ہماری جدوجہد آزادی کے سرکردہ مجاہدین میں مولانا آزاد کا نام نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔انہیں آزاد ہندوستان کے ایک جلیل القدر معمار کا اعزاز بھی حاصل ہوا اوروہ اس کے پہلے وزیر تعلیم بنے۔انہوںنے اپنی زندگی کے آخری گیارہ سال(1947ء تا1958ء) تعلیمی نظام کی راہیں استوار کرنے اور اسے قومی رنگ وآہنگ عطا کرنے میں صرف کیے۔ وہ ایک کثیر الجہات شخصیت کے مالک تھے۔ انہیں بیک وقت مذہبی رہنما سیاست داں، مصنف ، خطیب، عالم، صحافی اور مفکر گرداننے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ بلاشبہ وہ اپنے عہدکے ایک ممتاز دانشور کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگرچہ وہ مقلد قطعی نہیں تھے، لیکن روایات کا واجب احترام کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے آپ کو اپنے تہذیبی ورثے سے جدا نہیں کیا، لیکن نئے خیالات اورنئی طرز نظر کی طرف متوجہ بھی ہوتے رہے۔ وہ اپنے آپ سے مخلص تھے اور اپنا نقطہ نظر رکھتے تھے انہیں نہ خوشنودی درکار تھی اور نہ سستی شہرت وہ اعلان حق کے قائل تھے خواہ حکومت خفا ہویا اکثریت، مگروہ ایک کشادہ ذہن اور وسیع القب انسان تھے۔ ان کے یہاں نہ تنگ نظری پائی جاتی ہے اور نہ محبونانہ عقیدت۔ وہ حب وطن سے سرشار ہونے کے باوجود وطنیت کے حصار میں محدود رہنے پر خود کو رضا مند نہ کرسکے اور پوری انسانی میراث سے فیضان حاصل کرنے کے ہمیشہ خواہاں رہے بالخصوص اسلامی فکروتمدن کے۔ دراصل وہ مسلک انسانیت کے پیرو تھے، اور یہی وجہ ہے کہ ان کے تصورات میں آفاقی معتقدات جھلکتے ہیں۔
انہوںنے تعلیم کو قومی حالات وروایات کے تناظر میں دیکھا اور ملک کے مفادات ومقصودات کے تحت اس کی اہمیت اور اس کے عصری تقاضوں کو سمجھا۔ وہ تعلیم کے اندر گیرائی اور گہرائی دونوں دیکھناچاہتے تھے۔ ان کے عہدوزارت میں تعلیمی منصوبہ بندی کا آغاز ہوا اور یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کا قیام عمل میں آیا۔ وہ تعلیم کا ایک جامع اورارفع تصور رکھتے تھے۔ ان کی رہنمائی اوردل چسپی کی بنا پر اعلیٰ تعلیم میں سائنسی اورتہذیبی ترقی کی طرف رجوع کیا گیا۔ کونسل برائے سائنسی وصنعتی تحقیق(کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ) کے زیر اہتمام بہت سی قومی تجربہ گاہیں (نیشنل لیبارٹریز) قائم کی گئیں۔ نیز سائنس اور سائنسی تحقیق کو خصوصی طورپر فروغ حاصل ہوا۔ وہ کسی نظام تعلیم کو فنون لطیفہ کے بغیر مکمل ماننے کو تیار نہیں تھے۔ انہوںنے فنون لطیفہ کی کل ہند کانفرنس(منعقدہ19اگست1949ء )میں خطبہ افتتاحیہ پڑھتے ہوئے فرمایا تھا کہ ایک سماج کی صحت مندی اور اعتدال پسندی کا اظہار اس کے افراد میں ذوق لطیف کی ترویج سے ہوا کرتا ہے۔ وہ شخصیت کی تعمیر میں مصوری، موسیقی، رضاصی، سنگ تراشی، ڈراما، غرض کہ سب ہی فنون لطیفہ کو اہم خیال کرتے تھے۔ انہوں نے متعدد موقعوں پر اپنے تعلیمی خطبات میں اس بات کا اعادہ کیا ہے وہ فنون لطیفہ کے شیدائی تھے اور شعرو نغمہ کا تو شوق بھی رکھتے تھے۔ ان کے اس احترام واشتیاق ادب وفن کی ایک درخشاں مثال’’ ساہتیہ اکادمی‘‘ ’’للت کلااکادمی‘‘ اور ’’سنگہت ناٹک اکادمی‘‘ کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔
