ہمارے تعلیم یافتہ اور روشن خیال حلقے میں جاوید غامدی صاحب کا نام چنداں محتاج ِ تعارف نہیں ہے۔ موصوف کے خیالات و افکاردراصل اسی تسلسل کی لڑی سمجھی جا سکتی ہے،جس سلسلے کا نمایاں نام سرسید احمد خان تھے۔ اور ان حضرات کی تعلیمات کا محور اسلام کو عین عقل کے مطابق سمجھنا اور بدلتے زمانے کی ضروریات کے ساتھ ساتھ اس کے ، افکار و نظریات کی جدید توجیہات پیش کرنا بتایا جاتا ہے ان کے خیال میں اسلام جدیدیت کی اس کشاکش میں کہیں پیچھے نہ رہ جائے ، یا کوئی نئی سائنسی سوچ اس مذہب کو دقیانوسی سمجھ کر اسے ایک ناقابل ِ عمل مذہب اور فرسودہ طرز ِ حیات قرار دے کر مسلمانوں کی سبکی کا باعث نہ بن جائے۔ ہم ان حضرات کی نیت پہ تو نہ کوئی شک کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے خلوص کو پامال ، لیکن اس تمام تر جدوجہد کا خلاصہ ایک ایسے نئے نظریے کی صورت میں برآمد ہورہا ہے ، جہاں ہر کس و ناقص اسلام کے افکار کی تشریح اور وحی کی حقیقت کو اپنی اپنی سوچ کے سانچے میں ڈھال کر ، اس سے اپنی عقل و فکر کے حامل نظریات کو برآمد کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔
ہم یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ جو دین ِ اسلام نبی مکرم ﷺ لے کر آئے ، وہ کوئی نیا دین یا مذہب نہیں تھا بلکہ وہ اُسی ابراہیمی مذہب کا ایک تسلسل تھا جس کے شارحین میں حضرت موسیٰؑ، حضرت داؤدؑ، حضرت زکریا ؑ اور حضرت عیسیٰؑ علیہم السلام شامل ہیں۔ تاہم انسانی عقل چونکہ ارتقاء کے عمل سے گزر رہی تھی لہذا ہر نئے دور اور تقاضوں کے مطابق اللہ تعالیٰ ایک نئے نبی کو مبعوث فرماتے ، جو اس نئے دور کے تقاضوں اور اس کے ساتھ جڑے سوالات کی تشنگی کو وحی الہی کی مدد سے دور فرماتے۔ جب یہ سلسلہ اُس دور میں آن پہنچا جب انسانی عقل بلوغت کے مرحلے کو طے کرکے ، عقلی دنیا میں قدم رکھ چکی تھی تو اُس دور کا لازمی تقاضا یہی تھا کہ اب ایک ایسے شارح کو مبعوث ہونا چاہیے جو ، اس نئے دور کے تقاضوں کے مطابق اسلام کی عمارت عقلی بنیادوں پر استوار کرتے ہوئے فلاسفہ یونان اور دیگر مذاہب کے افکار کا معقول جواب دے کر انسانیت کو وحی الہی کی برکات سے مستفید فرمائے۔ یہی وجہ ہے کہ جب نبی کریم ﷺ کی ذات مبارک پر جو پہلی وحی نازل ہوئی وہ اقراء یعنی پڑھیے ہے اور یہ بات مکہ کے معاشرے میں کسی اچنبھے سے کم نہ تھی کہ وہ معاشرہ جہاں تعلیم و تعلم کو مطلق کار ِ بیکار سمجھا جاتا تھا، وہاں دین ِ اسلام کی نئی عمارت کی خشت ِ اول ہی تعلیم و تعلم بتلائی جارہی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ خود اپنے حبیب ﷺ جو امی تو ہیں مگر ان کا تعارف ایک معلم اور حکیم کی صورت میں کروایا تاکہ اس دور کے تقاضوں کے مطابق اللہ تعالیٰ کی حجت کا اتمام ہوسکے۔ آپﷺ کی محنت شاقہ کی بدولت اس معاشرے میں جانثاروں کی ایک جماعت تیار ہوئی ، جو مجاہد فی سبیل اللہ ہونے کے ساتھ ساتھ تعلیم و تعلم کے میدان کے بھی شہسوار تھے، اور ان حضرات نے جہاں جہاں اپنا مسکن منتخب فرمایا وہیں تعلیم کے حلقہ کو جاری فرماکر معاشرے کی بنجر زمینوں کو وحی الہی اور سنت ِ رسولﷺ کے چشمہ صافی سے سیراب کیا۔
