاصل کرنے پر یہ دعوے کرنا کہ اب ہمارا وطن آزاد ہوگیا، ایک فضول دلیل ہے، یہ کہ موہن لعل کی جگہ انارکلی میں حاجی اللہ بخش دکان کا مالک بن گیا۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ پاکستان ہماری ملکیت ہے لیکن کیا ہم نے کبھی یہ غور کیا کہ یہاں پر بسنے والے کتنے فیصد لوگوں کے نام زمین ہے، اس سرزمینِ پاک کا ایک مرلہ زمین بھی اُن کے نام نہیں، یقینا اُن کی تعداد بڑی ہے، ممکن ہے اسّی نوے فیصد۔ یہاں پر جو کسان سارے ملک کو پال رہا ہے جو ملک کا آج بھی 70فیصد ہیں، وہ سارے کے سارے بے نام زمینوں پر کاشت کرکے اس ملک وریاست میں رہنے والوں کو پال رہے ہیں۔ یعنی اُن کے نام کوئی زرعی زمین نہیں۔ ان لوگوں کے حقوق کا نام ہے، نظریۂ پاکستان۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ اور اُن کے ساتھی ایسا پاکستان چاہتے تھے جو ان جاگیرداروں اور استحصالیوں کے شکنجے سے آزاد ہو۔
ہمیں جو شہروں میں رہتے ہیں بلکہ وہ لوگ جو دانشوری کے دعوے کرتے ہیں، اُن کو کسانوں کی حالت زار کا شاید ہی علم ہو، کہ ہمارے ملک کے کسانوں کی کتنی قسمیں ہیں۔ ایک مزارع وہ جو غیرموروثی ہیں اور ایک موروثی۔ موروثی یعنی پشت در پشت غلام اپنے جاگیردار کے۔ مجھے ایسے دہقانوں کے ہاں جانے اور اُن کے حقوق کے لیے برپا جلسوں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ ایسے مزارع غلام داری نظام کے زمرے میں آتے ہیں۔ یہ زیادہ تر سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں ہیں۔ غیر موروثی دہقانوں کی زندگی ان سے بھی اجیرن ہے۔ انہیں مزدور کی طرح زمین دار یا جاگیردار فصل کی کٹائی کے لیے بلاتا ہے اور کٹائی کے بعد انہیں بے دخل کردیا جاتا ہے۔ ہم نے کیا کبھی ان موضوعات کو چھوا، ہم سے مراد، ہماری سیاسی جماعتیں، دانشور، کالم نگار، اینکرز اور تجزیہ نگار جو ہمہ وقت پاکستان بدلنے کی باتیں اور دعوے کرتے ہیں۔ ان غلاموں، دہقانوں اور محنت کشوں کے لیے ہمارے قلم لکھنا بھول گئے ہیں اور زبانیں ان الفاظ کو بیان کرتے گنگ ہیں۔
ہم نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں۔ مگر کیسے؟ دس فیصد کے پاکستان کو بیس فیصد کا پاکستان بنا دیں گے؟ یعنی وہ جو حکمران طبقات ہیں، یہاں کے وسائل اور اقتدار کے مالک اور اُن سے مستفید ہونے والی اپر مڈل اور مڈل کلاس کا پاکستان۔ تو اسّی یا ستر فیصد پاکستان تو پھر بھی غلام ہی رہا۔اکثر لوگ شہروں میں جنم لینے والی مڈل کلاس کی بڑی تعداد، گاڑیوں کے انبوہ، دکانوں کی قطاروں اور اُن میں لدے ملکی اور غیرملکی برانڈز کی مصنوعات، عالمی فوڈ کے ریستورانوں کے در آنے پر کہتے ہیں، دیکھو پاکستان کتنا بدل گیا۔ کبھی انہوں نے دیہات میں رہنے والوں جو شہروں میں رہنے والے حکمران طبقات اور اُن کی طفیلی مڈل کلاس کا پیٹ پال رہے اور جیبیں بھر رہے ہیں، کے حوالے سے بات کی ہے؟ عرض کیا نا کہ جذباتی باتیں آسان بھی ہیں اور شہروں میں برپا درمیانے طبقات کی تقریبات، اخباروں کے صفحات کو چار چاند، اور ٹی وی سکرینوں پر معروف اور ’’سینئر تجزیہ نگاروں‘‘ کے تجزیے شہروں کے درمیانے طبقات کو جذبات سے لبریز تو کردیتے ہیں، مگر ان محکوم ادوار میں تیزرفتار ترقی کی امیدیں رکھتے اور اب ’’جمہوریت کے تسلسل‘‘ میں ملک بدلنے کے خواب دیکھ رہے ہیں، اس حقیقت اور تلخ حقیقت سے آنکھیں چراتے ہیں۔ آج بھی پاکستان کا کسان محکوم اور غلام ہے۔ جاگیرداری اور سرمایہ داری گھل مل گئی ہے، جیسے آمریت اور جمہوریت گھل مل چکی ہے۔ تب تک نہ پاکستان بدلے گا اور نہ ہی عوام کی حکمرانی قائم ہوگی، جب تک کسانوں کی قسمت کا فیصلہ نہیں کیا جاتا۔ جہالت کو خواندگی میں نہیں بدلاجاتا۔ جمہوریت اور نیا پاکستان، یہ سب نعرے سراب در سراب کے سفر ہیں اور افسوس جو لوگ بلند آواز میں نظریہ پاکستان کے علمبردار ہیں، وہ پاکستان میں بسنے والے 80فیصد لوگوں کے حقوق اور آواز کو بلند کیے بغیر کس نظریے کے پرچارک ہیں۔
نظریہ ٔ پاکستان یہاں بسنے والے لوگوں کے معاشی، سماجی، ثقافتی اور انسانی حقوق ہوسکتا ہے۔ جذباتیت پر مبنی تقریریں نہیں۔ کیا ہم 80فیصد کی قسمت بدلے بغیر جمہوریت قائم کرنے کے دعوے کرسکتے ہیں اور یہ کہ کیا ہم نیا پاکستان ان 80فیصد کے بغیر قائم کرسکتے ہیں؟ نظریہ ٔ پاکستان، پاکستان کو اپنی محنت سے پیداوار کرنے والوں کے حقوق کا نام ہے۔ اگر برطانوی راج کے خاتمے کے بعد بھی غلام داری نظام اور استحصالی نظام کو برقرار رہنا تھا تو پھر کیسی آزادی۔ اور ایک بات، لاکھوں کی تعداد میں اپنا وطن چھوڑ کر اپنا اور اپنی نسلوں کا مستقبل بنانے کے لیے پاکستانی مغرب اور سامراج کے ہاں کیوں جا بسے؟ اور اگر بس میں ہوتو کروڑوں وہیں جا بسیں۔ اس لیے کہ یہاں حقوق میسر نہیں۔ مستقبل تاریک۔ محنت کی اجرت نہیں۔ انصاف اور تحفظ نہیں۔ ہنر، تعلیم وصحت کا نظام نہیں۔ جب تک ہم اپنے آپ کو وسوسوں، مغالطوں اور مبالغوں سے باہر نہیں نکالیں گے، ہم آزاد نہیں ہوں گے۔ اور فکر کی آزادی، جو ماں ہے تمام آزادیوں کی، جو اَب شدت پسند ثقافت کے تحت دھیرے دھیرے دبائی جا رہی ہے۔ اب ذہنوں کو بھی غلام بنانے کا عمل طاقت پکڑتا جا رہا ہے۔ پہلے غداری کے طعنے دئیے جاتے تھے، اب کفر کے فتوے لگتے ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کا پاکستان بنانا ہے تو انسان اور فکر کو آزاد کرنا ہوگا۔ جمہوری نظام آئے گا تو جمہوریت آئے گی۔ جمہور کے سماجی، معاشی، اقتصادی وثقافتی حقوق میسر ہوں گے تو جمہوریت جنم لے گی۔