سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق، وزیراعظم نوازشریف اپنے اہل خانہ سمیت نااہل قرار دے دئیے گئے۔ تاریخ کا دلچسپ پہلو دیکھیں، اسی ماہ 1977ء کو پاکستان کے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو معزول کرکے مارشل لاء لگایا گیا۔ وہ لوگ جو اُس وقت ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کے خاتمے اور فوجی آمریت کے تسلط کا استقبال کررہے تھے، آج وہی سیاسی اور صحافی لوگ میاں نوازشریف کے ساتھ کھڑے ہیں۔ خود میاں نوازشریف کے خاندان کا شمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے جو چالیس سال قبل اسی ماہ میں ایک وزیراعظم کو بندوق کی نوک پر آخرِ شب منتخب اقتدار سے نکالنے پر جشن منا رہے تھے۔ آج انہی لوگوں کو عدالت نے ایک سال تک مقدمے بازی کے بعد انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اقتدار سے علیحدہ اور نااہل قرار دے دیا۔ نوازشریف اپنی بیٹی، داماد اور اپنے اہم ساتھیوں سمیت ایسے مقدمے میں نااہل قرار دئیے گئے ہیں جو سیاسی مقدمہ نہیں بلکہ اس کا تعلق جھوٹ، فراڈ اور غیرقانونی طور پر بیرون ملک سرمایہ منتقل کرنے سے ہے۔ وہ ایک سال سے زائد عرصے تک اس ڈھٹائی سے مقدمہ لڑتے رہے کہ اُن کے خلاف سازشیں برپا ہیں اور یہ کہ وہ منتخب وزیراعظم ہیں۔ حالاںکہ ایک جمہوری طرزِحکومت میں روایت یہ ہے کہ اگر آپ پر ایسے سنگین الزامات لگیں تو آپ کو اقتدار سے مستعفی ہوکر اپنا قانونی دفاع کرنا چاہیے۔ لیکن افسوس، وزیراعظم اور ان کا خاندان سیاست اور مقدمہ جمہوری انداز میں لڑنے کی بجائے شہنشاہی انداز میں لڑتے رہے۔ اگر وہ شروع میں ہی مستعفی ہوکر اپنے خلاف مقدمہ لڑتے اور ’’سازش‘‘ بے نقاب کرتے تو آج نااہل تو ہوتے مگر اس کے ساتھ جو رسوائی اُن کی جھولی میں ان کے حصے میں آئی، وہ نہ آتی۔ ہمارے ہاں لوگوں کو شاید یاد ہو کہ جب چالیس سال قبل دائیں بازو کے انتہا پسند، ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف اُن کو اقتدار سے نکالنے اور اس دنیا سے رخصت کرنے کا مطالبہ اور کوشش کررہے تھے، اُن میں کچھ بائیں بازو کے لوگ بھی شامل تھے۔ آج بھی وہی چند لوگ جو اپنے آپ کو بایاں بازو قرار دیتے ہیں، موجودہ حکمران کا سیاسی دفاع کررہے ہیں اور اسے جمہوریت کا دفاع قرار دے رہے ہیں۔ یعنی ثابت یہ ہوا کہ ہمارے ہاں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو جمہوریت کے نام پر ہر دَور میں جمہور کے خلاف کھڑا رہا اور نام نہاد ’’جمہوری دانشور‘‘ بھی اس میں شامل ہیں۔
