پاکستان میں اس بات پر مکمل اتفاق ھے کہ مختلف وجوہات کی بناء پر عملی طور پر سول حکومت کے بہت سارے اختیارات اس کے اپنے ہی ایک ادارے کے پاس چلے گئے ہیں, بس فرق صرف یہ جمہوریت پسند اس حقیت کا اقرار افسوس اور دکھ سے کرتے ہیں اور “دوسرے” اس کا اظہار طنز اور خوشی سے کرتے ہیں.
یہ عجیب اور پیچیدہ صورتحال پاکستان کے اکثروبیشتر مسائل کی بنیادی وجہ ھے. ریاست کی پے پناہ طاقت جو خلقِ خدا کی زندگی کو آسان بنانے پر ہونی چاہئے وہ حکومتوں کو گرانے, بچانے اور بنانے پر صرف ہو جاتی ھے. لیکن بوجوہ اس پر بہت کم لکھا اور بولا جاتا ھے.
حکومت کو عملی طور پر اور جمہوریت پسند حلقوں کو اصولی طور پر یہ صورتحال بالکل ناقابلِ قبول ھے. لہذا وہ اس صورتحال کو بدلنا چاہتی ھے اور دوسری طرف اس کا ادارہ اس صورتحال کو جوں کا توں رکھنا چاہتا ھے بلکہ خاموشی سے اپنی حالت کو اور بہتر کرنے کی کوشش کرتا ھے اور نتیجے میں پاکستان کی سیاست میں اکثر ایک کشمکش اور اتار چاڑھ کی کیفیت دیکھنے کو ملتی ھے.
اس کیفیت سے نکلنے کا ایک حل یہ پیش کیا جاتا ھے کہ جب حکومت کی کارکردگی بہتر ہو گی یا جب اعلیٰ اخلاق والے سیاست دان سامنے آئیں گے تو وہ مختلف قسم کے دلیرانہ اقدامات سے حالات کا پانسہ پلٹ دیں گے, مستقبل قریب میں تو ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آتا.
اس مسئلہ سے نکلنے کی ایک راہ یہ دکھائی جاتی ھے کہ موجودہ حکومت کو سامنے آ کر اس صورت حال کی اصلاح کے لیے اقدامات کرنے چاہیئے.
یہ مسئلہ ایسے بھی حل ہو سکتا ھے کہ بیٹھے بیٹھے ادارے کے ذمہ داران کو خیال آئے اور وہ اپنی حدود کے اندر رہ کر کھیلنا شروع کر دیں لیکن ایسا ہوناا ممکن نظر نہیں آتا.
اس بنیادی مسئلے کو حل نہ کرکے ہم نے پیارے وطن کی بربادی ہی نہیں دیکھی بلکہ اسکی آدھی آبادی بھی گنوا دی ھے اور بقیہ کسم پرسی میں زندگی گذارر رہی ھے اور اقوامِ عالم میں پاکستان کی بدنامی بھی کھل کر ہمارے حصہ میں آئی ہوئی ھے.
اس مسئلہ کے حل میں نہ سیاستدانوں کی نااہلی اور نہ ہی کوئی وجہ آڑے آنی چاہیئے کیونکہ آئین میں حکومت اور اس کے سارے اداروں کا رول طے ہے اورر ہمیں عوام کو بلا تمیز اس کے لیے آواز اٹھانی چاہیے. کیونکہ اس مسئلے کا حل کسی ایک پارٹی یا شخص کے پاس نہیں ھے. جناب, اگر اس مسئلے کے حل سے راتوں رات انقلاب تو نہیں آئے گا لیکن پاکستان ترقی کی راہ پر بڑی تیزی سے چلنے لگ پڑے گا کیونکہ پھر ریاستی اداروں میں دوئی کی بجائے یکسوئی آ جائے گی.