اگرہم تاریخ کا مطالعہ کریں اور اسلام کے دور ِ اولیں کو کھنگالیں تو ہمیں اُس دور کے اندر یہ بات نظر آتی ہے کہ دور ِ اسلام کے آغاز میں متقدمین معقولات کو تابع وحی اور سنت ِ رسولﷺ رکھ کر ، اُسی کے اندر سے بدلتے دور کے رجحانات اور تقاضوں کے مطابق نئی تشریحات پیش کرتے تھے۔ اس کی وجہ انسانی عقل کا محدود ہونا اور حس ِ ادراک کا ایک خاص مقام تک موقوف ہوجانا ہے۔ لیکن یہی انسانی عقل جب تابع وحی اور سنت ِ رسولﷺ ہوجاتی ہے ، تو اس کے سامنے نئی جہات کا دروازہ کھلتا چلا جاتا ہے ، جہاں ایک لامحدود دنیا اور اس کے علوم تک اس کی رسائی ممکن ہوجاتی ہے۔ کیونکہ ہماری دنیا میں مروجہ علوم حاصل کرنے کے واسطے عام طور پہ حسیات کے تابع مانے جاتے ہیں، لیکن وحی ، الہام اور کشف جیسے ذرائع علم کا انکار کیا جاتا ہے۔ لیکن ان دیگر ذرائع کو جھٹلانا اور ان سے حاصل شدہ علوم کو بیکار سمجھنے کا مطلب دراصل علم کے ایک بہت بڑے حصے کو گنوانا اور اتنے اہم علوم سے اپنے آپ کو محروم کرنا ہے۔ تاہم اس سلسلے میں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جیسے حواس ِ خمسہ سے حاصل شدہ علم حتمی نہیں ہوتا ، ایسے ہی وحی الہی کے سوا باقی دو ذرائع یعنی الہام اور کشف سے بھی حاصل شدہ علم حتمی نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کی بنیاد پر کوئی نیا حکم جاری کیا جاسکتا ہے۔
اسلام کے اندر قرآن مجید کے افکار کو محض عقل و فلسفہ کے تابع سمجھتے ہوئے سلف سے بیزاری کی ابتداء معتزلہ سے ہوئی ، جن کو مامون الرشید کی سرپرستی میں پھلنے پھولنے کا موقع ملا اور یوں محض عقل وفکسفہ کے تابع قرآن کو سمجھنے کا نتیجہ خلق ِ قرآن پہ منتج ہوا اور امت مسلمہ کو قرآن کے نام پرتقسیم کرنے کی کوشش کی گئی۔ تاہم یہ سلسلہ زیادہ طول نہ پکڑ سکا اور جلد ہی عباسی دور کے اندر اس کا خاتمہ تو ہوگیا ، لیکن دنیا کو امام احمد بن حنبل کی صورت میں ایک ایسا عالم دیکھنے کو ملا جس نے معتزلہ کے دعوی خلق ِ قرآن کے تارو پود کو بکھیر کر رکھ دیا۔ اس کے بعد بھی یہ سلسلہ ہر زمانے میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا، اور برصغیر میں اس سلسلے کی نمایاں شخصیت سرسید احمد خاں کو سمجھا جاتا ہے۔ان کے بعد پھر انہی افکار کو عبداللہ چکڑالوی ، اسلم جے راج پوری صاحب اور پھر غلام احمد پرویز صاحب نے پروان چڑھایا اور قرآن کے نام پر اسلام کے عملی اور تشریحی نظام حدیث مبارک پر عدم اعتماد پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ تاہم مذکورہ بالا حضرات قرآن مجید سے الفت کے نام پر حدیث ِ نبویﷺ کی حیثیت بطور ِ ماخذ ماننے سے انکاری تھے، لیکن جاوید غامدی صاحب اس سلسلے میں ان کے ساتھ متفق نہیں ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی جاوید غامدی صاحب کے ہاں بھی قرآن اور اسلام کو سمجھنے کا بنیادی پیمانہ محض عقل اور سلف سے بیزاری ہے نہ کہ قرن اول کی وہ جماعت جو قرآن مجید کی آیت ِ استخلاف کا مصداق ہے۔ اور ا ن کے نزدیک اگر موجودہ دور کے اندر کہیں اسلامی حکومت کا قیام عمل میں آتا ہے تو ، اس کے ذمہ صرف ادائیگی صلوۃ اور نظام ِ زکوۃ کا قیام ہے۔ اور باقی تمام امورجن میں معاملات میں عدل وانصاف، کسب ِ حلا ل ، عفت و عصمت کی حفاظت اور دوسرے تمام وہ جرائم جن سے معاشرے میں بیگاڑ پیدا ہوتا ہے ، ان کےسدباب کے متعلق صرف تلقین (یعنی تبلیغ) کا نظام قائم کیا جائے گا تاہم کسی کونظام کے زیر اثر کسی بھی بات کا حکم نہیں دیا جائے گا۔
