عورتوں پر تشدد اور ستم اس معاشرے کا انتہائی دردناک المیہ ہے،اس سے زیادہ دردناک اور تلخ المیہ یہ ہے کہ تشدد اور ذلت کی ابتدا گھر کے ہی منفی رویوں سے ہوتی ہے،پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کوہاٹ کے گاوں استرزئ سے تعلق رکھنے والی خاتون حنا شاہ نواز دختر شاہ نواز مرحوم کی طرف سے گزشتہ دو دن پہلے اس کے چچا زاد بھائ سے نوکری سے باز نہ آنے کے بہانےپر قتل کا واقع سامنے آیا ہے جس پر پورے معاشرے میڈیا ہیومن رائٹس وومن رائیٹس سوشل ایکٹیویٹس کی بے حسی عیاں ہوتی ہے ۔
ہوا کچھ یوں کہ ہماری ایک ایم فل پاس بہن نے کچھ عرصہ پہلے ایک این جی ا و کے ساتھ نوکری شروع کی. اس سے پہلے کہ آپ کی برائے نام غیرت جاگ اٹھے اور اسے این جی او کی آنٹی, مغرب کے مفادات کی خاطر بکنے والی خاتون کے القابات سے نواز یں تو سنتے جاییں کہ اس کے والد کی وفات کینسر سے ہوئی اور موت کے آخری دنوں میں علاج کی خاطر مقروض ہو چکے تھے اور پھر وفات پا گئے. بھائی کو محلے کی معمولی لڑائی میں قتل کیا گیا تو بیوہ بھابی اور دو یتیم بچے پیچھے چھوڑ گئے. پھر چھوٹی بہن گیارہ ماہ جس کی شادی کو ہوئے تھے وہ بیوہ ہوئی تو اس کی ذ مہ داری اور ایک یتیم بچے کی ذمہ داری بھی ہماری اس بہن کے کںدھوں پر آگئی کہ گھر میں کوئی مرد نہیں تھا اور ہماری یہ بہن خاندان کی واحد پڑھی لکھی لڑکی تھی
چھ ماہ قبل والدہ کا بھی انتقال ہو چکا تھا. ایسے حالات میں جب رواج، روایت اور قانون نے ان یتیم اور بیوہ بہنوں کی کفالت کا بند وبست نہ کیا تو ایک این جی و نے 80,000 کی ماہانہ تنخواہ پر ملازمت دی جس سے ان بیواؤں اور یتیم بچوں کی کفلات کا بند وبست ہونے لگا. یوں ہمارے رواج اور روایت کو خطرہ لاحق ہو گیا. ہمارے غیرت مند چند افراد کی غیرت نے جوش مارا اور نوکری کرنے کی پاداش میں اس بہن کے خلاف مھم شروع کی.گئی
اس بہن نے ماں کے علاج کے لئے بھی قرضہ لے رکھا تھا جس کو ادا کرنے کے لئے کچھ جائیداد بیچنے کا ارادہ بھی رکھتی تھیں اور اسی ارادے کے ساتھ اپنے آبائی گھرکو لوٹیں. ساتھ میں پریشان بھی تھی کہ بیوہ بہن کے یتیم بچے کی کسٹڈی کے لئے ہائی کورٹ سے جیتے گئے کیس کے خلاف بچے کے دادا ابّو نے پھر سے درخواست دی رکھی تھی لیکن یہ باہمّت بہن مشکلات کا مقابلہ کرتی رہی.
پچھلے ہفتے گھر کو لوٹنے والی میری پیاری بہن ، اب ہم میں نہیں ہے. جائیداد میں حق کے لئے آواز اٹھانے اور اپنا شعبہ چننے کے حق کو استعمال کرنے کی پاداش میں چچا زاد بھائی نے اسے کل قتل کر دیا ہے.
،لہذا پولیس ،عدالت اور انسانی حقوق کی تنظیموں کواس طرح کے کیس پر اپنی موثر تحقیقات کے ذریعے اصل حقائق کی گہرائی تک پہنچنے کی ضرورت ہے، میرے علم کے مطابق اسکے خاندان سے بھابی کو بھی شدید خطرہ لاحق ہے مقتولہ کے دیگر رشتہ دار کمزور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور قاتل کے خلاف کارروائ کرنے سے گریزاں ہیں اس پورے معاملے کو سنبھالنے میں اسکی ایک سہیلی جو کہ اقلیت طبقے سے تعلق رکھتی ہے وہی تگ و دو کر رہی ہے میں نے خود اس کی سہیلی سے فون پر بات چیت کی ہے اس سے پہلے ان قاتلوں کے خلاف گواہوں اور رشتہ داروں کی آوازوں کو بھی خاموش کرایا گیا ہے ہر اس شخص کو اس معاملے میں کچھ نہ کچھ مدد کے لئیے مثبت قدم اٹھانا چاہئیے ۔کیونکہ اس طرح کے مسائل انسانی حقوق کے زمرے میں آتے ہیں دوسری طرف اگر ہم دیکھیں توعورتوں پر تشدد کسی گھرانے کا نجی معاملہ نہیں ہے۔ درحقیقت تشدد سرے سے نجی فعل ہی نہیں ہے۔ تشدد ایک اجتماعی جرم ہے کیونکہ معاشرے میں کسی ایک فرد پر تشدد کے اثرات سب کو بھگتنا پڑتے ہیں۔ ایک عورت پر تشدد سارے معاشرے پر اثرانداز ہوتا ہے۔ یہ ہمارا حق بھی ہے اور فرض بھی کہ عورتوں پر تشدد کی کسی بھی شکل کی نشاندہی کریں۔ عورتوں پر تشدد کہیں بھی ہو ہم اس کے خلاف آواز اْٹھائیں۔ عورتوں پر تشدد کوئی بھی کرے اس کی حوصلہ شکنی کریں۔ میرا یہ سوال ہے کہ کیا شوشل میڈیا اس لاوارث بہن کے کیس کو انسانی ہمدردی کے تحت اٹھائے گا کیونکہ حنا شاہ کا بھائی بھی قتل ہوچکا ماں بھی مرچکی اور باپ کو کینسر کا موذی مرض نگل گیا ۔کیا ہم حنا شاہ کے بھائی بن کے اس کے ایشو کو ہائی لائٹ نہیں کرسکتے ؟ اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو اس مقدمے کو آگے شیئر کرتے جائیں یہاں تک کہ یہ زنجیر عدل کو ہلادے اور کوئی بااختیار فرد حنا شاہ کو اپنی بیٹی اور بہن سمجھ کر انصاف کے تقاضے پورے کرڈالے۔