ایک وزیر تعلیم کی حیثیت سے مولاناآزاد کی اصلی اہمیت ان احکامات اور اقدامات پر مبنی نہیں ہے جو ان کے وزارت تعلیم کی مسند پر فائز ہونے کے دوران سرزد ہوئے۔ جن کی بنا پر تعلیم کی تنظیم نو اور توسیع وجود میں آئی۔ اس دور بینی ا ور بالغ نظری کی بنا پر ہی انہوں نے ہندوستانی تہذیب وثقافت کی ترجمانی اور قومی تعلیم کی آبیاری کی۔ انہوں نے قدیم وجدید افکار کا خوشگوار امتزاج پیدا کرنے کی سعی اس وقت کی جب کہ انتہا پسندی اور بے اعتمادی کی شورش اپنے عروج پر تھی۔ ایک طرف انہوں نے سائنسی نقطہ نظر اور منطقی زاویہ نگاہ سے عصری مسائل کا جائزہ لیا اور دوسری طرف ان اقدار عالیہ کو عزیزرکھا جوکہ ہندوستانی اور اسلامی ورثہ سے انہیں نصیب ہوئی تھی۔ ان کا اصل عطیہ وہی متوازن مطمع نظر اور غیر متشدد و بے تعصب یعنی لبرل قیادت ہے۔ جو ان کے فکر وعمل سے ہمیں نصیب ہوئی۔
مولانا آزاد نے اسلامی فکر اور مشرق ومغرب کے فلسفہ سے اپنا فلسفہ حیات اختیا رکیا تھا، جس سے ان کی اخلاقی اقدار کا تعین ہوتا ہے۔ یوں تو انہوںنے اپنے ضابطہ اخلاق کے بارے میں جا بجا اظہار کیا ہے لیکن مشرق ومغرب میں انسان کا تصور اور فلسفہ تعلیم کے عنوان پر ’’یونسکو‘‘ کی طرف سے 13دسمبر1951ء کو دہلی میں منعقد ہونے والے سیمینار کے افتتاحی خطے میں ان کے تاثرات بخوبی بیان ہوئے ہیں۔ وہ رواداری کی تعلیم وترغیب پر زور دیتے ہیں اور اسے مذہب کی ایک بنیادی قدرگردانتے ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ مذہب کا مقصد آپس کا نفاق نہیں، اتفاق ہے۔ وہ فضل نہیں ،وصل کی تعلیم دیتا ہے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ ہمارے دل میں مذاہب کا احترام ہونا چاہیے اور ہمیں انسان کی عظمت کا پاس رہنا چاہیے۔ انہوں نے ’رواداری‘ کے مفہوم کی وضاحت کرتے ہوئے بدی اور بد کے فرق کو ملحوظ رکھنے کی طرف دھیان دلایا ہے۔ ان کا ارشاد ہے کہ برائی کو دور کیا جائے لیکن برائی کرنے والے سے بیر نہ ہو۔جیسے مرض کا علاج کیا جاتا ہے اور مریض سے ہمدردی، ان کے نزدیک استاد کا منصب یہی ہے کہ وہ شاگردوں کی زندگی سے بداعمالیوں کو دور کرے،لیکن انہیں عزیز ہی رکھے۔ اس رویے کو وہ عین مذہبی فعل مانتے ہیں اور ایک اچھے انسان یا مرد مومن کا تصور بھی کچھ ایسا ہی رکھتے ہیں۔
