• کوئی سوال ہے؟
  • 923009426395+
  • darulshaour.magazine@gmail.com
نواز شریف اور سول ملٹری تعلقات — تحریر: فرخ سہیل گوئندینواز شریف اور سول ملٹری تعلقات — تحریر: فرخ سہیل گوئندینواز شریف اور سول ملٹری تعلقات — تحریر: فرخ سہیل گوئندینواز شریف اور سول ملٹری تعلقات — تحریر: فرخ سہیل گوئندی
  • صفحہ اول
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • قرآنیات
  • تاریخ و فلسفہ
  • تعلیم | تربیت
  • انتخاب
  • شخصیات | انٹرویوز
  • کالم
  • کتابوں پر تبصرے
  • یوٹیوب چینلز
    • “Hakayat O Rawayat”
      حکایات و روایات
    • “Darulshaour Audio Books”
      دارلشعور آڈیو بکس
    • آڈیوز/ وڈیوز
  • آن لائن کتابیں
✕

نواز شریف اور سول ملٹری تعلقات — تحریر: فرخ سہیل گوئندی

  • صفحہ اول
  • بلاگ
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • نواز شریف اور سول ملٹری تعلقات — تحریر: فرخ سہیل گوئندی
کیا ہم واقی مرچکے ہیں۔۔! — تحریر: مفتی اختر اورکزئی
مارچ 23, 2017
اپنی تلاش — تحریر: ادریس هادی خان
مارچ 23, 2017
Show all

