آج کل ترقی کا لفظ سنتے یا پڑہتے ہی ذہن اونچی عمارات، بڑے بڑے پل، سڑکوں، گاڑیوں کی لمبی لائینوں، چمنیوں سے نکلتے دھویئں، اور ہر لمحے تبدیل ہوتی ہوئی الیکڑانک گیجٹ اور انسانی استعمال کی متعدد اشیأ کی طرف جاتا ہے۔ یقیناً یہ سب آج کے دور میں ایک قوم کے وجود اور اسکی فلسفیانہ بنیادوں کو قائم اور مضبوط رکھنے کے لیے ضروری ہیں، اور ہماری فلسفیانہ بنیادیں اس ترقی کے لیے روحانی مدد اور تاریخی شواہد بھی فراہم کرتی ہیں۔
ترقی ایک واقعہ نہیں کہ ہو گیا اور پھر اس کے بعد دوبارہ نہیں ہوگا۔ بلکہ ترقی ہر دور اور ہر نسل کے ساتھ ارتقا کرتی ہے۔ ہر نسل اپنے وجود کے لے جدوجہد کرتی ہے اور اس کی ترقی اپنے سے پچھلی نسل سے جڑی ہوتی ہے۔ ایک غلط فیصلہ آپ کی اگلی نسل کی ترقی کو پٹری سے اتار بھی سکتا ہے اور ایک اچھا فیصلہ آپ کو ترقی کی پٹری پہ چڑھا بھی سکتا ہے۔ اب قوم جس پٹری پہ چڑھ جائے وہاں سے اتار کر دوسری پٹری پہ ڈالنا وقت، سوچ، اور پلاننگ کے بنیادی لوازمات کی ڈیمانڈ کرتا ہے۔
ترقی یافتہ ہو جانے کے بعد ایک جنگ آپ کو نمبر ۱ سے تلوے چاٹنے پہ مجبور کرسکتی ہے۔ جنگ عظیم دوم سے پہلے برطانیہ دنیا کا نمبر ۱ملک تھا اور اس جنگ کے اختمام سے لے کر آج تک پورا یورپ اور خصوصاً برطانیہ امریکہ کا درباری بنا پھر رہا ہے۔ کہاں گئی وہ ترقہ جو انہوں نے 1850 سے لے کر 1945 تک لاکھوں انسانوں کا قتل کر کے حاصل کی تھی۔ کیونکہ ہاتھی مرا ہوا بھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے، اس لے یورپ آج بھی ہندوستان و افریقہ سے بہترسیاسی مقام پہ کھڑا ہے۔ سو ترقیات کا سیاست سے کیا رشتہ ہے، وہ سمجھنا ہوگا۔ ترقی کا سیاست سے تعلق سمجھنے کے بعد ہم اگلے مرحلے میں ترقی کا انسانی مورال اور معاشرتی اطمینان سے تعلق کو سمجھیں گے۔
اگر ترقی جدید مشینوں کے استعمال کا نام ہے تو دنیا کی کون سی ایسی مشین ہے جو پاکستان کے مخصوص طبقات استعمال نہیں کرتے۔ پاکستان میں ہر چیز استعمال ہوتی ہے تو پھر ہم یہ کیونکر کہتے ہیں کہ ہم ترقی یافتہ کم ہیں اور کحچھ ممالک زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔ تو ہم یہ نتیجہ نکالیں گے کہ وہ معاشرے ترقی یافتہ کہلاتے ہیں جو اشیاء اپنے ہاں زیادہ پیدا کرتے ہیں اور ان میں ویلیو ایڈیشن کرتے ہیں۔ بیچتے زیادہ اور خریدتے کم ہیں۔ احساس کمتری کے مارے معاشرے اشیاء پیدا بھی کرتے ہیں، ان میں ویلیو بھی ایڈ کرتے ہیں لیکن اپنا نام اور لیبل نہیں لگا پاتے۔ پاکستان چند ان بدقسمت اور مرعوب اقوام میں شامل ہے جو کئ اشیاء پیدا کرتا ہے لیکن برانڈ کسی اور ملک یا کمپنی کا ہوتا ہے۔ اس کے پیچھے شارٹ ٹرم فائدہ اور منافع خوری کی سوچ ہوتی ہے جو قوم کے نوجوان کے ذہن میں یہ بات ڈال دیتی ہے کہ ہمارے آباوؑاجداد تو بس کحچھ کیے بغیر ہی مر گئے۔
قومی احساس کمتری قومی ترقیات کو مذید کیسے متاثر کرتا ہے اور اس کا مادہ کہاں سے پیدا ہوتا ہے اس ٹاپک پہ گفتگو اگلے مضمون میں ہوگی۔ چونکہ یہ ٹاپک میں قسط وار قاریئن کے سامنے پیش کرنے جا رہا ہوں، تو آپ لوگ ہر ہفتے میرے ساتھ رہیے گا اور اگر ممکن ہو سکے تو اپنی قیمتی آراء سے بھی نوازتے رہیے گا، تب تک کے لے خدا حافظ۔۔