مولانا آزاد کو اپنی منصبی حیثیت سے مذہبی تعلیم کی نوعیت اور اہمیت پر کافی غور کرنا پڑا اور ایک عالم دین کا مرتبہ رکھنے کے باوجود انہو ںنے سرکاری مدارس کے نصاب میں ’مذہبی تعلیم‘ کو داخل ہونے سے باز رکھا۔ کیوں کہ انہوں نے محسوس کرلیا تھا کہ ایک سیکولر ریاست میں جہاں رنگارنگ اور مخلوط سماج ہو، نہ یہ مناسب ہے اور نہ ممکن کہ کسی قسم کی فرقہ وارانہ مذہبی تعلیم کو روارکھا جائے۔ انہوں نے اس سلسلے میں نہایت محتاط رویہ اختیارکرنے کی ہدایت کی تاکہ بے جا مذہبیت کا زورنہ بڑھ جائے۔ اگرچہ وہ زندگی اور تعلیم دونوں میں مذہبی اقدار کو بڑی ا ہمیت دیتے ہیں۔ وہ قومی تعلیم میں اخلاقی اقدار کی آبیاری چاہتے تھے اور سیرت سازی کے لئے انہیں ضروری خیال کرتے تھے۔ انہوں نے وشوا بھارتی کو مرکزی یونیورسٹی کا درجہ دئیے جانے کے موقع پر اپنے ان خیالات کا واضح طور پر اظہار کیا ہے اور ٹیگورکر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے بین الاقوامی مفاہمت اور مسلک انسانیت کی پرزور تائید کی ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ تعلیم اخلاقی اور روحانی قدروں کو فروغ دے اور تمام ادیان عالم کی آگاہی واحترام سکھائے۔ انہیں تعلیم کاجوہر’قومی ذہن کی تشکیل‘ نظر آتا ہے، جو اپنی روایات کا حامل ،اپنے ورثہ کا امین، عصری ہیت کا مالک اور عہد نو کا نقیب ہو۔
اقدار عالیہ کی پرستاری، حب وطن سے سرشاری، اورمسلک انسانیت کی پیروی ہی مولانا آزاد کے فلسفہ تعلیم کے نمایاں عناصر ہیں۔ لیکن ان کی وفات کے بعد وہ تہہ داماں آگئے اور ہماری تعلیم گاہیں ان صالح اثرات سے یکسر محروم ہوتی چلی گئیں۔
قومی نظام تعلیم کی تشکیل کو مکمل کرنے اور مستحکم بنانے کے لئے دور آزاد کی داغ بیل پر ملک کی تعلیم پالیسی کو 1968ء میں مرتب کیا گیا، لیکن اس کے لئے نہ خاطر خواہ وسائل مہیا ہوئے اور نہ اسے عملی شکل دینے کے لئے پورے انہماک کے ساتھ اقدامات ہی کیے گئے۔ اس کیفیت کا لازمی طور پر نتیجہ یہ نکلا کہ نظام تعلیم ان توقعات کوپورا کرنے میں ناکام رہا، جنہیں قوم نے بجا طور پر اس سے وابستہ کررکھا تھا۔ مادی اور خارجی ترقی کی سست رفتاری کے ماسوا، سماجی انحطاط اوراخلاقی پستی کے آثار نمایاں ہونے لگے۔اس صورت حال سے متاثر ہوکر جنوری 1985ء میں ایک نئی تعلیمی پالیسی کی تشکیل کا اعلان کیا گیا۔ یہ دستاویز ’تعلیم کی چنوتی… ایک حکمت عملی تناظر‘ کے نام سے پیش ہوئی۔اس میں تقریباً چالیس سال کی تعلیمی پیش رفت کا ایک دیانت دارانہ جائزہ پیش کیا گیا ہے جوکہ ایک حقیقت پسندانہ پالیسی مرتب کرنے کے لئے پس منظر کی سی حیثیت رکھتا ہے۔اسے’اعتراف عجز’یا’اقبال جرم‘ سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ آزاد ہندوستان میں تعلیم کی کمیت وکیفیت کی رفتار ترقی کے اس بیان میں اپنی کوتاہیوں کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ اس احتساب کے بعد اس حکمت عملی پر روشنی ڈالی گئی ہے جوکہ نئی تعلیمی پالیسی کو متعین کرنے کا باعث ہوئی۔ یہ حق گوئی و بے باکی بلاشبہ ملک کی قیادت کی بالغ نظری کی دلیل ہے اور اس سے تعلیم کے خوش آئند مستقبل کی بشار ت بھی ملتی ہے۔ مگر یہ نوبت آئی ہی کیوں؟ اس سوال کا سیدھا سا جواب یہی ہے کہ ہم قومی تعلیم کے اس تخیل سے غافل ہوگئے جو آزاد ہندوستان کی تعلیم کے معمار اول نے ہمیں دیا تھا اور ان کی سرکردگی میں جو تعلیمی ڈھانچہ تیا رہوا تھا اس کی صورت گری نہ ہوسکی۔ کیوں کہ ان کے بعد مرکزی وزارت تعلیم کی سربراہی کے لئے ان جیسا بلند قامت قومی رہنما اور دیدہور عالم میسر نہ ہوا۔
