2016ء کے امریکی انتخابات میں ری پبلکن پارٹی کے نامزد صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار حاضر سروس وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن ہاٹ فیورٹ تھی۔ نیز انتخابی مہم کے دوران دیے جانے والے ٹرمپ کے مضحکہ خیز بیانات اور غیر ذمہ دارانہ حرکات کے پیش نظر دنیا جہان کو اس کی شکست صاف نظر آرہی تھی مگر نہ ایک بھارتی شاعرہ کو کس طرح یقین تھا کہ ٹرمپ کو امریکی صدر بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ تبھی تو اس نے اسے مخاطب کرتے ہوئے یہ برمحل اشعار کہے تھے۔
جو خاندانی رئیس ہیں وہ مزاج رکھتے ہیں نرم اپنا
تمہارا لہجہ بتارہا ہے، تمہاری دولت نئی نئی ہے
ذرا سا قدرت نے کیا نوازا کہ آگے بیٹھے ہو پہلی صف میں
ابھی سے اڑنے لگے ہوا میں، ابھی تو شہرت نئی نئی ہے
اب جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ منتخب ہوکر دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ کے صدر کے طورپر حلف اٹھاچکے ہیں تو الیکٹرک، ٹرنپ اور سوشل میڈیا پر اسی کے چرچے ہیں اور اس کے بارے میں اتنا کچھ کہا اور لکھا جارہا ہے کہ ایک آدھ کالم اس کا احاطہ کرنے کے لئے ناکافی ہے۔ تاہم اس مواد میں سے ہم اپنے مطلب کی کچھ باتیں اخذ کیے لیتے ہیں۔
پاکستان کے حوالے سے ٹرمپ کا دلچسپ اقدام یہ رہا کہ اپنی تقریب حلف وفاداری میں اس نے وطن عزیز سے صرف سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کو مدعو کیا۔ منقول ہے کہ میاں محمد نوازشریف نے اپنے مشیر خاص طارق فاطمی کو اس مقصد کے لئے امریکہ بھجوایا تھا مگر وہ وزیراعظم کے لئے دعوت نامہ کے حصول میں ناکام رہے۔ میاں صاحب کو Terrific Guy یعنی کمال کا آدمی قرار دینے کے باوجود انہیں اپنی تقریب حلف برداری میں مدعو نہ کرنے اور اس میں آصف علی زرداری کی شرکت کی وجہ خاصی دلچسپ تھی۔ انجم نیاز نامی ایک پاکستانی کالم نگار کے مطابق خالص کاروباری ذہنیت کے حامل ڈونلڈ ٹرمپ نے تقریب سے قبل دئیے جانے والے ڈنر کی باقاعدہ ٹکٹیں فروخت کی تھیں اور ایسی ہر ٹکٹ کی قیمت ایک ملین ڈالر یعنی دس کروڑ ستر لاکھ روپے سکہ رائج الوقت پاکستان کے برابر تھی۔دولت مندی کے لحاظ سے تو شاید میاں برادران زرداری پر بھی بھاری ہوں مگر بات ہے اپنے اپنے مفاد کی۔
زداری صاحب نے یہ بھاری پتھر اس لئے چوم کر اٹھالیا کہ اسے پاکستانی عوام اور خصوصاً مقتدر قوتوں کو یہ پیغام دینا تھا کہ اسے ایزی نہ لیا جائے وہ اقتدار سے باہر ہوتے ہوئے بھی عالمی سطح پراپنا ایک مقام رکھتا ہے۔ آصف علی زرداری کے قریبی ذرائع اس ڈیل کی نفی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور زرداری صاحب اس وقت سے بہترین دوست ہیں۔ جب جنرل ضیاء الحق کے دور میں آصف علی زرداری خود ساختہ جلاوطنی کے دوران امریکہ میں ٹرمپ کی ملکیت ایک کثیر المنزلہ عمارت کے ایک فلیٹ میں قیام پذیر رہے تھے۔ بہرحال وجہ کچھ بھی ہو اس معاملے میں زرداری پھر سب پہ بھاری رہا ہے کہ اس کی شرکت سے امریکی صدر کی تقریب میں پاکستان کی نمائندگی تو ہوئی۔
ڈونلڈ ٹرپ نے ایک احسان پاکستان پر یہ بھی کیا ہے کہ اس نے ہمیں ان سات ممالک میں شامل نہیں کیا جن کے شہریوں پر امریکی ویزہ کے حصول پر پابندی لگادی گئی ہے اور یہ احسان اس پس منظر میں بہت بڑا دکھائی دیتا ہے کہ بھارت، افغانستان اور اسرائیل جیسے ممالک پاکستان کو ایک دہشت گرد ملک قرار دلوانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں۔ اور آخر میں ایک ہلکا پھلکا سا لطیفہ چند ڈاکٹر اپنے اپنے ملک میں ہونے والی میڈیکل سائنس کی ترقی کا ذکر کررہے تھے۔ اسرائیلی ڈاکٹر بولا کہ ہمارے ہاں ایک شخص کا جگر نکال کر دوسرے کے جسم میں فٹ کردیا جاتا ہے اور وہ شخص ہفتے دس میں صحت یاب ہوکر کام کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے۔ آسٹریلین کہنے لگا کہ جگر کیا ہم تو ایک شخص کا دل نکال کر دوسرے کے سینے میں لگادیتے ہیں اوروہ شخص چند روز میں ٹھیک ٹھاک ہوکر کام کاج کی تلاش شروع کردیتا ہے۔ جرمن ڈاکٹر نے کہا کہ آ پ جگر اور دل کی بات کرتے ہو ہم تو دماغ تک کی ٹرانسپلاٹیشن کردیتے ہیں اور جس شخص کے سر میں دوسرے کا دماغ فٹ کیا جاتا ہے وہ ہفتے دوہفتے میں بھلا چنگا ہوکر کام ڈھونڈنے کے لئے چل پڑتا ہے۔ آخر میں امریکی بولا’’آپ سب اس شعبے میں ابھی ہم سے بہت پیچھے ہو۔ ہم نے ایک ایسے شخص کو امریکہ کا صدر منتخب کرلیا ہے جس کے سینے میں دل ہے نہ کھوپڑی میں دماغ اور ساری قوم کا م کاج کی تلاش میں نکل کھڑی ہوئی ہے‘‘۔