• کوئی سوال ہے؟
  • 923009426395+
  • darulshaour.magazine@gmail.com
چین کا ترقیاتی ماڈل؟ — تحریر: ڈاکٹر ممتاز خانچین کا ترقیاتی ماڈل؟ — تحریر: ڈاکٹر ممتاز خانچین کا ترقیاتی ماڈل؟ — تحریر: ڈاکٹر ممتاز خانچین کا ترقیاتی ماڈل؟ — تحریر: ڈاکٹر ممتاز خان
  • صفحہ اول
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • قرآنیات
  • تاریخ و فلسفہ
  • تعلیم | تربیت
  • انتخاب
  • شخصیات | انٹرویوز
  • کالم
  • کتابوں پر تبصرے
  • یوٹیوب چینلز
    • “Hakayat O Rawayat”
      حکایات و روایات
    • “Darulshaour Audio Books”
      دارلشعور آڈیو بکس
    • آڈیوز/ وڈیوز
  • آن لائن کتابیں
✕

چین کا ترقیاتی ماڈل؟ — تحریر: ڈاکٹر ممتاز خان

  • صفحہ اول
  • بلاگ
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • چین کا ترقیاتی ماڈل؟ — تحریر: ڈاکٹر ممتاز خان
ذوالفقار علی بھٹو اور بھگت سنگھ، تاریخ کی کڑیاں — تحریر: فرخ سہیل گوئندی
اپریل 11, 2017
امریکہ کی نیوکلیئر کمپنی بنک کرپٹ کیوں ہوئی؟ — تحریر: ڈاکڑ ممتاز خان
اپریل 11, 2017
Show all

چین کا ترقیاتی ماڈل؟ — تحریر: ڈاکٹر ممتاز خان

چین کا ترقیاتی ماڈل شائد کچھ لوگوں کو الجھا دے، یا مشکل لگے، لیکن اس کو سمجھنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
چین ایک کمیونسٹ نظریہ پہ متحد، ایک پارٹی سسٹم کے حامل منظم ملک کے طور پہ ابھرا تھا۔ چینی معاشرے کو مخلص اور محنتی قیادت ملی جس کو دیکھ کر وہاں کی عوام بھی فرماں بردار اور لیڈرشپ کی اطاعت گزار بن گئی۔ لیڈرشپ کے دل میں عوام کی محبت تھی لیکن عملی نظام بنانے میں جو ناکامیاں آئیں، اس کے بعد عوام نے قیادت پہ انگلیاں نہیں اٹھائیں، بلکہ قیادت نے جو نیا منصوبہ دیا اس پہ عمل کیا۔ ۱۹۴۹ء میں زرعی اصلاحات کے بعد بھی ملک خوشحال نہیں ہوا تو انہوں نے اپنے بنیادی نظریات میں تبدیلیاں کی اور ۱۹۷۵ میں عالمی حالات کے پیش نظر نیا سسٹم لائے۔ اس نئے منصوبے میں چینی قیادت نے متفقہ طور پہ درج ذیل اقدامات کیے۔
-مینجرز اور منصوبہ سازوں کو اختیارات دئیے اور طاقت دی۔
-ورکرز کو زیادہ معاشی فوائد دیئے۔
-تحقیق اور اعلیٰ تعلیم کو اپنی مادری زبان میں حاصل کرنے پہ زور دیا۔
-بیرونی تجارت کو بڑہایا۔
ملک میں پلانٹ، روڈ اور تعمیرات کے وہ منصوبے شروع کئے جن کے ٹھیکے لینے کے لیے بین الاقوامی کمپنیاں چین میں آئیں اور اپنے ساتھ ٹکنالوجی بھی لائیں۔
– اپنے سماج کو پرامن بنایا۔
ان بنیادی منصوبوں کو بنانے کے بعد پلانرز اور قیادت سوئی نہیں، بلکہ محنت کو جاری رکھا، اور نہ ہی پاکستان اور انڈیا کی طرح نئی حکومت نے آ کر ان پرانے منصوبوں کو ختم کیا۔ ان منصوبوں پہ مسلسل عمل پیرا ہونے سے پوری دنیا میں چین کی اچھی شہرت بن گئی۔ پھر، پیسہ پیسہ کو کھینچتا ہے، کے پرانے اصول پہ سارے گورے سرمئی چائینہ جانے لگے۔
اس دوران کیا امریکہ نے چین کی ٹانگیں نہیں کھینچیں؟
ضرور کھینچیں، حسد اور بین الاقوامی قیادت کا جنون جو امریکہ کو ہے، وہ کسی کو خوش نہیں دیکھ سکتا ہے۔ لیکن چینی قیادت نے اپنی خود داری اور عقل کا استعمال نہیں چھوڑا۔ اس دوران آنے والے سارے پراپیگینڈے کو رد کیا اور اپنے عوام کا اعتماد کھونے نہیں دیا۔ امریکہ اور اتحادی زبردستی کام کروانے کا طعنہ دیتے رہے، چین نے پروا نہیں کی، اور نہ امریکہ کو ختم کرنے کے لیے مسلمان رہبروں کی طرح بڑھکیں ماریں، نہ ہی امریکہ کی بین الاقوامی قیادت کو چیلنج کیا۔ اس طرح اپنے سے طاقتور دشمن کو ایک حد سے زیادہ اشتعال نہیں دیا اور دشمن ایک حد کے اندر رہا۔
اس سارے عمل سے جو سبق ملا ہے وہ درج ذیل ہے۔
۱۔ سماج کی ترقی کے لیے ثانوی نظریات تبدیل کرنے میں کوئی حرج نہیں، جو تبدیلی نہیں کرتا وہ ختم ہو جاتا ہے، سووئیت یونین کی پارٹی ختم ہو گئی لیکن چین کی پارٹی موجود ہے، وہ بھی عوام کے اعتماد کے ساتھ۔
۲۔ ملک کا معاشی ڈھانچہ مسلسل تبدیل کرتے رہنا چاہئے، لیکن بین الاقوامی حالات کا تجزیہ کرنے کے بعد۔ دو قومی نظریہ والوں کو اس عمل سے سبق سیکھنا چاہے۔
۳۔ قیادت کا اخلاص اور عوام سے محبت ہی ترقی کو عوامی سطح تک لے جاتی ہے۔
۴۔ رجعت پسند بائیں بازو اور رجعت پسند مذہبی ٹولہ حالات کے حساب سے تبدیل نہیں ہوتا اور زمانہ ان کے نظریات کی وجہ سے قوم کو کچل دیتا ہے۔
۵۔ قوم اور لوگ اصل ہیں، کوئی حکمت عملی اصل نہیں ہوتی ۔ لوگوں کے فائدے کے لیے ثانوی نظریات اور حکمت عملی تبدیل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ۵ صدی کی شریعت کے ساتھ چپکا ہوا مذہبی ٹولہ اور ۱۹۱۸ میں رہنے والہ کمیونسٹ ٹولہ، خود کو دوبارہ منظم کرے ورنہ اپنے فاسد نظریات سے قوم کے ذہن کو آلودہ مت کرے۔
۶۔ سانئس اور ٹکنالوجی کسی خاص قوم کی جاگیر نہیں، کام کرنے والی اقوام ہی کی میراث ہے، مناسب منصوبہ بندی سے قوم سائنس کے شعبے میں آگے اس وقت جاتی ہے، جب قومی معیشت اور سماج ترقی کرتا ہے۔