مذکورہ بالا اعلان کے مطابق قومی تعلیمی پالیسی 1986ء ملک کے سامنے پیش ہوئی۔ اس میں ’قومی تعلیمی نظام‘ کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لئے موثر اقدامات کی نشاندہی کردی گئی ہے۔ اس نظام سے مراد ہے کہ ’ایک مقررہ سطح تک بلالحاظ ذات‘ مذہب، مقام اور جنس تمام طالبان علم کو ہم رتبہ نوعیت کی تعلیم تک رسائی ہو۔‘‘ اس کا 10+2+3سال کا تعلیمی ڈھانچہ ملک کے تمام حصوں کے لئے ہے جس کے پہلے بیس برسوں کی مزید تقسیم اس طور کی گئی ہے کہ پانچ سالہ ابتدائی تعلیم اور تین سالہ ثانوی ابتدائی تعلیم دستوری اعتبار سے عام لازمی اور مفت تعلیم کے آٹھ سال پورے ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد دو سال ہائی سکول کی تعلیم کے ہیں۔ ان دس برس کے بعد دو سال کی مدت اعلیٰ ثانوی تعلیم کی ہے اور پھر تین سالہ‘ ڈگری نصاب‘شروع ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی بڑی اہم ہے کہ پہلے دس سال کا نصاب ایک مشترک مرکزی جزو بھی رکھتا ہے جوکہ’’ہندوستان کی جدوجہد آزادی کی تاریخ‘‘ آئینی فرائض اوردیگر ایسے مواد پر مشتمل ہوگا جو قومی شناخت کو پروان چڑھانے کے لئے لازمی ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ مساوات کو بھی فروغ دیا جائے گا۔اور’’ضروری ہوگا کہ سبھی کو نہ صرف رسائی کے اعتبار سے بلکہ کامیابی کی شرائط کے اعتبار سے بھی مساوی مواقع فراہم کیے جایٔں۔‘‘ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ مساوات اور سماجی انصاف کو مدنظر رکھتے ہوئے خواتین، درج فہرست ذاتوں اور قبائل ‘اقلیتوں، معذور افراد، بالغان اور تعلیمی اعتبار سے پس ماندہ دیگر طبقات کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔
یہ تمام کوششیں سماجی انصاف کی فضا کو تقویت پہنچانے کے علاوہ ملک کی سالمیت کو برقرار رکھنے اور قومی یکجہتی کو بڑھانے کا بھی نہایت کارگر وسیلہ ثاببت ہوں گی۔ ایسی ہی مصالح کے باعث ایک قومی ذہن کی تشکیل کا خواب مولانا آزاد نے بھی دیکھا تھا۔ انہوںنے اپنی تقریرمیں صاف طور پر کہا تھا کہ ہماری قومی تعلیم کی تشکیل نو میں ہمارا مقصد تمام لوگوں میں ’اتحاد فکر‘ ہے جو اپنے اندر تاریخی،لسانی تہذیبی اور دیگر اختلافات کو سموے اور کثرت میں وحدت کی جلوہ نمائی کرے۔ ان کا زور ایک نئے ذہن کی تعمیر پر تھا۔ وہ مستقبل کے ہندوستان میںبلند فکر، جرات، کردار اور خلوص کار رکھنے والے انسان چاہتے تھے۔ وہ پورے طور پر قومی تشخص کے حامی اور علمبردار تھے۔ اس نئی پالیسی میں استاد کی حیثیت اور اہلیت دونوں کی طرف خاطر خواہ توجہ کی گئی ہے تاکہ وہ جلد سماج میں اپنی عظمت رفتہ کی بازیابی کرسکے کیونکہ کوئی بھی معاشرہ اپنے اساتذہ کے مقام سے بالاتر نہیں ہوسکتا اور ان کے مرتبے سے ہی کسی ملک کے مستقبل کی ضمانت ملتی ہے۔ اس پالیسی میں اساتذہ کی زندگی کو خوشگوار بنانے کے لئے پوری سعی کی گئی ہے۔ اور ان کی علمی استعداد میں اضافے کے لئے بیشتر ممکن تدابیر اختیا رکی گئی ہیں۔ ا ستاد کی ملازمت سے قبل، اور دوران ملازمت، تربیت کا ایک جامع پروگرام تیار کیا گیا ہے۔ ادارہ جاتی منصوبہ بندی سے لے کر قومی تعلیمی منصوبہ بندی تک ہر جگہ ان کی نمائندگی کو ضروری تسلیم کیا گیا ہے۔ نیز داخلہ، نصاب، امتحان جیسے امور طے کرنے میں ان کی شرکت لازم قرار دی گئی ہے۔ ان تمام تجاویز کی غرض وغایت بھی تعلیمی نظام کو موثر بناتا ہے۔ مولانا آزاد اپنے عہد وزارت میںاس طرف رجوع ہوئے تھے۔ اور استاد کی سرہندی کے لیے ان کا دست تعاون سب سے پہلے اٹھا تھا جب کہ تعلیم اور تعلیمی کارکن دونوں کی طرف سے ایک عام بے حسی اور بے رخی کا دورجاری تھا۔ انہوں نے اپنی متعدد تقاریر میں اور بڑے بڑے اہم مواقع پرقوم کی تعلیم کی طرف سے غفلت شعاری کا شکوہ کیا ہے اور اپنی بے اطمینانی کا اظہار فرمایا ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی1986ء میں اخلاقیات، تحقیق اور تکمیلیت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ کیونکہ تعلیم کے وقار اور فروغ کے لئے طالبان علم کو ان صفات کا اہل ہونا ضروری ہے اور یہی وہ صفات ہیں جو ایک معلم اپنے اندر اور اپنے طالب علموں کے اندر پر وان چڑھانے سے حقیقی معنوں میں اپنی منصبی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوتا ہے۔ مولانا آزاد ان اوقات کے پرستار، خواستگار اور مظہر تھے۔ یہی وجہ تھی کہ تعلیم کے عام فروغ اور خصوصیت کے ساتھ اعلیٰ تعلیم کے معیار کو بلند کرنے کے لئے اپنے آغاز کار سے ہی مصر نظر آتے ہیں۔
قومی تعلیمی پالیسی1986ء کا طرہ امتیاز اقدار رخ تعلیم کو گردانا جاسکتا ہے۔ تعلیم کی چنوتی میں معاشرہ کے اندر اقدار کی بڑھتی ہوئی ناقدری کی طرف سے تشویش کا اظہار کیا جاچکا تھا اورتاریک خیال، تعصب، تشدد، استحصال، ضعیف الاعتقادی اور تقدیر پرستی جیسے منفی رجحانات سے نوخیز ذہنوں کو پاک رکھنے کی ذمہ داری تعلیم پر ڈالی گئی تھی۔ نیز ان کے بجائے سکیولر ازم، سوشل ازم، جمہوریت، سائنسی مزاج، قومی یکجہتی، حب الوطنی اور بین الاقوامی مفاہمت جیسے دستوری مقاصد کے حصول کو پیش نظر رکھنے کی تاکید بھی ہوگئی تھی۔ لہٰذا اس پالیسی میں واضح کردیا گیا کہ اقدار عالیہ کے علاہ سماجی اور تہذیبی اقدار کو بھی پورے طور پر دل کے اندر اتارا جائے اور سماج میں اقدار کے فروغ سے ہی تعلیمی عمل کی کامیابی کا اندازہ لگایا جائے گا۔
