قومى مسائل كو رفع كركے معاشرے كو صالح بنانا ، باصلاحىت قىادت كا كام ہے ۔ قىادت وہ ہوتى ہے جو منزل سے واقف ہو۔ عمل كا جذبہ ركھے ،بھٹكى ہوئى انسانىت كو راستہ دكھاے،اور انسان كو اپنى فطرى تقاضوں كے مطابق زندگى گزارنے كا ماحول مہىا كرے۔ اعلى قىادت انسانى دلوں اور روحوں كواخلاقىات كى دولت سے سرفرازكردىتى ہے۔ قوم اور انسانىت كےلىے امن و آ شتى ، ترقى و خوشحالى ، عزم و ہمت اور صبر و استقامت كا نمونہ بن جاىا كرتى ہے۔گوىا ىہ كہنا غلط نہ ہوگا كہ جو قوم صالح قىادت سے محروم ہو جائىں وہ زوال كے اندھىروں مىں بھٹكنا شروع كر دىتى ہىں۔ لىكن سوال ىہ ہے كىا ہر انسان قىادت كا اہل ہوسكتا ہے؟ وہ كونسى خصوصىات ہىں جو قائدىن كو عام انسانوں سے ممتاز كرتى ہىں۔ ائىں زىل مىں اسكا تجزىہ كرتے ہىں۔
۱۔قائد حكىم ہوتا ہے۔۔!!
حكمت ىہ ہے كہ انسان علم وعقل كے ذرىعے سحىح بات كو پہنچىں۔حق و باطل كے درمىان درست فىصلہ سازى كرے۔
سماج مىں پائى جانے والى براىئوں كى نشاندہى ، انكى وجوہات كى تشخىص ، اور درست ندبىر اختىار كرے۔ حكمت كا تقاضہ ىہ ہے كہ كبھى خاموشى كے ساتھ كچھ باتىں نظر انداز كرے، اور کبھی خاموشی اختیار کرنے کےبجاے اپنے خیالات کا اظہار کرے-ہمیشہ درست وقت كا انتظار كرے، فىصلہ كرنے مىں عجلت سے كام نہ لىں۔ ہر مسلے كى گہرائى کا اندازہ لگائیے، کسی بھی مسئلہ کو سطحی نظر سے دیکھنے کے بجائے ، اصل وجوہات تک پہنچنے کی کوشش کرے-
۲۔ ارادہ كى پختگى:
ماہرىن نفسىات كے مطابق انسانى ذہن كے اندر سوچ پىدا ہوتى ہے۔ سوچ جب ارادہ كامرتبہ حاصل كرلے تو عمل وقوع پذىر ہوتا ہے اور ہر عمل كا نتىجہ ہوتا ہے۔ دراصل پختہ ارادہ ہى انسان كو عمل پر اكساتى ہے۔وگرنہ كمزور ارادے تو اكثر ٹوٹ جاىا كرتے ہىں ۔ ىہ ارادوں كى پختگى ہى ہىں كہ انسان غاروں سے نكل كر آسماں مىں پرندوں كى مانند اڑنے لگا، سمندر كى اتھاہ گہرائىوں مىں مچھلى كى طرح تىرنے لگا۔ اور سب سے بڑى بات انسان اللہ تعالى كى خلافت و نىابت كا حقدار ٹھہرا۔
اللہ تعالى سورة احزاب مىں فرماتے ہىں ∙∙ہم نے آسمانوں ، زمىن، اور پہاڑوں كے سامنے امانت پىش كى۔ان سب نے انكے اًٍٍٹھانے سے انكار كردىا۔ لىكن انسان نے اس كو برداشت كىا۔( سورة احزاب:۷۲ )
۳۔ عمل كا جذبہ:
محض خىالات و نظرىات سماج مىں تبدىلى و ترقى كا ضامن نہىں بن سكتى جب تك اس پر عمل نہ كىا جاے۔قائدىن افكا ر و نظرىات پىش كرنے كے ساتھ ساتھ سر تا عمل بن كر مىدان مىں كود پڑتے ہىں۔
۴۔ ثابت قدمى:
نىوٹن كے قانون حركت كے مطابق ‘‘ ہر عمل كا رد عمل ہوتاہے’’ قائدىن جب كسى خاص نظرئے كو سوسائٹى مىں پھىلانے كے لئے عمل پىرا ہوتےہىں،تو ابتدا مىں زبردست مزاحمت كا سامنا كرنا پڑتا ہے۔ حضورِ انورؐ كى سىرت طىبہ اسكى سب سے بڑى مثال ہے۔صادق اور آمىن كہلائے جانے كے باوجود مكہ كى اكثرىتى آبادى نے ابتدائى دنوں مىں نبى كرىمؐ كى بات ماننے سے انكار كر دىااور ردعمل كے طور پر ذہنى و جسمانى تشدد كرنے سے گرىز نہ كىا۔ لىكن مزاحمت كے باوجود حضور انورﷺ ؐ اور جماعت صحابہ رض ثابت قدم رہىں۔نبى كرىمﷺ ؐ كى حدىث مباركہ ہے ‘‘اس ذات كى قسم! جس كے قبضے مىں مىرى جان ہے كہ اللہ كى راہ مىں قتل كىا جا ؤں ، پھر زندہ ہو، پھر قتل كىاجاؤں پھر زندہ ہوں اور قتل كىا جاؤں۔’’
گوىا قائدىن اپنے افكار كو عملى جامہ پہنانے كے لىے جان،مال سب كچھ قربان كرنے كے لئے تىار رہتے ہىں۔
۵۔ موثر اندازِتحرىر و تقرىر:
قاىدىن انسانى دل و دماغ اور روح كى تربىت كرتے ہىں۔ نہاىت موثر انداز مىں اپنے افكار و خىالات مخاطب كے سامنے ركھتے ہىں ، انكى عقل كو غور و فكر كى وعوت دىتے ہىں ۔ حكمت و شعور كے ساتھ ان كو اپنا ہمنوا بناكر ان كى صلاحىتوں كو بحقِ انسانىت استعمال كرتے ہىں۔ قائدىن كى گفتگو شہد جىسى مىٹھى اور ان كى تحرىر و تقرىر مىں علمىت كا پہلو غالب رہتا ہے۔
قائدىن كو اللہ تعالى نے بىش بہا صلاحىتوں سے نوازا ہوتا ہے۔ حضرت على رض فرماتے ہىں كہ ‘‘ دولت، حكومت اور مصىبت مىں انسان كى عقل كا امتحان ہوتا ہے۔’’ اىك قائد ہر صورتحال كا سامنا خندہ پىشانى سے كرتا ہے، حكومت، دولت و مصىبت مىں قومى مفاد كو ذاتى و خاندانى مفاد پر بالاتر ركتھا ہے۔ اگر كسى قوم كو اعلى و باصلاحىت قىادت مىسر آجائىں تو اس قوم كا تارىك مستقبل روشن ہو جا تا ہے، مسائل كى جگہ خوشحالى لے لىتى ہے اور بدآمنى كا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ غرض صالح قىادت كے بغىر قومى ترقى كا تصور ممكن نہىں۔