نواز شریف اور سول ملٹری تعلقات — تحریر: فرخ سہیل گوئندی

پاکستان میں سول ملٹری تعلقات کا موضوع دہائیوں سے اپنی جگہ موجود رہا ہے۔ موجودہ نواز حکومت سے لے کر 1985ء میں جونیجو حکومت بننے تک یہ موضوع سیاسی، صحافتی اور عوامی حلقوں میں کھل کر بحث کیا جانے لگا ہے۔ اس سے پہلے یہ معاملہ موجود تو تھا لیکن ایسے اہم موضوع پر کھلی بحث کم کم ہی دیکھنے کو ملتی تھی۔ اس کی دو وجوہات تھیں، ایک صحافت اور سیاست میں اس قدر کھلا پن ابھی اپنے جنم کے آغاز میں تھا، دوسری وجہ یہ کہ سیاسی وصحافتی حلقوں کے تجربات بھی محدود تھے۔ جبکہ پاکستان میں ایک بڑا سیاسی وصحافتی حلقہ عسکری قیادت سے سیاسی معاملات کے خواب تلاش کرتا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹوکی پہلی سیاسی منتخب حکومت کے دوران یہ رویہ عروج پرتھا۔ ذوالفقار علی بھٹوکی حکومت کے خاتمے کے بعد اس کے سیاسی وصحافتی حلقے نے کھل کر عسکری قیادت کو سپورٹ کیا کہ ان کو یقین تھا کہ جنرل ضیا ایک نجات دہندہ ہے۔ اُن کو اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ اس نے ایک منتخب حکومت کو توڑا، آئین معطل کیا، سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دیا، سیاسی سرگرمیاں ممنوع قرار دے دیں اور ایک منتخب وزیراعظم کو سولی پر چڑھا دیا۔ اس طبقے نے جنرل ضیا میں وہ نجات دہندہ تلاش کیا جس کے لیے وہ عرصے سے سرگرداں تھے۔ ایک مردِمومن اور مردِ حق کی تلاش۔ جب جنرل ضیاالحق نے اپنی سرپرستی میں محدود سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دی اور جمہوریت بحال کرنا شروع ہوئی تو پاکستان کی سیاست ایک نئے تجربے سے آشنا ہونا شروع ہوئی۔ جنرل ضیاالحق نے محمد خان جونیجو کی قیادت میں محدود جمہوریت بحال کی جن کی حکومت اپنی مدت پوری ہونے سے پہلے ہی اس کے بنانے والے جنرل ضیا نے ڈھا دی۔ وزیراعظم جونیجو کی حکومت اور سیاسی ڈھانچے کو ڈھانے کے بعد اس طبقے نے یہ سبق سیکھنا شروع کردیا جو عسکری قیادت سے ہمالہ سے بلند سیاسی معاملات کی توقع لگائے بیٹھے تھا۔ اس کے بعد بے نظیر نوازشریف تصادم میں سیاست ایک ایسے دائرے میں داخل ہوئی جہاں ہم پہلے موجود عسکری اور سیاسی لیڈر شپ کے تنائو کو ایک نئے انداز میں دیکھنے لگے۔ براہِ راست فوجی مداخلت کی بجائے دو سیاسی دھڑوں میں سے ایک سیاسی دھڑے کو ملٹری لیڈرشپ کی سپورٹ ملی، جسے آئی جے آئی کی شکل میں دیکھاگیا۔ لیکن تاریخ کی جدلیات ازخود جنم لیتی ہیں۔ یہ سیاسی محاذآرائی آہستہ آہستہ اس Proxy Support سے نکلنا شروع ہوئی جس میں نواز حکومت کی پہلی بے دخلی اور پھر نواز حکومت کی دوسری بے دخلی جو فوجی قیادت میں برپا ہوئی۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف نے اکتوبر 1999ء میں نواز حکومت کو برطرف کیا، ان پر مقدمات بنے اور انہیں جیلوں میں ڈالا گیا اور پھر انہیں جلاوطن کردیا گیا۔ اس سیاسی وصحافتی حلقے کے لیے یہ ایک بہت بڑا سبق تھا جو کبھی عسکری قیادت میں ’’اسلامی انقلاب‘‘ ، ’’بنیادی جمہوریت‘‘ اور نظریہ پاکستان کی تکمیل کا خواب دیکھتے تھا۔ اس دوران جہاں نوازشریف اور ان کے گرد سیاسی لوگوں نے سبق سیکھا، وہیں محترمہ بے نظیر بھٹو بھی اس نتیجے پر پہنچیں کہ سیاسی قوتوں کی باہمی کشمکش کا فائدہ سراسر فوجی قیادت کو ہوتا ہے۔ اسی لیے دونوں جماعتوں نے چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کیے۔ گو اس سارے عرصے میں سیاسی وعسکری تعلقات میں بڑی کشمکش تو نظر آئی لیکن ایک بات طے ہے کہ تمام سیاسی قیادت نے اپنے تجربات سے سیاسی کھیل کے وہ گُر سیکھ لیے جو اُن کو پہلے نہیں آتے تھے۔
نواز حکومت جب 2013ء میں برسراقتدار آئی تو سول ملٹری تعلقات، پاکستان کی سیاست اور صحافت کا ایک اہم موضوع تھا۔ اس حکومت کے آغاز کے ساتھ ہی ہم نے دیکھا کہ سیاسی حکومت کے لیے حکمرانی میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کا آغاز ہوا۔ بڑے بڑے تجزیہ نگار اپنی کم علمی یا ذاتی مفادات کے لیے یہ کہتے تھکتے نہیں تھے کہ ابھی نواز حکومت گئی، بس چند ہفتوں کی بات ہے۔ آج نواز حکموت کو چار سال ہوگئے۔ تمام تر بلواسطہ کوششوں کے باوجود نواز حکومت قائم ہے۔ میرا موضوع یہ نہیں کہ نواز حکومت نے ملک وقوم کے لیے کتنے اچھے کام کیے اور کہاں کہاں نااہلی دکھائی، میرا موضوع صرف اس حکموت کو ملنے والے انتخابی مینڈیٹ کے ذریعے حکمرانی کا حق اور وزیراعظم نوازشریف کی سیاست کے اس پہلو کا تجزیہ کرنا ہے کہ کیا وہ سول ملٹری تعلقات کے اس تنازع کی Dynamics کو سمجھ پائے ہیں کہ نہیں اور اگر سمجھ پائے ہیں تو اپنی حکومت کو قائم ودائم رکھنے میں کامیاب رہے ہیں ۔
چند روز قبل پاکستان کے معروف سیاست دان جناب ایس ایم ظفر نے چند دوستوں کو کھانے پر بلایا، جہاں مختلف سیاسی موضوعات زیربحث رہے۔ وہاں میں نے یہ عرض کیا کہ نوازشریف نے بڑی کامیابی سے اُن سیاسی چالوں کو ناکام بنایا ہے جو اُن کی منتخب حکومت کے آغاز کے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھیں جن کو سول ملٹری لیڈر شپ کے تعلقات کے حوالے سے دیکھا جاتا ہے اور یوں نوزشریف نے نہایت تدبر سے اُن کوششوں کو ناکام بنایا ہے جو 2013ء کے انتخابات کے فوراً بعد اُن کی حکومت کو گرانے کے لیے شروع ہوگئیں۔ اور یوں میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ نوازشریف، پاکستان کی حکمرانی کی سیاست کی Dynamics اور State Craft کو بہت جان گئے ہیں۔ اب ایک سال انتخابی مہم کا ہے۔ اس دوران جو بھی ہوگا اس کا مثبت اثر اُن کی سیاست پر ہوگا۔ وہ اس ایک سال میں حکومت سے بے دخل کر دئیے جائیں یا رہیں۔ نوازشریف نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ سیاست صرف سیاسی جماعتوں کا کھیل ہے۔ یہ وہ سبق ہے جو انہوں نے پچھلی تین دہائیوں سے زیادہ عرصے میں سیکھا ہے۔ میرا آج کا یہ موضوع اہم نہیں کہ اُن کی حکومت نے عوامی فلاح وبہبود، ترقی، خوش حالی، معیشت کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں ، میرا موضوع حکمرانی کا حق اور نوازشریف کا سول ملٹری تعلقات سے Survive کرجانا ہے جس میں وہ کامیاب رہے ہیں۔ اُن کی حکومت پر تنقید، تجزیہ بالکل مختلف موضوع ہے۔ لیکن یہ طے ہے کہ سول ملٹری تعلقات کی تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ سیاست میں فوجی مداخلت ملک وقوم کے لیے کبھی بھی سود مند ثابت نہیں ہوئی۔ اس سارے تجزیے کے بعد اب ہم اگلے ایک سال میں اس نوازشریف کے مزید دائوپیچ دیکھنے کے لیے بے چین ہیں جس نے حکمرانی کی سیاست اور سول ملٹری تعلقات کی Dynamics کے کافی راز پا لیے ہیں۔