مولانا آزاد کی قیادت میں جس طور ہمارے نظام تعلیم کا خاکہ تیار ہوا اور اس کے خطوط بھرنا شروع ہوئے، وہ روش غالباً کوئی بھی اختیار کرتا جسے اس سلسلے میں شرف اقلیت حاصل ہوتالیکن جیسے آپ تعلیم کی اقدار اور اس کے جمالیاتی پہلو کی طرف متوجہ ہوئے،وہ آپکی شخصیت اور انفرادیت کا ہی فیض گردانا جاسکتا ہے۔ آپ حقیقی معنوں میں ایک مذہبی انسان اور اقدار عالیہ کے علمبردارتھے۔اس ضمن میں ان کے یونسکو سیمینار کے خطبہ صدارت کا ذکر آچکا ہے۔ ان کی ایک او رمعرکۃالآرہ تقریر بھی یاد آتی ہے جس میں انہوں نے ملک کے مورخوں کو کشادگیااور فکرونظر کی دعوت دیتے ہوئے معروضی رویہ اختیار کیا نیز علاقائی اور فرقہ وارانہ تعصب سے باز رہنے کی ترغیب دی ہے۔ ان کا ارشاد ہے کہ تاریخ اپنی تہذیب اور تمدن کی داستان ہونی چاہیے جس میں اس کا فلسفہ، مذہب اور انسان دوستی کا پیغام جھلکتا ہو۔ اس تعلیمی پالیسی میں تاریخ کی تصنیف و تدریس کے سلسلے میں مولانا آزاد کے افکار کی بازگشت پورے آہنگ کے ساتھ سنائی دیتی ہے۔ مولانا آزاد نہایت پختہ ذوق جمال بھی رکھتے تھے۔ وہ فنون لطیفہ کے شیدائی اور مظاہر فطرت کے گرویدہ تھے۔ ان کے نزدیک انسان کی فن کاری ہویا قدرت کی کاری گری، حسن بہر صورت اپنا جلوہ دکھاتا ہے اور اس سے لطف اندوز ہونے سے روح کو بالیدگی نصیب ہوتی ہے۔ وہ جمالیات کی تعلیم کو اہمیت دیتے تھے۔ اسے وہ طہارت جذبات، فروغ صلاحیت اور عالمی اتحاد کا وسیلہ تصور کرتے ہیں۔ آج پھر فنون لطیفہ کی افادیت کو ہماری اس نئی پالیسی میںسراہا گیا ہے۔ جن سے مولانا کے حسن نظر کا قائل ہونا پڑتا ہے مولانا نفاست پسند واقع ہوئے تھے۔ ان کا مذاج سلیم بے حد رچابسا تھا اور آداب زندگی انتہائی شائستہ وپیراستہ۔ ان کے اقوال سے بڑھ کر ان کے افعال اس معاملے میں ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔ انہوںنے ملک کے آثار قدیمہ،صناعی کے نمونوں، نوادرات، علمی اور ادبی کارناموں، چرندوپرند اور شجر وحجر وغیرہ کے بارے میں احترام وافتخار کے جذبات رکھنے کے سلسلے میں بھی جوکچھ تلقین کی ہے۔ آج ہماری تعلیمی پالیسی بھی اس طرف رجوع ہوئی ہے۔
بہرکیف قومی تعلیمی پالیسی1986ء کے ہر پہلو پر ’’فکر آزاد‘‘ کا پرتو بالکل صاف طورپردکھائی دیتا ہے۔ البتہ لسانی پالیسی کے سلسلے میں اس سے کچھ بھی استفادہ نہیں کیا گیا ہے۔ یہاں سبھی’’سہ لسانی فارمولا‘‘ اپنی نسخ شدہ شکل میں ہی کارفرما دکھائی دیتا ہے۔ آزادی کے چالیس سال بھی آزاد کی زبان کو تہمت سے بری الذمہ نہیں کرسکے ہیں اوروہ بدستور تاکروگناہی کے عتاب کا شکار بنی ہوئی ہے۔ اس ایک بے التفاقی سے قطع نظر’’قومی تعلیمی پالیسی1986‘‘ کی فلسفیانہ اساس بالعموم اور اس کا اقدار رخ تعلیم فراہم کرنے کا عزم بالخصوص اپنے وطن عزیز کے آزاد نظام تعلیم کے صفحے پر مولانا آزاد کے ثبت کردہ’’نقش اول‘‘’ کی اصابت اور افادیت پر بخوبی دلالت کرتا ہے۔