ملک میں ایک مختصر طبقہ ہےجو مولوی کو نہیں مانتا لیکن جب ابتلا اورآزمائش آتی ہے تو وہ بھاگتا مولوی کی طرف ہی ہے ایسے ہی ہمارے بعض سیاست دان بھی ہیں جو فوج فوبیا کا شکار ہیں فوج کا نظم و نسق ،اتحاد اور پیشہ ورانہ کردار اور ملک و قوم کے لئے ان کی قربانیاں انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتی اور انہیں ایسا لگتا ہے کہ اس سے ان کا سیاسی قد کاٹھ کم ہوجاتا ہے لیکن جب ان پر بھی آزمائش آتی ہے تو وہ بھی فوج کی ہی مانتے ہیں دہشت گردی کا عفریت قابو میں نہیں آیا توپھر ان کی جبین خاص پنڈی والوں کی طرف ہی ہوئی ، فوج کے سول امور انجام دینے پرپہلے کہتے تھے کہ یہ زہر کا گھونٹ ہے لیکن پھران کے لئے یہی گھونٹ تریاق اکبر بن گیا ۔
7 جنوری 2017 کے بعد فوجی عدالتیں ایک با رپھر میڈیا پر زیر بحث آنے لگیں تو ہر کوئی بستر پر جانے سے پہلے اپنی بساط کے مطابق سنگ باری کرنے میں لگ گیااس کے باوجود ہمارے قومی سیاست دانوں کو اس بات کا مکمل احساس ہے کہ دہشت گردوں کو سزائے موت دلانے کے لئے ایسی ہی عدالتیں ہونی چاہیں جہاں فوری انصاف ہو اور انتظار کی سولی پر نہ لٹکایاجاتا ہو اس لئے نہ چاہتے ہوئے بھی سیاست دانوں نے میل، ملاقات اور مذاکرات میں یہ طے کر لیا کہ فوجی عدالتیں ہی وقت کی ضرورت ہے اور کیوں نہ ہودو سال کے عرصے میں صرف گیارہ فوجی عدالتیں قائم کی گئیں جن میں274 مقدمات پیش کئے گئے161 مجرموں کو سزائے موت دی گئی 113 کو قید کی سزا سنائی گئی جبکہ کئی ایک کو پھانسی ہوچکی ہےاس سے تیزاور فوری انصاف اور کیا ہو سکتا ہے؟
قومی اسمبلی نے تو 1952 کے آرمی ایکٹ کا ترمیمی بل 2017 دو تہائی اکثریت سے منظور کر لیا 253 ارکان نے حمایت اور 4 نے مخالفت کی جبکہ اٹھائیس ویں ترمیم کا بل بھی 4 کے مقابلے میں 255 ووٹوں سے منظور کر لیاجس کے تحت فوجی عدالتوں کو مزید 2 سال تک کام کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے ،یہی نہیں بلکہ نیشنل ایکشن پلان اور ملٹری کورٹس کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی بھی تشکیل دے دی ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ حکمران مسلم لیگ ن کی اتحادی جمعیت علمائے اسلام ف نے رائے شماری میں حصہ ہی نہیں لیا دوسرے لفظوں میں اسے ویٹو کر دیا جبکہ ایک اور دوست نواز جماعت پشتو نخوا ملی عوامی پارٹی کے 3 ارکان نے جو ترامیم پیش کیں وہ بھی خاطر میں نہیں لائی گئیں اور مسترد کردی گئیں جس پر ان ارکان نے مخالفت میں ووٹ ڈالا ایسے میں جنوبی پنجاب کے جمشید دستی کاطوطی نگار خانے میںکیسے بول سکتا تھا؟