مناظر: 321
شئیر کریں
vicky
vicky

Related posts

جون 13, 2022

عمران خان کا یہ قصور کم نہیں تھا!


مزید پڑھیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

✕

اقسام

  • قرآنیات
  • سیرت النبی
  • امروزیہ | آج کی تحریر
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاست | معیشت
  • شخصیات | انٹرویوز
  • تعلیم | تربیت
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خواتین کارنر | صحت
  • اردو ادب | لٹریچر
  • انتخاب | نادرتحریریں
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کتابوں پر تبصرے
  • Uncategorized

تازہ ترین پوسٹس

  • 0
    پیغام ابراہیم
    جولائی 12, 2022
  • 0
    عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
    جولائی 11, 2022
  • 0
    مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
    جولائی 8, 2022

حالیہ تبصرے

  • جون 7, 2022

    M Abbas Shad commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

  • جون 5, 2022

    امیر حمزہ وٹو commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

Array

اہم ضوابط

اکاؤنٹ

پالیسی و ترجیحات

اغراض و مقاصد

نئے لکھنے والوں کے لئے

تازہ تحاریر

  • پیغام ابراہیم
  • عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
  • مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
  • تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
  • سرسید اور حقوق نسواں

رابطہ

موبائل نمبر : 03009426395

فون نمبر : 04237239138

ای میل : da******************@***il.com

پتہ: دارالشعور 37.مزنگ روڈ لاہور

تعارف

"دارالشعورمیگزین" دارالشعور پبلیکیشنز کا ایک ذیلی پلیٹ فارم ہے۔ جو دارالشعورپبلیشرز اور مطبوعات مکی دارالکتب کے ترجمان سہ ماہی مجلے "الصدق" لاہورکی ترقی یافتہ شکل اور ماہنامہ رسالہ "دارالشعور،لاہور"کا ایک متبادل میگزین ہے۔ جو اب ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سوفٹ کاپی کی شکل میں آن لائن شائع ہوتا ہے۔اور اس میں کتابوں پر تبصروں اور تعارف کے علاؤہ مختلف سماجی ،سیاسی اور علمی موضوعات پر آپ کی خدمت میں معیاری مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ جو دارالشعورکے ہم خیال منصفین کی قلمی کاوشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز کو توانا بنانے کے لیے دارالشعور میگزین میں اپنے مضامین،تجزیے اور تبصرے بھیج کر ہماری ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ دارالشعور پبلیکیشنزکی آفیشل ویسائٹ کو نیچے دیئے گئے لنک کو کلک کرکے ویزٹ کرسکتے ہیں۔ www.darulshaour.com

دارالشعور میگزین © 2022
اکاؤنٹ