امام شاہ ولی اللہ ؒ فرماتے ہیں کہ جس مقتول کا قاتل معلوم نہ ہو اس کا قاتل حاکم ہوتا ھے
اس بات کی ایک مثال سیدنا عمر فاروق ؓ کے قول سے بھی ملتی ھے وہ قول یہ ھے ”اگر فرات کے کنارے پر ایک کتا بھی پیاس سے مر گیا تو اسکا حساب مجھ سے ہو گا“
ہماری بدبختی ھے کہ ہم پر 7 دہائیوں سے ایسی نسلیں حکومت کر رہی ھیں کہ جنکا ماضی انگریز کی وفاداری سے بھرپور ھے یہ وہ لوگ ہیں جنھوں ہمیشہ مذہب و سیاست کی آڑ میں بیرونی قوتوں کے مفادات پورے کیے ہیں ہماری آج کی بیوروکریسی سول حکومت اور مذہبی قیادت جس سوچ اور نظریے پر تربیت پاتی ھے اس کا عکس ہمیں انکی عملی زندگی میں دیکھنے کو مل رہا ھے یہ لوگ قطعا اس قابل نہیں کہ ایک گھر تک کی حفاظت کر سکیں چہ جائیکہ انکو پورا ملک سونپ دیا جاۓ
سیاسی معاشی اور تعلیمی قتل تو روز اول سے ہی ہمارے نچلے طبقے کا مقدر رہا ھے رہی سہی کسر اس دہشتگردی نے پوری کر دی ۔ ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ہمارے وطن عزیز میں یہ دہشتگردی کس کی مرہون منت ھے اور کون کون سے مذہبی و سیاسی جتھے اس دہشتگردی کو پروان چڑھانے میں پیش پیش رہے ہیں اور آج بھی انکی باقیات اسی شان و شوکت سے عوام کی نمائندگی کرنے میں مگن ھے مگر ہم چونکہ ازل سے ذہنی غلام ہیں اسی لیے ہم نے کبھی ان درندوں کی تحقیق کرنا ضروی نہیں سمجھا
دہشتگردی کا نشانہ بننے والی عوام کی ذمہ داری آج تک کسی آمر،جمہوری رہنما یا بوٹ پالشیے نے قبول کرنے کی زحمت نہیں کی