تمام کیمونسٹ ممالک اور اُن کے طفیلی ممالک مثلاً مصر، شام، یمن، کیوبا، پیرو، جنوبی کوریا ، روس اور چین میں الیکشن بھی ہوتے ہیں ۔ عوام اپنے نمائندے بھی چنتے ہیں۔ پارلیمنٹ بھی وجودمیں آتی ہے لیکن حکومت سینئر موسٹ جرنیل کی ہوتی ہے۔ جو تب بدلتی ہے جب وہ خود مستعفی ہو جائے، قضائے الٰہی سے سورگ باش ہو جائے یا اُسے سورگ باش کر دیا جائے۔
طریقے سب ہی اچھے ہیں اور نہ ہی بُرے ہیں ۔ اصل میں اچھی یا بُری نیت ہوتی ہے جب پوری قوم کی بمع راہنماؤں کے نیت میں فتور آ جائے تو چاہے کوئی سا بھی طریقہ حکمرانی ہو کامیاب نہیں ہو سکتا۔ دنیا میں بعض قوموں اور ملکوں نے ڈکٹیٹر شپ کے ذریعے بہت ترقی کی ہے۔ جس کی واضع مثال چین ہمارے سامنے ہے کیونکہ حکمرانوں کی نیت ٹھیک تھی۔ انہوں نے سب کچھ ٹھیک کر لیا اور ملک کو بے انتہا ترقی کی اونچائیوں پر لے گئے ہیں۔
آ ج چینی عوام ٹھیک نیت اور خاص طور پر اپنے راہنماؤں کی نیک نیتی کے ثمرات سے مستفید ہو رہے ہیں۔ آج انہیں دنیا کی جدید اور ہر قسم کی سہولتیں حاصل ہو رہی ہیں اور اُن کا معیارِ زندگی دن بدن بہتر ہو رہا ہے۔ ایسی تیز ترین ترقی کی مثال کہیں نہیں ملتی کہ یورپ کے ملکوں کو جو پہلے دنیا کی تجارت پر چھائے ہوئے تھے۔ کساد بازاری میں مبتلا کر دیا ہے۔ آج امریکہ چین کا مقروض ہے۔ دنیا کے بے شمار ملکوں میں چائنا اُن کی کمپنیاں خرید رہا ہے جو اُن سے نہیں چل رہی تھیں۔ چین جوں ہی اُن کمپنیوںکو خریدتا ہے وہ منافع شو کرنے لگتی ہیں۔ اس لئے کہ چائنا کی ایڈمنسٹریشن کرپشن کو ذرا بھی برداشت نہیں کرتی۔ صرف چائنا ہی نہیں تمام ترقی یافتہ ممالک میں کرپشن کو قتل کے برابر جرم سمجھا جاتا ہے۔
قاتل صرف ایک آدمی یا دو تین کو قتل کرتا ہے لیکن کرپشن ہزاروں اور لاکھوں کو قتل کرتی ہے۔ کرپشن میں جب اربوں روپیہ ایک آدمی یا چند آدمی چوری کر لیتے ہیں تو خزانے میں فنڈز کی کمی کے سبب بے شمار لوگ دوائیوں یا ہسپتالوں میں سہولیات نہ ملنے کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ سڑکوں کی حالت ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے سالانہ ہزاروں ایکسیڈنٹ ہوتے ہیں۔ ان میں بے شمار مر جاتے ہیں اور بے شمار اپاہج ہو جاتے ہیں۔ سکولوں میں اچھی تعلیم اور بہتر سامان نہ ہونے کی وجہ سے بے شمار طلباءاعلیٰ تعلیم تک نہیں پہنچ سکتے۔ کرپشن کی وجہ سے بے روز گاری میں اضافہ ہوتا ہے اور جب لوگ اپنے اخراجات پورے نہیں کر سکتے تو جہاں جرائم میں اضافہ ہوتا ہے وہیں لوگوں کی فریسٹریشن میں اضافہ ہوتا ہے۔
آج پاکستان کئی قسم کے مسائل میں ڈوبا ہوا ہے۔ اگر اُن کے مسائل کا تجزیہ کیا جائے تو سب کی وجہ آپ کو کرپشن ہی نظر آئے گی۔ چین نے ڈکٹیٹر شپ سے وہ فوائد حاصل کئے ہیں جو یورپین ترقی یافتہ ممالک نے جمہوریت سے حاصل کئے ہیں لیکن وہ جمہوریت ویسی نہیں ہوتی جیسی پاکستان میں ہے۔ پاکستان میں جمہوریت نہیں۔ ایک بہت کرپٹ جاگیردارانہ نظام کا نام ہمارے سیاست دانوں نے جمہوریت رکھ لیا ہے اور ہر وقت جمہوریت جمہوریت کہہ کر لوگوں کو الو بناتے ہیں۔ تیسری دنیا کے ممالک میں جاگیردارانہ ڈکٹیٹر شپ کو جمہوریت کہا جاتا ہے۔ اسی لئے تو ان ممالک کے لوگوں کا بھلا نہیں ہوتا۔ شاید ہی کسی اور ملک کو اتنا لوٹا گیا ہو جتنا پاکستان کو لوٹا گیا ہے۔ صرف لوٹا ہی نہیں گیا بلکہ اپنی نا اہلی کی وجہ سے تباہ بھی کیا گیا ہے۔ پاکستان کو جمہوریت اور ڈکٹیٹر شپ دونوں میں ٹکا کے لوٹا گیا۔ حالانکہ دعوے ہمیشہ بڑے بڑے کئے گئے لیکن جب دولت اور دل کی تسکین کے ڈھیر سامنے ہوں تو پھر اپنے عزم پر وہی قائم رہتاہے جس کا دل اور پیٹ بھرا ہوا ہو یا جسے یہ خطرہ نظر آئے کہ پکڑا گیا تو کتے کی موت مارا جاؤں گا ۔ ہمارے ملک کا نظام اتنا کمزور ہے کہ کرپٹ ، رشوت خور اور دوسرے غدار قسم کے لوگ دھڑلے سے اپنے آپ کو نیک اور پاک صاف ثابت کرتے ہیں اور کوئی ان کی راہ روکنے والا نہیں۔