28جولائی پاکستان کی تاریخ میں اہم دن ہے۔ میاں نوازشریف اور اُن کے اہل خانہ اُن لوگوں میں شامل ہیں جو حضرت عمرؓ کے طرزِحکمرانی کے مداح ہیں۔ کاش انہوں نے دنیا کی اس عظیم ہستی حضرت عمرؓ کا طرزِحکمرانی بھی اپنایا ہوتا جو اپنے جسم کو ڈھانپنے والے لباس پر بھی خود کو لوگوں اور عوام کا جواب دہ سمجھتے اور انہیں بازپرس کا حق دیتے تھے، جو انصاف اور جواب دہی کو حکمرانی کی بنیاد سمجھتے تھے۔ پاکستان کا یہ سیاسی گھرانہ بنیادی طور پر نہایت دائیں بازو کی سیاست وثقافت پر کاربند رہا ہے۔ یہ اور ان جیسے لوگ ہی حضرت عمرؓ جیسی عظیم الشان ہستیوں کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے۔ لیکن ذرا اِن لوگوں کے بیان اور عمل کا تضاد دیکھیں۔
گزشتہ سال پاکستان پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما اور قانون دان چوہدری اعتزازاحسن نے مجھے اپنے ہاں بلایا اور مجھ سے مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کے حوالے سے جاننا چاہا۔ جب میری باری آئی تو میں نے اُن سے پانامہ اور میاں نوازشریف صاحب کے بارے جاننا چاہا۔ وہ بار بار ایک ہی بات کہہ رہے تھے کہ ’’گوئندی جی! میاں صاحب قانونی طور پر (یعنی پنجابی میں) اپنی کلائی سے پکڑے جا چکے ہیں۔ وہ بچ ہی نہیں سکتے اس مقدمے سے۔‘‘ اور اس پر انہوں نے تفصیلی روشنی ڈالی۔ اور اسی طرح چند ماہ قبل میاں نوازشریف کے ایک دست راست میرے ہاں تشریف لائے تو میں نے وزیراعظم صاحب کے اس دست راست سے پوچھا کہ پاکستان کی سیاست اور آپ کا کیا بنے گا؟ انہوں نے فوراً کہا، ’’اگر ہم جے آئی ٹی میں بچ گئے تو مارچ 2018ء میں پھر مشکلات ہمیں گھیرے میں لے لیں گی۔‘‘ چوہدری اعتزاز احسن کی گفتگو سے میں نے میاں نوازشریف صاحب کا قانونی مستقبل جھانک لیا اور میاں نوازشریف صاحب کے اس دست راست سے اس خوف کو بھانپ لیا جو ’’شریف ایوانوں‘‘ میں موجود تھا۔ میاں نوازشریف اور اُن کے بھائی جناب شہباز شریف 2005ء سے یہ کہنا شروع ہوگئے کہ ہم پہلے جیسے نہیں رہے، ہم بہت بدل گئے ہیں۔ 2007ء میں پاکستان آمد کے بعد بھی انہوں نے یہی کہا اور اس کے لیے محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ چارٹر آف ڈیموکریسی کو اپنی دلیل کی تصدیق کے لیے بہت پیش کیا۔ لیکن 2008ء میں پنجاب میں حکومت بنانے اور 2013ء میں پاکستان میں کُل اقتدار حاصل کرنے کے بعد شریف خاندان نے پھر یہی ثابت کیا کہ انہوں نے اپنے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔ تقریباً تین دہائیوں تک اقتدار میں رہنے والا یہ خاندان تیس سالوں میں عوامی حکمرانی کا سبق نہ سیکھ سکا۔ تیس سالوں میں عوام مزید کمزور اور شریف خاندان مزید مضبوط ہوا۔ مال ودولت اور اقتدار کے حوالے سے شریف خاندان پاکستان کے طاقتورسرمایہ دار اور سیاسی خاندانوں میں سرفہرست ہے۔ آج کی حکومت میں شامل خوشامدیوں کے غول کے غول اور ’’خاندانِ شریفاں‘‘ کی طرزِسیاست نے جہاں لوگوں کو مایوس کیا، وہیں عدالت عظمیٰ کو بھی اپنی سچائی ثابت کرنے میں ناکام رہے۔ شریف خاندان قانونی، سیاسی اور اخلاقی جنگ ہار چکا ہے۔ کاش وہ یہ جنگ ایک باوقار طریقے سے لڑتے یعنی حکومت سے فوری مستعفی ہوکر وزارتِ عظمیٰ کا قلم دان اپنی جماعت کے کسی دوسرے شخص کو دے کر۔ لیکن نہیں، انہوں نے شکست کے ساتھ رسوائی کا سودا بھی خوب کیا اور اس کے لیے چند خوشامدی کالم نگار، چند اینکرز، سیاسی دربار کے نورتنوں نے خوب کردار ادا کیا۔
