• کوئی سوال ہے؟
  • 923009426395+
  • darulshaour.magazine@gmail.com
حنا شاہ نواز کی لاچارگی کی موت — تحریر: شہادت حسینحنا شاہ نواز کی لاچارگی کی موت — تحریر: شہادت حسینحنا شاہ نواز کی لاچارگی کی موت — تحریر: شہادت حسینحنا شاہ نواز کی لاچارگی کی موت — تحریر: شہادت حسین
  • صفحہ اول
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • قرآنیات
  • تاریخ و فلسفہ
  • تعلیم | تربیت
  • انتخاب
  • شخصیات | انٹرویوز
  • کالم
  • کتابوں پر تبصرے
  • یوٹیوب چینلز
    • “Hakayat O Rawayat”
      حکایات و روایات
    • “Darulshaour Audio Books”
      دارلشعور آڈیو بکس
    • آڈیوز/ وڈیوز
  • آن لائن کتابیں
✕

حنا شاہ نواز کی لاچارگی کی موت — تحریر: شہادت حسین

  • صفحہ اول
  • بلاگ
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • حنا شاہ نواز کی لاچارگی کی موت — تحریر: شہادت حسین
ایک اہم سوال! — تحریر: محمد عثمان
فروری 9, 2017
شاہ دولہ کا چوہا — تحریر: سعاد ت حسن منٹو
فروری 10, 2017
Show all

حنا شاہ نواز کی لاچارگی کی موت — تحریر: شہادت حسین

عورتوں پر تشدد اور ستم اس معاشرے کا انتہائی دردناک المیہ ہے،اس سے زیادہ دردناک اور تلخ المیہ یہ ہے کہ تشدد اور ذلت کی ابتدا گھر کے ہی منفی رویوں سے ہوتی ہے،پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کوہاٹ کے گاوں استرزئ سے تعلق رکھنے والی خاتون حنا شاہ نواز دختر شاہ نواز مرحوم کی طرف سے گزشتہ دو دن پہلے اس کے چچا زاد بھائ سے نوکری سے باز نہ آنے کے بہانےپر قتل کا واقع سامنے آیا ہے جس پر پورے معاشرے میڈیا ہیومن رائٹس وومن رائیٹس سوشل ایکٹیویٹس کی بے حسی عیاں ہوتی ہے ۔

ہوا کچھ یوں کہ ہماری ایک ایم فل پاس بہن نے کچھ عرصہ پہلے ایک این جی ا و کے ساتھ نوکری شروع کی. اس سے پہلے کہ آپ کی برائے نام غیرت جاگ اٹھے اور اسے این جی او کی آنٹی, مغرب کے مفادات کی خاطر بکنے والی خاتون کے القابات سے نواز یں تو سنتے جاییں کہ اس کے والد کی وفات کینسر سے ہوئی اور موت کے آخری دنوں میں علاج کی خاطر مقروض ہو چکے تھے اور پھر وفات پا گئے. بھائی کو محلے کی معمولی لڑائی میں قتل کیا گیا تو بیوہ بھابی اور دو یتیم بچے پیچھے چھوڑ گئے. پھر چھوٹی بہن گیارہ ماہ جس کی شادی کو ہوئے تھے وہ بیوہ ہوئی تو اس کی ذ مہ داری اور ایک یتیم بچے کی ذمہ داری بھی ہماری اس بہن کے کںدھوں پر آگئی کہ گھر میں کوئی مرد نہیں تھا اور ہماری یہ بہن خاندان کی واحد پڑھی لکھی لڑکی تھی
چھ ماہ قبل والدہ کا بھی انتقال ہو چکا تھا. ایسے حالات میں جب رواج، روایت اور قانون نے ان یتیم اور بیوہ بہنوں کی کفالت کا بند وبست نہ کیا تو ایک این جی و نے 80,000 کی ماہانہ تنخواہ پر ملازمت دی جس سے ان بیواؤں اور یتیم بچوں کی کفلات کا بند وبست ہونے لگا. یوں ہمارے رواج اور روایت کو خطرہ لاحق ہو گیا. ہمارے غیرت مند چند افراد کی غیرت نے جوش مارا اور نوکری کرنے کی پاداش میں اس بہن  کے خلاف مھم شروع کی.گئی

اس بہن نے ماں کے علاج کے لئے بھی قرضہ لے رکھا تھا جس کو ادا کرنے کے لئے کچھ جائیداد بیچنے کا ارادہ بھی رکھتی تھیں اور اسی ارادے کے ساتھ اپنے آبائی گھرکو  لوٹیں. ساتھ میں پریشان بھی تھی کہ بیوہ بہن کے یتیم بچے کی کسٹڈی کے لئے ہائی کورٹ سے جیتے گئے کیس کے خلاف بچے کے دادا ابّو نے پھر سے درخواست دی رکھی تھی لیکن یہ باہمّت بہن مشکلات کا مقابلہ کرتی رہی.