اگلے روز یعنی 22مارچ کو دونوں بل سینیٹ میں پیش کئے گئےجہاں 27 نشستوں کے ساتھ پیپلز پارٹی کی اکثریت ہے آرمی ترمیمی بل تو یہاں سے بھی منظور ہو گیا تاہم اٹھائیس ویں ترمیم سے متعلق بل اس لئے منظور نہیں ہو سکا کہ اس اہم بل کی منظوری کے لئے مطلوبہ ارکان ہی نہیں تھے یوں معاملہ ایک ہفتے کی کٹھائی میں پڑ گیا اور ہو سکتا ہے کہ جس وقت آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوں گے اس وقت یہ بل منظور ہو چکا ہو دوسرے لفظوں میں 1973 کے دستور میں اٹھائیس ویں ترمیم قریب المنظورہے۔یہاں پر یہ بتانا ضروری ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کی اس حکومت میں 8 آئینی ترامیم کے بل پارلیمنٹ میں پیش کئے گئے۔ موجودہ حکومت کی سب سے پہلی 21ویں آئینی ترمیم تھی۔ جس کے تحت ملک میں 2 برس کے لئے فوجی عدالتیں قائم کی گئیں 22 ویں آئینی ترمیم کے تحت چیف الیکشن کمشنر اور ارکان کی تقرری کے طریقہ کار میں تبدیلی کی گئی 23 ویں آئینی ترمیم سے 27 ویں ترمیم کے بل ابھی تک منظور نہیں ہوسکے آئین میں 23 ویں ترمیم قومی اور صوبائی اسمبلی میں اقلیتوں کی نشستیں بڑھانے سے متعلق ہے ۔ 24 ویں ترمیم سپریم کورٹ کے فیصلوں کو چیلنج کرنے سے متعلق اور25 ویں ترمیم ججز کی بیواؤں کی پنشن میں اضافے سے متعلق ہے۔ 26 ویں ترمیم وفاقی حکومت کے اختیارات افسران یا ماتحت حکام کو سونپنے سے متعلق ہے۔ 27 ویں آئینی ترمیم انتخابی اصلاحات اور انتخابی قوانین میں تبدیلی سے متعلق ہے جبکہ زیر بحث 28 ویں آئینی ترمیم فوجی عدالتوں کی مدت میں دو سال توسیع کے لئے ہے سینٹ سے منظوری اور صدر کے دستخط کے بعد 28 ویں ترمیم 23 ویں ترمیم کہلائے گی۔پارلیمنٹ کے موجودہ سیشن میں قومی اسمبلی میں جو کارروائی ہوئیاس میں وزیر اعظم سات مہینے بعد تشریف لائے جبکہ ایوان بالا میں بھی یہی صورتحال ہے ،وزیراعظم نوازشریف کی پارلیمنٹ میں 7 مہینے بعد تشریف آوری حکمران لیگ کی ان بلوں سے متعلق سنجیدگی واضح ہوتی ہے ۔
فوجی عدالتوں سے متعلق ہماری سیاست کے ان فوجیوں کے روئیے بھی بڑے دلچسپ ہیں آپ کو یاد ہو گا کہ جب 2015 میں فوجی عدالتوں کے قیام کی منظوری دی جاررہی تھی تو رضا ربانی کس طرح آبدیدہ ہو گئے تھے جبکہ اس دفعہ بھی پییپلز پارٹی والے کم نہیں روئے ۔سینیٹر فرحت اللہ بابر نے سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے 22 مارچ کو سیڈ ڈے (افسوس ناک دن ) قراردیا۔ ان کا فرمانا تھا کہ پارلیمنٹ نے فوج کو سول معاملات میں مداخلت کا موقع فراہم کیا ہے دوسری بار فوجی عدالتوں کے حق میں ووٹ دینے سے ناصرف پارلیمنٹ کا وقار کم ہوا بلکہ یہ جمہوری ادارے کی شرمندگی کا بھی باعث بنا ۔ اے این پی کے سینیٹر غلام احمد بلورمیں پشتون غصے نے جوش مارا اور کہا کہ دوبارہ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی نوبت آئی تو وہ دن دیکھنے سے بہتر ہے کہ انہیں موت آ جائے ۔ ویسے یہ ایسا غصہ نہیں جسے سنجیدہ لیا جائے ہمارے راج دلارے سیاست دان قیام پاکستان سے اب تک ان معاملات پر ایسے ہی ضدی بچے بن جاتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ وہ اگر ایسی بگڑی بگڑی باتیں نہیں کریں گے تو ان کی سیاست بگاڑ دی جائے گی۔ تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی کے نزدیک فوجی عدالتیں تنہا دہشتگردی کا سامنے کرنے میں مددگار نہیں ہوں گی گویا وہ ان خصوصی عدالتوں سے ہٹ کر بھی حکومت سے کچھ کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔دوسری جانب سابق وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی صاحبزادی ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے تسلیم کیا کہ فوجی عدالتوں کا دائرہ کار فورسز کے اندر ہوتا تھا لیکن ہم اسے سول امور میں لا رہے ہیں ۔پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری جمہوریت کی حکمرانی اور جمہوری اداروں کی بالا دستی کی بات تو خوب کرتے ہیں لیکن جناب بعد میں خود نظریہ ضرورت کی تصویر بن جاتے ہیں اور چونکہ وہ خود بھی ماشاء اللہ مفاہمت کے جادوگر ہیں اس لئے ان کی جادوئی سیاست میں انہونی ہی ہونی ہوتی ہے۔
ن لیگ کی بات کریں تو وزیر خزانہ اسحاق ڈارکا ایوان بالا میں بیان حکمران جماعت کی سوچ کی مکمل آئینہ دار ہے۔ موصوف فرماتے ہیں کہ کوئی ذی شعور فوجی عدالتوں کی ضرورت سے انکار نہیں کرسکتا فوجی عدالتوں میں توسیع نظریہ ضرورت کے تحت نہیں کر رہے بلکہ یہ قومی ضرورت ہے ۔پیپلز پارٹی کی طرح اس جماعت کے قائد بھی جمہوریت کی سر بلندی چاہتے ہیں لیکن جب اداروں کو بننے ہی نہیں دیا جاتا اور وہاں میرٹ کا خیال نہیں رکھاجاتا تو پھر ادارے ٹوٹتے ہیں عوام چیختے ہیں اور سیاست دان ٹوٹتے اداروں کو بچانے کے لئے فوج کی طرف دیکھتے ہیں جس کی واضح مثال واپڈا کی ہے ۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ سول معاملات میں فوج کو لانے کا سہرا وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کے سر ہے۔ مردم شماری ہو یا گھوسٹ اسکولز کا معاملہ ، زلزلے، سیلاب اور دیگر آفات میں ن لیگ نے ہمیشہ فوج کو ہی آگے کیا۔اب بھلے وزیراعظم نوازشریف لاکھ کہتے پھریں کہ پرویز مشرف 2007 میں انڈر ہینڈز ڈیل کرنا چاہتے تھے لیکن میں نے انکار کردیا ۔لیکن جناب قوم کا حافظہ اتنا کمزور بھی نہیں ہےکہ وہ سیاست دانوں کی ڈیلز کو بھلا سکیں ۔آئی جے آئی کی ڈیل میں کون کون حصہ دار تھا قوم کو سب پتہ ہے، کون ڈیل کرکے سعودی عرب گیا قوم کو سب پتہ ہے،این آر او سے کس کس نے فائدہ اٹھایا قوم کو سب پتہ ہےزرداری کو کس نے ڈیل کروا کر چھوڑا قوم کو سب پتہ ہے،غداری کے مقدے میں نامزد مشرف کو کس نے ڈیل کے ذریعے باہر بھیجا قوم کو سب پتہ ہے،ڈالر گرل ایان علی کی پنجرے سے رہائی کس ڈیل پر ہوئی قوم کو سب پتہ ہے،ڈاکٹر عاصم کو کس کی ڈیل پر ابھی تک سزا نہیں دی جا رہی قوم کو سب پتہ ہے،اربوں کی کرپشن میں ملوث شرجیل میمن کو کس کی ڈیل پر چھوڑا گیا قوم کو سب پتہ ہے،عزیر بلوچ کے معاملے پر کس کے کہنے پر معاملہ ٹھنڈا کیا گیا قوم کو سب پتہ ہے،حامد سعید کاظمی کےلئے جیل کے دروازے کس طرح کھلےقوم کو اس کا بھی پتہ ہے۔ تو جناب جانے دیں اور ڈیل نہ کرنے کا ڈھنڈورا نہ پیٹیں ۔ بس ایک کام کریں اوروہ یہ کہ سیاست کے محاذ پر لڑنے کے بجائے عوام کی صحیح معنوں میں خدمت کریں پھر دیکھیں بندے پہ بندے آپ کو سر ۤآنکھوں پر بٹھائے گا!