اعتدال قانونِ فطرت ہے. یہ فرد سے لےکر سماج کو، سماج سے لیکر اقوام کو، اقوام سے لےکر عالم کواور عالم سے لےکر کل کائینات کو ٹهیک ٹهیک اپنے فطری توازن پر رکهتا ہے. یہی توازن اس عالم کا حسن ہے، اور ربّ العالمین کی منشاء بهی
قدرت کا یہ قانونِ اعتدال و توازن کثیرالجہتی معاشروں کو بهی اپنی صالح فطرت پر وقوع پزیر رہنے کی صلاحیت سے نوازتاہے. جہاں جہاں معا شرے اس نقطئہ اعتدال سے ہٹتے ہیں، بگاڑ اور انارکی کا شکار ہو جاتے ہیں. اقوام اور معاشروں کا زوال دراصل انکی بحیثیتِ مجموعی فطری قوانین سے روگردانی کی الہامی سزا ہوتی ہے. اس لئیے جب جب اقوام نے اعتدال اور توازن کا راستہ ترک کیا، زوال و پستی انکا مقدرٹهہری. کثیرالجہتی معاشروں کا حسن اسکے تمدنی، نظریاتی، مذہبی اور لسانی تنوعات پر منحصر ہوتاہے. خرابی اس وقت جنم لیتی ہے جب اس تنوع کو اختلاف و نزاع کا موجب ٹهہرا کر لوگ آپس میں دست و گریبان ہو جائیں. یہی نزاع معاشرتی عدم توازن کا نقطئہ آغاز ہوتا ہے، جو بتدریج زوال پر جا رکتا ہے
تقسیمِ ہند یعنی قیامِ پاکستان کے بعد جو المیہ پیش آیا وہ یہ کہ ملک نظریاتی اختلافات کا اکهاڑہ بن گیا. وہ ملک جس کا حصول ہی نظریاتی بنیاد پر ایک متحدہ محاذ کے دعوے سے ہوا تها، بتدریج اور فی الواقع ازخود نظریاتی تنازعات کے بهینٹ چڑهہ گیا. ہونا تو یہ چاہئیے تها کہ ایک قوم کی حیثیت سے ہم مختلف اور کثیر الجہت نظریات کے متوالے مشترکہ اور متفقہ نظریات کی بنیاد پر جمع ہو کر مملکت خدا داد کے امین اور محافظ بنتے، اسکے برعکس ہم نے اپنی اپنی نظریاتی چوکیاں سنبهالی اور آپس میں گهتم گهتا ہو گئیے. ہم نے نظریاتی تنوع کو قدرت کا قانون سمجهہ کر قبول نہیں کیا، بلکہ اسکو اپنے اپنے مخصوص گروہی انانیت کا مسئلہ بنا دیا. نتیجتاََ آج ہم سب نظریاتی سرحدوں کی انتہاء پر کهڑے ہیں، اور اختلافات و نزاع ہمارا اوڑهنا بچهونا بن چکا ہے
یہ نظریاتی تنازعات ہمارے سماج کے رگ و ریشے میں ایسے سرایت کر چکی ہیں، کہ اس کو فکر و عمل سے نکال ناہایت درجے کی حکمت کا متقاضی ہے. ہماری مذہبی افکار بالکل متضاد انتہاءوں پر کهڑی ہیں. مذہبیت اور لادینیت آپس میں سرگریباں ہیں. سوشلزم اور سیکولرزم کے الگ فکری محاذ ہیں. یعنی مجموعی طور پر ہم نظریاتی بنیادوں پر ایک متفرق قوم بن چکے ہیں اور اس تفریق کو آئے دن وسیع تر کیا جارہاہے. مشترکہ نظریاتی نقطوں پر مل بیٹهہ کر مسائل کے حل کے لئیے کوئی آمادہ نہیں.
ملک کے اندر موجود یہ نظریاتی کهچاءو دور رس نتائیج پیدا کر رہاہے. مقتدر طبقہ ان نظریاتی اختلافات کو سیاسی مقاصد کے لئیے بطور آلہ کار بهی استعمال کرتا ہے. جہاں چنگاریاں پہلے سے موجود ہوں وہاں اس کو دہکتی آگ میں بدلنا بعید از قیاس نہیں. یہ نظریاتی خلیج اس انتہاء کو پہنچ گئی ہے کہ معقول انداز سے ایک دوسرے کی بات سننا، ایک دوسرے کی تنقید گوارا کرنا معدوم ہوچکا ہے. ہم اپنی آنی والی نسلوں کو ایک ترقی یافتہ سماج دینے کے مقروض ہیں، مگر بے حسی دیکهئیے، ورثے میں ایک خون آشام نظریاتی محاذ چهوڑے جا رہے ہیں
یہ دور اور ہمارے موجودہ دگرگوں حالات اب مزید اس قسم کی صورتحال کے متحمل نہیں. اب سر جوڑ کر وسعتِ نظر و قلب کے ساتهہ ان نظریاتی تنازعات کو مشترکہ نظریات میں محلول کرنے کی اشد ضرورت ہے. بطورِ پاکستانی ایک دوسرے کو اپنے اپنے نظریاتی اساس کے ساتهہ قبول کرنا اور مشترکہ مفادات پر قوم کو متحد کرنا اس عہد کا اولین تقا ضا ہے. کو ئی ایسا لائحہ عمل ایسا چارٹر درکار ہے، جو قومی سطح پر تمام نظریاتی یا گروہی اختلافات کو قیود و حدود کا پابند کردے . اپنی تحاریر اور تقاریر کو متحدہ نقاط کا پابند کر کے اختلافی امور کو موقوف کر دیا جائے. اس کے علاوہ جدید نیشنل سٹیٹ کی ترقی کا خواب محظ ایک خواب ہی ہو سکتا ہے. عین فطری ہے، کہ بیک وقت ہم اپنے اپنے مخصوص نظریاتی اساس کے ساتهہ بهی جڑے رہیں، اور ملکی مفادات اور انسانیت کی بنیاد پرمکمل سماج کی سیاسی، معاشی اور تہذیبی ترقی کے سپاہی بهی رہیں. یہ تمام متفرق نظریات حکمت و دانائی کے ساتهہ ایک ”متحدہ لائحہ عمل” میں ڈهل سکتے ہیں، بشرطیکہ ہم اپنے نظریاتی تعصبات سے نکلنے پر آ مادہ ہو جائیں.