پچھلے ہفتے گھر کو لوٹنے والی میری پیاری بہن ، اب ہم میں نہیں ہے. جائیداد میں حق کے لئے آواز اٹھانے اور اپنا شعبہ چننے کے حق کو استعمال کرنے کی پاداش میں چچا زاد بھائی نے اسے کل قتل کر دیا ہے.
،لہذا پولیس ،عدالت اور انسانی حقوق کی تنظیموں کواس طرح کے کیس پر اپنی موثر تحقیقات کے ذریعے اصل حقائق کی گہرائی تک پہنچنے کی ضرورت ہے، میرے علم کے مطابق اسکے خاندان سے بھابی کو بھی شدید خطرہ لاحق ہے مقتولہ کے دیگر رشتہ دار کمزور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور قاتل کے خلاف کارروائ کرنے سے گریزاں ہیں اس پورے معاملے کو سنبھالنے میں اسکی ایک سہیلی جو کہ  اقلیت طبقے سے تعلق رکھتی ہے وہی تگ و دو کر رہی ہے میں نے خود اس کی سہیلی سے فون پر بات چیت کی ہے اس سے پہلے ان قاتلوں کے خلاف گواہوں اور رشتہ داروں کی آوازوں کو بھی خاموش کرایا گیا ہے ہر اس شخص کو اس معاملے میں کچھ نہ کچھ مدد کے لئیے مثبت قدم  اٹھانا چاہئیے ۔کیونکہ اس طرح کے مسائل انسانی حقوق کے زمرے میں آتے ہیں دوسری طرف اگر ہم دیکھیں توعورتوں پر تشدد کسی گھرانے کا نجی معاملہ نہیں ہے۔ درحقیقت تشدد سرے سے نجی فعل ہی نہیں ہے۔ تشدد ایک اجتماعی جرم ہے کیونکہ معاشرے میں کسی ایک فرد پر تشدد کے اثرات سب کو بھگتنا پڑتے ہیں۔ ایک عورت پر تشدد سارے معاشرے پر اثرانداز ہوتا ہے۔ یہ ہمارا حق بھی ہے اور فرض بھی کہ عورتوں پر تشدد کی کسی بھی شکل کی نشاندہی کریں۔ عورتوں پر تشدد کہیں بھی ہو ہم اس کے خلاف آواز اْٹھائیں۔ عورتوں پر تشدد کوئی بھی کرے اس کی حوصلہ شکنی کریں۔ میرا یہ سوال ہے کہ کیا شوشل میڈیا اس لاوارث بہن کے کیس کو انسانی ہمدردی کے تحت اٹھائے گا کیونکہ حنا شاہ کا بھائی بھی قتل ہوچکا ماں بھی مرچکی اور باپ کو کینسر کا موذی مرض نگل گیا ۔کیا ہم حنا شاہ کے بھائی بن کے اس کے ایشو کو ہائی لائٹ نہیں کرسکتے ؟ اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو اس مقدمے کو آگے شیئر کرتے جائیں یہاں تک کہ یہ زنجیر عدل کو ہلادے اور کوئی بااختیار فرد حنا شاہ کو اپنی بیٹی اور بہن سمجھ کر انصاف کے تقاضے پورے کرڈالے۔

مناظر: 240
شئیر کریں
vicky
vicky

Related posts

جون 13, 2022

عمران خان کا یہ قصور کم نہیں تھا!


مزید پڑھیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

✕

اقسام

  • قرآنیات
  • سیرت النبی
  • امروزیہ | آج کی تحریر
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاست | معیشت
  • شخصیات | انٹرویوز
  • تعلیم | تربیت
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خواتین کارنر | صحت
  • اردو ادب | لٹریچر
  • انتخاب | نادرتحریریں
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کتابوں پر تبصرے
  • Uncategorized

تازہ ترین پوسٹس

  • 0
    پیغام ابراہیم
    جولائی 12, 2022
  • 0
    عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
    جولائی 11, 2022
  • 0
    مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
    جولائی 8, 2022

حالیہ تبصرے

  • جون 7, 2022

    M Abbas Shad commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

  • جون 5, 2022

    امیر حمزہ وٹو commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

Array

اہم ضوابط

اکاؤنٹ

پالیسی و ترجیحات

اغراض و مقاصد

نئے لکھنے والوں کے لئے

تازہ تحاریر

  • پیغام ابراہیم
  • عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
  • مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
  • تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
  • سرسید اور حقوق نسواں

رابطہ

موبائل نمبر : 03009426395

فون نمبر : 04237239138

ای میل : da******************@***il.com

پتہ: دارالشعور 37.مزنگ روڈ لاہور

تعارف

"دارالشعورمیگزین" دارالشعور پبلیکیشنز کا ایک ذیلی پلیٹ فارم ہے۔ جو دارالشعورپبلیشرز اور مطبوعات مکی دارالکتب کے ترجمان سہ ماہی مجلے "الصدق" لاہورکی ترقی یافتہ شکل اور ماہنامہ رسالہ "دارالشعور،لاہور"کا ایک متبادل میگزین ہے۔ جو اب ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سوفٹ کاپی کی شکل میں آن لائن شائع ہوتا ہے۔اور اس میں کتابوں پر تبصروں اور تعارف کے علاؤہ مختلف سماجی ،سیاسی اور علمی موضوعات پر آپ کی خدمت میں معیاری مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ جو دارالشعورکے ہم خیال منصفین کی قلمی کاوشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز کو توانا بنانے کے لیے دارالشعور میگزین میں اپنے مضامین،تجزیے اور تبصرے بھیج کر ہماری ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ دارالشعور پبلیکیشنزکی آفیشل ویسائٹ کو نیچے دیئے گئے لنک کو کلک کرکے ویزٹ کرسکتے ہیں۔ www.darulshaour.com

دارالشعور میگزین © 2022
اکاؤنٹ