ایک زمانے میں روٹی، کپڑا اور مکان‘ مقبول ترین نعرہ تھا، بعض بڑی سیاسی جماعتوں اور قدآورشخصیات کو اس ایک نعرے نے ماضی کا قصہ بنادیا۔ یہ وہ وقت تھا جب ملک میں چالیس لاکھ مکانات کی قلت تھی۔ ان سب کوروٹی کی آس اور مکان اور تن ڈھانپنے کو کپڑا ملنے کی امید تھی۔ لیکن ہماری خواہشیں پوری تھوڑی ہوجاتی ہیں۔ بے شمار خلش بن کر زندگی بھر ڈستی رہتی ہیں۔ان خواہشوں کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔
یہ چکر چلتا رہا۔ مکانات کی قلت چالیس سے بڑھ کر پچاس لاکھ ہوگئی۔ قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ یہ سب کچھ نجی شعبے کے نام پر ہونے لگا۔ کیونکہ حکومت سب پر ’’حکومت ‘‘ تو کرسکتی تھی لیکن سب کو روٹی، کپڑا اور مکان نہیں دے سکتی۔ اس لئے نجی شعبے نے قدم جمانا شروع کردئیے۔ مشرف دورمیں پلاٹوں کا نیا’’پلاٹ‘‘ لکھا جانے لگا۔ اب پلاٹ، پلاٹ نہ رہا، انڈسٹری بن گیا۔ حکومت درمیان میں سے کمال ہوشیاری سے نکل گئی ہے۔ اب نجی شعبہ اور عوام رہ گئے ہیں۔ جس جس نے اپنے گھر کا خواب دیکھنا ہے وہ پہلے ایک ساتھ دس دس دس نوکریاں کرے کیونکہ ہمارے ملک میں مجموعی فی کس آمدنی ڈیڑھ ڈالر یومیہ کے لگ بھگ ہے۔ ہائوسنگ انڈسٹری میدان میں آگئی۔ چار لاکھ روپے کی جائیداد چالیس لاکھ روپے کی ہوگئی۔ یہ انڈسٹری بننے کا کمال تھا۔اسی انڈسٹری نے جوہر ٹائون کا دس لاکھ روپے کا پلاٹ ایک کروڑ کا کردیا۔
یہ سوچنے کی فکر کسے ہے کہ ایسے ملک میں جہاں چالیس فیصد لوگ سطح غربت سے نیچے رہتے ہیں وہاں مکانات کو اتنا مہنگا کرنے والوں پر کوئی چیک ہونا چاہیے یا انہیں مزید’’چیک‘‘دینا چاہیے؟ اسی اثنا میں کسی افسر کو خیال آیا کہ جب پراپرٹی ڈیلرکمارہے ہیں تو ایف بی آ رکیوں پیچھے رہے اسے کیا پڑی ہے کہ اس بہتی گنگا کو فضول ہی بہنے دے، اپنے ’’وسائل‘‘ ضائع جانے دے، یہ ہونہیں سکتا۔چنانچہ ایف بی آر نے بھی کمر کس کر ایسے ٹیکس لگائے کہ سب کی کمر ہی توڑ دی!اس پوری’’انڈسٹری پر موت کاساسایہ منڈلانے لگا۔وفاقی وزیر خزانہ نے ڈرپ لگائی ہے۔ دیکھیں، کب سانسیں بحال ہوتی ہیں۔
رہی سہی کسر بنکوں نے پوری کردی ہے جو مڈل کلاس یا غریب کی بجائے امیر کے دائیں بائیں کھڑے ہیں۔ ہمارے بینکوں اور مالیاتی اداروں نے کئی ہزار ارب روپے کے قرضے جاری کر رکھے ہیں۔ سٹاک، سونا چاندی وغیرہ کی سکیورٹیز کا حکم2015ء میں111ارب روپے تھا جو 2016ء میں312ارب روپے ہوگیا۔غربت اور بے بسی کا عالمی دیکھئے، دوگنا زیادہ لوگوں نے اپنے زیورات بنکوں کے پاس گروی رکھوائے۔ مرکنڈائز سکیورٹیز کا حکم1381ارب روپے سے بڑھ کر 2016میں1404ارب روپے ہوگیا۔اس میں فوڈ انڈسٹری کی سکیورٹیز اورقرضوں میں ڈھائی سو ارب روپے کی کمی ہوئی۔109ارب روپے کی کمی تو گندم کی سکیورٹیز میں ہوئی۔2016ء میں تمام ملکی بینکوں نے گندم کی سکیورٹیز میں60فیصد کمی کردی۔ چاول اور دھان کی سکیورٹیز 79ارب روپے سے کم ہوکر71ارب روپے اورخوردنی تیل کی سکیورٹیز25ارب روپے سے کم ہوکر21ارب روپے پر آگئی۔ پٹرولیم انڈسٹری کو 36ارب روپے سے 59ارب روپے کے قرضے دئیے گئے۔ آئرن اینڈ سٹیل کے قرضوں کا حجم61ارب روپے سے بڑھ کر67ارب روپے ہوگیا۔شوگرانڈسٹری حسب سابق محبوب انڈسٹریز کی فہرست میں شامل رہی ۔
اس کے قرضوں اور سکیورٹیز15ارب روپے کے اضافے کے بعد93ارب روپے سے بڑھ کر108ارب روپے ہوگئی۔ خام کپاس کی امپورٹ اور لوکل خریداری کے قرضوں اور سکیورٹیز کا حکم355ارب روپے سے بڑھ کر 442ارب روپے اورکھاد پر سکیورٹیز کا حجم57ارب روپے سے بڑھ کر79ارب روپے ہوگیا۔ ٹیکسٹائل اور فنشڈ مصنوعات کو579ارب روپے کی سکیورٹیز جاری کی گئیں۔ پلانٹ اینڈ مشینری کے حصے میں بھی9سو ارب ورپے آئے۔ زرعی قرضوں کا حجم 16فیصد اضافے کے ساتھ578ارب روپے تک پہنچ گیا۔ یہ واحد شعبہ ہے جس میں وصولیوں کا ہدف 99.71ارب روپے ہے۔
