اسلام کو سمجھنے کے لیے آپ کو عربوں و ترکوں کی 1000سالہ تاریخ کے علاوہ، حضور اقدسؐ اور حضرت ابراہیمٔ کے درمیان والے دور کو خصوصاً سمجھنا ہوگا۔ آپ کو سمجھنا ہوگا کہ حضرت ابراہیم نے خداواحد کا تصور کیسے سمجھا؟ عراقی (ببلیان) بادشاہوں اور اس دور کے انسانوں کی جزباتی، سماجی، اور معاشی تصورات کیسے متعدد خدادوں کے ذریعے متاثر ہو رہے تھے۔ اور ایک ایسا نو جوان جس کے خاندان کے معاشی مفادات وہاں کے مذہبی عقائد کے ساتھ وابستہ تھے،کیوںکر اپنے آپ کو قائل کرنے میں کامیاب ہو گیاکہ انسان کی ترقی اور ایک مخصوص سیاسی گروہ کی ترقی میں فرق ہے؟ حضورؐ سے پہلے دنیا کی آبادی کیوں کم ہو رہی تھی اور سماج کس رخ پہ تھا؟
اگر ہم حضرت ابراہیم کی ذہنی کیفیات کا تجزیہ کریں تو ہمیں یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ انہوں نے اپنے ایک خدا کے تصور کی تبلیغ کے لیے عقلی دلائل ہی کو بنیاد بنایا تھا۔ جبکہ وہاں کی مروجہ مزہبی قیادت کے پاس کوئی عقلی دلیل نہیں تھی۔ لہذٰا انہوں نے تشدد کے ذریعے مخالفین کو کچلنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن کیا تاریخ میں وہ اپنے آپ کو اچھی تہذیب ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئے؟
ابراہیمؑ کے عقلی دلائل کے علاوہ، بعد میںآنے والے انبیاؑ اپنے اپنے دور کے قوانین میں تبدیلی کرتے ہوئے ملیں گے۔ خود حضورؐ نے معجزات کی بجائے دلائل اور قرآن (جو کہ فطری دلائل ہیں) کے ذریعے ہی اپنی بات لوگوں کے آگے رکھی تھی۔
ان ساری باتوں کے تجزیہ کے بعد یہ کہ سکتے ہیں کہ خود خدا واحد نے ہر دو چار سو سال بعد نئی ہدایات یا نئی کتابیں انبیا کو دیں۔ نئی کتابوں اور عقلی دلائل کے آنے کے بعد ہمیں آسانی ہو گی کہ ہم یہ نتیجہ نکال سکیں، کہ خدا واحد کے تصور کے ذریعے معاشرتی تشکیل ایک جامد شریعت کے ذریعے نہیں ہو سکتی، بلکہ گردوپیش میں ہونے والی معاشرتی تبدیلیوں کو اپنی شریعت/قوانین کا حصہ بنانا ہوگا۔
جب معاشرہ بیرونی عوامل کے ذریعے تبدیل ہو جاتا ہےتو وہ دو دھڑوں میں بٹ جاتا ہے۔ رجعت پسند دھڑے انہی پرانی نظریات پہ اڑے رہتے ہیں،جب کہ تبدیلی کے خواہش مند دھڑے ان کو برے لگنے لگتے ہیں۔ اگر یہ رجعت پسند لوگ معاشرے پہ غالب آ جایئں تو معاشرے کی ترقی رک جاتی ہے، جس کے بعد نئے انداز میں منظم معاشرے ان پہ کنڑول کر کے اپنی شریعت و زبان اور معاشرت کو قبول کرنے پہ مجبور کر دیتے ہیں۔ یہ دنیا کی ریت ہے اور ایسا ہی ہوتا رہے گا۔
جن معاشروں میں ملکی قوانین اور مذہبی عقائد دو مختلف سمتوں میں چلے جایئں، وہ ایک بحرانی کیفیت میں ہوتے ہیں اور ایسے معاشرے کبھی بھی دنیا میں اپنا کردار ادا نہیں کر پاتے ہیں۔ افریقی اقوام اسی جمود کا شکار ہیں۔ غلامی کے دور نے ان کے مذہبی نظریات اور ملکی قوانین کی راہیں مخالف سمت میں رکھ دی ہیں۔ جبکہ ابھرتے ہوئے مشرقی ایشیا کے معاشرے خود کو مسلسل تبدیل کر رہے ہیں، جس کے بعد یہ پیش گوئی کرنا مشکل نہیں کہ مستقبل کی قیادت کہاں جانے والی ہے؟
اب برادران وطن کا کام ہے کہ وہ وطن عزیز کے رجعت پسند، منافق، اقتدار کی بھوکی قیادت کو پہچانے۔ دور غلامی کا دوبارہ تجزیہ کرے۔ اپنی مذہبی و معاشرتی فلاسفی کو ہر ٹائم فریم کے اندر رہ کر تجزیہ کرے، اس کی روح کو برقرار رکھتے ہوتے وقت کی ضرورت کے مطابق خود تبدیل بھی کرے، مگر اغیار کے دھوکے میں آ کر اس کو گالی مت دے۔
ایک خدا، جامد معاشرے کا تصور پیش نہیں کرتا۔ وہ ایک ترقی پسند اور خوشحال انسانی معاشرہ دیکھنا چاہتا۔ جو مشترکہ انسانی مفاد کے لیے مسلسل تبدیلی اور ارتقاء کی جانب گامزن رہتا ہے۔