یہ پاکستان کے سیاسی نظام کی سب سے کمزور بات ہے کہ یہاں جمہوریت شخصیات سے جڑی ہے۔سیاسی جماعتوں میں سیاسی خاندانوں کے سبب سے بڑے کو قیادت کا حق ہے،اور اسی طرح خاندانوں کے بڑے کوحکمرانی کا بھی حق ہے۔یہی وہ مقام ہے جو سیاست اور جمہوریت کو کمزوری کی طرف لے جاتا ہے،اور دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ اس سے جمہوریت مضبوط ہوتی ہے۔حالاںکہ یہ مقام سیاست اور حکمرانی کو شخصی حکمرانی کو طرف لے جاتا ہے۔کاش اس فیصلے سے پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف سے لے کر عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علماء اسلام (ف) تک سب جماعتیں سبق سیکھیں ۔جماعتوں ،جمہوریت اور جمہور کو مضبوط کریں نہ کہ موروثیت ،شخصی حکمرانی اور آمرانہ طرز ِحکمرانی اور آمرانہ سیاسی قیادت کو۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد تاریخ کا پہیہ یقینا آگے بڑھا ہے۔چالیس سال پرانا وہ ملبہ گر گیاجو پاکستان اور سیاست پر گرا پڑا تھا۔اس ملبے کو سپریم کورٹ نے اٹھانے کا موقع دیاہے۔اب وقت آگیا ہے اہل فکرو دانش کا کہ وہ اپنا فریضہ پورا کریں اور لوگوں کے اجتماعی شعور کو موروثیت اور آمرانہ طرزِ سیاست سے نکال کر حقیقی جمہوریت کی طرف لے جائیں۔سیاست کی حقیقت کو سمجھنے والے یہ جانتے ہیں کہ ریاست اور سماج میں طاقت اور اقتدار کے کئی مراکز ہوتے ہیں ،اور پاکستان میں ایسا ہی ہے۔نظر آنے والی طاقت اور نہ نظر آنے والی طاقت ۔ ایسے میں ہر اقتداری مرکز یقینا اپنے طے شدہ کردار سے زیادہ اختیارات اور طاقت کا حق حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اسے سازشیں قرار نہیں دیا جاسکتا۔ میاں نوازشریف کی نااہلی ، پاکستان کے سیاسی طاقت رکھنے والے مراکز کے لیے ایک سبق ہے کہ وہ اپنی طاقت کو تقسیم کرکے مضبوط کریں۔ طاقت کا ارتکاز تباہی ہے، تعمیر نہیں۔ شریف خاندان دولت کے ارتکاز، طاقت کے ارتکاز، سیاست کے ارتکاز، حکمرانی کے ارتکاز پر گامزن تھا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد شریف خاندان کے بانی میاں شریف جنہوں نے دکان داری سے صنعت کاری کا سفر کرتے کرتے اپنے خاندان کو سیاست کے میدان میں اتارا اور یوں پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک خاندان کو دولت، سیاست اور اقتدار پر عروج حاصل ہوا، اب اپنے اختتام کو پہنچا۔ میاں شریف کا بنایاہوا سیاسی اور سرمائے کا ڈھانچا قانون کے سامنے جھوٹ ثابت ہوا۔ وقت کے ساتھ ساتھ میاں نواز شریف کا تعمیر کردہ سرمائے اور سیاست کا یہ ڈھانچا پاکستان میں عبرت کی مثال کے طور پر پیش ہوگا۔اسے کسی طرح بھی کامیابی ، کامرانی ، عوامی جدوجہد یا درخشانی نہیں ،بلکہ کرپشن ،جعل سازی، جھوٹ اوربے ایمانی کے حوالے سے یاد کیا جائے گا۔