اگر ہم جاوید غامدی صاحب کی اس بات کو درست مان لیں، تو یہاں کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔ جن میں سب سے اہم یہ سوال کہ غامدی صاحب اپنے اس دعوی کی بنیاد کس دلیل پہ رکھ رہے ہیں؟ کیا ہمیں خلافت ِ راشدہ کے اندر ایسا کوئی دور ملتا ہے جہاں تمام احکام پر عمل کے واسطے تلقین کا شعبہ قائم ہو، اور جس کا کام عوام الناس کو صرف تلقین کے ذریعے اسلام کی جانب راغب کرنا اور اُس کے احکامات پر عمل کروانا ہو۔اگر ہم صرف تلقین ہی پر اکتفا کرلیں اور معاشرتی بگاڑ کو درست کرنے کے لئے کمر بستہ ہوجائیں، تو کیا آج ہمارے معاشرے میں ایسی جماعتیں موجود نہیں ہیں، جو تمام قسم کی سیاسیات سے بالاتر ہوکر صرف تلقین کا فریضہ سرانجام دے رہی ہیں، مگر اس کے باوجود کوئی نتائج اجتماعی طور پہ برآمد نہیں ہورہے تو آخر اس کی وجہ کیا ہے۔ ہم صرف تلقین کو کل اسلام سمجھ کر عوام الناس کو اسلام کی جانب راغب کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، لیکن عوام الناس پھر بھی اگر اسلام کی جانب راغب نہیں ہوتی اور اس کے احکامات سے روگردانی کرتی ہے تو اس کے بعد ہمیں کیا کرنا ہوگا اس کے بارے میں ہمارے پاس کوئی حل موجود نہیں ہے۔ اور خارجی سطح پراگر دیکھیں تو اسلام جو تمام دنیا پر بطور نظام غالب ہونے کے واسطے آیا اور اس کے ثبوت میں خود نبی کریم ﷺ کا قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے تعارف بھی کروایا ہے، اس کی وجہ اسلام کا معتدل نظام حیات ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات کا یہ منشاء ہے کہ میرے تمام بندے اس معتدل نطام ِ حیات کے تابع رہ کر زندگی گزاریں اور میری تمام نعمتوں سے مستفید ہوں ، مگر ہم صرف اپنے آپ کو تلقین تک محدود کرلیں تو کیا ہم دین کے سیاسی اور سماجی غلبے کی راہ ہموار کرسکتے ہیں اور اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو اس غفلت کے مرتکب ہونے کی صورت میں کیا ہم لائق ِ مواخذہ نہیں ہوں گے۔ اگر اس تلقین کے عمل کو کل اسلام مان لیا جائے تو گویا ایک چوری کرنے والے کو بھی محض تلقین سے باز رکھنے کی کوشش کی جائے گی اور اسلام میں چور کی مقرر شدہ سزا موقوف سمجھی جائے گی۔ آپ اس عمل سے ایک مجرم کے ساتھ بادی النظر میں ہمدردی تو دکھلارہے ہیں مگر مظلوم کیلئے آپ کے پاس کیا ہے؟ کیا ہم مظلوم کو یہ کہہ کر تسلی دے دیں کہ ہم نے تلقین کا عمل شروع کر رکھا ہے ، لہذا اُس کے نتائج سامنے آنے تک صبر کرو اور خدا سے مدد مانگو۔ یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر بادشاہ ِ وقت کے ہوتے ہوئے بھی ، عوام الناس کو انصاف نہ ملے اور وہ اپنی تمام فریادوں کے لے خدا ہی کو پکاریں تو خدا نے آخر دنیا میں خلافت کا نظام قائم کرنے کا اشارہ ہی قرآن میں کیوں فرمایا اور نبی کریم ﷺ نے جو 13 برس تک ایک عادلانہ نظام قائم کرنے کی جنگ لڑی تو کیا وہ محض شعبہ تلقین کے قیام اور اس کے احیاء کے واسطے تھی۔ لہذا احقر کے نزدیک اس نظریہ خلافت کا مطلب ایک ایسے نظام کا قیام ہے ، جس میں قانون اور اختیار کے ذریعہ معاشرے میں عدل و انصاف کی راہ ہموار کی جا سکے۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ غامدی صاحب سمیت جتنے بھی ایسے نظریاتی مراکز جو دین کی تعبیر میں رسول اللہ کے اسوہ ، جماعت صحابہ کی اجتماعیت اور سلف کی کاوشوں سے اعراض کرتے ہیں وہ اعتدال سے ہٹے ہوئے لوگ ہیں ہم دین کی بنیادی فکر کو اسلام کی تاریخ اور اس کے عملی نظام کے بغیر نہیں سمجھ سکتے ۔