ہم روزمرہ کی خبروں میں ایک خبر روزانہ دیکھتے ہیں کہ فلاں مقدمہ میں ناقص تفتیش اور ناکافی شہادتوں کی وجہ سے ملزمان کو بری کر دیا گیا. جن میں کافی مشہور مقدمات بھی ہوتے ہیں. یا یہ خبر ہوتی ہے کہ زیادہ تر فیصلے تاخیر کا شکار اس وجہ سے ہیں کہ تفتیشی اداروں کی طرف سے قانونی دستاویز یا قانونی کارروائی مناسب نہیں ہے. یہاں پر تفتیشی اداروں سے مراد نا صرف محکمہ پولیس ہے بلکہ وہ تمام محکمے شامل ہیں جن کو آئین پاکستان میں تفتیش کا اختیار دیا گیا ہے. مگر میں یہاں پر صرف محکمہ پولیس کے طریقہ تفتیش پر بات کروں گا.
تھانہ کی سطح پر تفتیش کا آغاز قانونی طور پر FIR کے اندراج کے بعد ہوتا ہے. FIR کوکہ تھانہ کا رجسٹر نمبر 1 ہے. مدعی کی جانب سے تحریری یا زبانی (جسکو محرر تحریر کی شکل میں لا کر مدعی سے دستخط کروا لیتا ہے) شکایت کو جو کہ فوجداری قانون کے زمرہ میں آتی ہو اس کا اندراج رجسٹر نمبر 1 میں ہوتا ہے. FIR میں ہی تفتیشی افسر کا نام (جو ASI,SI,IP رینک کا ہوتا ہے) بھی درج کر دیا جاتا ہے.
اب یہاں سے باقاعدہ تفتیش کا آغاز ہوتا ہے. تفتیشی افسر کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ جو بھی تفتیش کرے اس کا اندراج اپنی تفتیشی مثل میں ساتھ ساتھ کرتا جائے. مثل میں ان پیراگراف کو ضمنی کہا جاتا ہے. یہاں پر لکھنا تو سب کچھ تفتیشی افسر نے ہوتا ہے مگر اس کے اوپر بیٹھے ہوئے افسران بالا اپنی مرضی کی ضمنیاں لکھواتے ہیں. مگر ان ضمنیوں میں یہ ذکر بلکل بھی نہیں کیا جاتا کہ یہ کس کے حکم پر اس طرح لکھی جا رہی ہے. اب ایک تفتیش میں کئی افسر شامل ہوتے جاتے ہیں. اگر ایک افسر کہتا ہے کہ یہ لکھو تو دوسرا کہہ رہا ہوتا ہے کہ نہیں اسطرح لکھو. تفتیشی افسر جو کہ تفتیش کا مکمل ذمہ دار ہوتا ہے مگر افسران بالا کی حکم عدولی کر کے جائے تو کہاں جائے. اس کا آخر میں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ساری تفتیش کی ایک کھچڑی سی پک چکی ہوتی ہے.
تفتیشی افسر نے اپنے آپ کو بھی بچانا ہوتا ہے اور افسران کو بھی خوش کرنا ہوتا ہے جس کا مکمل اثر تفتیش پر پڑتا ہے. یہی وجہ ہوتی ہے کہ عدالت کو فیصلہ کرنے میں بہت زیادہ دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے. کیونکہ عدالت کا کام تحقیق کرنا ہوتا ہے. مگر تحقیق ان ثبوتوں پر ہوتی ہے جو کے تفتیش کے دوران اکٹھے کیے گے ہوتے ہیں. مگر جب تفتیش صحیح ڈھنگ سے نہ کی گئی ہو تو ثبوت بھی پھر اسی طرح کے ہوتے ہیں.
اب جو لوگ سوچتے ہیں کہ یہ نظام کیسے بدلا جا سکتا ہے!! تو وہ یہ بھی جان لیں نظام بدلنے کے لیے قانون سازی کی جاتی ہے. کیا آپ کو لگتا ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے عام عوام کے لیے کوئی سنجیدہ قانون سازی کی گئی ہو!!
پولیس کا نظام بدلنے کے لیے انگریزوں کا لکھا ‘پولیس رول’ بدلنا ہو گا. ضابطہ فوجداری میں بہت سی اصلاحات لانی ہونگی. یہ تمام امور اسمبلیوں میں قانون سازی سے ہی ممکن ہیں. لیکن ہمارے ملک کی اسمبلیوں میں ایسی مشق سرے سے ہی موجود نہیں ہے. جبکہ تمام اسمبلیوں کے رکن صرف اسی بات کی تنخواہ لیتے ہیں کہ وہ مفاد عامہ کے لیے بہتر سے بہتر قوانین پاس کریں. جن قوانین کی وجہ سے عوام کو دقت ہو رہی ہو ان کو تبدیل کر دیں. مگر یہ محنت طلب کام ہے اسے کون کرے!!!
اتنی محنت کرنے سے تو یہی اچھا ہے کہ کرپشن کا الزام لگا کر آگے بڑھا جائے.