اصلا حی جماعتوں نے جہاں ایک طرف نوجوانوں سے انقلابی و اجتماعی سوچ چھین لی وہیں دوسری طرف والدین کو بھی نوجوان اولاد سے بد ظن کر دیا ھے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ جب بیچارے والدین مسجد جاتے ہیں تو اصلاحی جماعتوں کے نمائندے ان کو انفرادیت،عذاب و وعید اور رسمی وضع قطع پر مبنی ایسا دین سکھاتے ہیں کہ جس کے نتیجے میں اولاد اور والدین کے درمیان ایک بہت بڑی خلیج پیدا ہوجاتی ھے،
والدین واعظ ومبلغ کی تقریر کا اثر لے کر اپنے بچوں پر دین کے معاملے میں سختی کرنے لگتے ہیں جبکہ دوسری طرف نوجوان کے لیے ایسے رسمی مذھب پر جو کہ نہ صرف چند مخصوص اعمال تک محد ود ہے بلکہ اپنے اند ر ایک بے جا شد ت بھی رکھتا ھے ،پر چلنا مشکل ہوجاتا ھے ۔چنانچہ وہ اس مذ ہبی سوچ سے باغی ہونا شروع ہوجاتا ھے اور نتیجتا اولاد و والدین کا وہ پاکیزہ رشتہ جو اعتماد و اخلاص پر مبنی ہوتا ھے ،اس رسمیت کی بھینٹ چڑھ کر برباد ہوجاتا ھے ۔۔۔۔
میری ایسی تمام اصلاحی جماعتوں کے نمائندوں سے گزارش ھے کہ خدارا نوجوانوں پر رحم کھائیں !! دین فطرت کو دین جبر مت بنائیں، یہ نہ ہو کہ ہمای نِئی نسل حقیقی دین ہی سے باغی ہوجائے اور د ین جو رشتوں کو جوڑنے کا پیغام لے کر آیا تھا وہ آپ کی غلط حکمت عملی کی وجہ سے رشتوں میں دراڑ کا سبب بن جاۓ، اس لیے تبلیغ کیجیے مگر حکمت سے