اس جائزے کے بعد اب آتے ہیں اپنے مقصد کی طرف۔ گزشتہ سال رئیل سٹیٹ کو تقریباً626ارب روپے منظورکئے گئے جس کا لائنز شیئر’’لائنز‘‘ کو مل گیا۔جس کے پاس درجنوں پلاٹ تھے وہ سینکڑوں جائیدادوں کا کاروبار کرنے کے قابل ہوگیا۔ اس میں زمینو ںکی خریداری کے لئے221ارب روپے اور بلڈنگز کی تعمیر کے لئے دئیے گئے405ارب روپے بھی شامل ہیں۔ غیر رہائشی جائیدادوں کی خریداری کرنے والوں کو233ارب روپے ملے۔رہائشی عمارات کی خریداری کے لئے صرف171ارب روپے جاری کئے گئے۔ اپریل سے جون تک کے تین مہینوں میں ہائوسنگ کے شعبے کو 65ارب روپے ملے۔ بنکوں، بالخصوص سرکاری بینکوں نے ہائوسنگ انڈسٹری سے منہ ہی پھیر لیا۔ ہائوسنگ بلڈنگ فنانس کارپوریشن نے 52ارب روپے اور دیگر بینکوں نے25ارب روپے کے قرضے جاری کئے۔ غیر ملکی بینکوں اورمالیاتی اداروں کے 5ارب روپے ان میں شامل ہیں۔ مجموعی طورپر ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کا حصہ24فیصد ہے لیکن اگر غریبوں کو چھت کی فراہمی میں اسلامی بینک اپنی مقدور بھرکوشش کررہے ہیں۔ اسلامی بینکوں نے تمام قرضوں میں سے 38فیصد ہائوسنگ انڈسٹری کو دئیے۔
5اسلامی بنکوں اور 14بنکوں کے اسلامی ڈویژنز کا 78ارب روپیہ مگرمچھوں کی ’’اگرمگر‘‘ کی نذر ہوگیا۔ یار لوگوںنے اسلامی بنکوں کے سوا چار ارب اورمالیاتی اداروں کے سوا ارب روپیہ دلائے۔ ایک رپورٹ کے مطابق قرضہ لینے والے 68ہزار میں سے 35ہزار جز وقتی طو رپر ڈیفالٹ کرگئے۔ہائوسنگ انڈسٹری کے قرضوں میں سوا چار فیصد کا معمولی اضافہ ہوا۔ بینکوں کی اس ’’نظراندازی‘‘ نے عوام کی بے بسی کو ناامیدی میں بدل دیا ہے۔بینکنگ انڈسٹری کی زیادہ تر دلچسپی سرکاری بانڈز میں رہی۔ تمام دوسری سکیموں سے بہتر منافع کی حامل ہونے کے باعث سکوک اور دوسرے بانڈز میں بینک خصوصی دلچسپی لے رہے ہیں جس سے ہائوسنگ انڈسٹری بھی متاثر ہورہی ہے۔ پھر حکومت نے زرعی شعبے کے لئے341ارپ روپے کے پیکیج کا اعلان کیا بعدازاں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف بھی100ارب روپے کے پیکیج کے ساتھ زرعی شعبے کی مدد کو آئے۔
مکان کی فراہمی سابقہ دور میں ترجیحات میں شامل تو رہی ہیں لیکن صرف نعرے کی حد تک!
مشرف دور میں پلاٹوں کی قیمتیں عام آدمی کی قوت خرید سے باہرنکل گئیں۔ سابق وزیر اعلیٰ نے اپنا گھر کا نعرہ لگایا لیکن ان کے دورمیں سستے مکانوں کا بجٹ چند کروڑ سے آگے نہیں جاسکا۔ رہی سہی کسر ڈیفالٹروں نے بینکنگ سیکٹر کو خوف زدہ کرکے پوری کردی ہے پلاٹوں اور مکانات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باوجود لوگ عارضی یا مستقل طورپر ڈیفالٹ کیوں کرگئے۔ بعض بینک ہائوسنگ انڈسٹری کو قرضے جاری نہیں کررہے۔ ان کی توجہ آٹوز پر ہے۔ عوام کا ’’تیزرفتار‘‘ ہونا بھی ضروری ہے لیکن سرپر چھت ہی نہ ہوتو کارکس کام کی۔ حکومت مکانات کی کمی کو دور کرنے کے لئے متوسط اور غریب طبقے کے لئے سستے قرضوں کی سکیم جاری کرے۔ماضی میں اپٹما، شوگر، کھاد اوردوسری انڈسٹریز کو بار بار پیکیچز دئیے جاتے رہے ہیں۔ زرعی شعبے کو دو سال میں وفاق اورصوبے سے ایک ایک پیکیج مل گیا۔ اپنے گھر میں رہنے کی خواہش کی تکمیل کے لئے حکومت ایک بار اپنا گھر بنانے کے لئے عوام کو ایسا کوئی پیکیج دے کر دیکھ لے۔
لوگ اپنا گھر اٹھاکر بھاگ تو نہیں سکتے،قرضہ واپس کر ہی دیں گے۔