مناظر: 225
شئیر کریں
vicky
vicky

Related posts

جون 13, 2022

عمران خان کا یہ قصور کم نہیں تھا!


مزید پڑھیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

✕

اقسام

  • قرآنیات
  • سیرت النبی
  • امروزیہ | آج کی تحریر
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاست | معیشت
  • شخصیات | انٹرویوز
  • تعلیم | تربیت
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خواتین کارنر | صحت
  • اردو ادب | لٹریچر
  • انتخاب | نادرتحریریں
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کتابوں پر تبصرے
  • Uncategorized

تازہ ترین پوسٹس

  • 0
    پیغام ابراہیم
    جولائی 12, 2022
  • 0
    عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
    جولائی 11, 2022
  • 0
    مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
    جولائی 8, 2022

حالیہ تبصرے

  • جون 7, 2022

    M Abbas Shad commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

  • جون 5, 2022

    امیر حمزہ وٹو commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

Array

اہم ضوابط

اکاؤنٹ

پالیسی و ترجیحات

اغراض و مقاصد

نئے لکھنے والوں کے لئے

تازہ تحاریر

  • پیغام ابراہیم
  • عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
  • مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
  • تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
  • سرسید اور حقوق نسواں

رابطہ

موبائل نمبر : 03009426395

فون نمبر : 04237239138

ای میل : da******************@***il.com

پتہ: دارالشعور 37.مزنگ روڈ لاہور

تعارف

"دارالشعورمیگزین" دارالشعور پبلیکیشنز کا ایک ذیلی پلیٹ فارم ہے۔ جو دارالشعورپبلیشرز اور مطبوعات مکی دارالکتب کے ترجمان سہ ماہی مجلے "الصدق" لاہورکی ترقی یافتہ شکل اور ماہنامہ رسالہ "دارالشعور،لاہور"کا ایک متبادل میگزین ہے۔ جو اب ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سوفٹ کاپی کی شکل میں آن لائن شائع ہوتا ہے۔اور اس میں کتابوں پر تبصروں اور تعارف کے علاؤہ مختلف سماجی ،سیاسی اور علمی موضوعات پر آپ کی خدمت میں معیاری مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ جو دارالشعورکے ہم خیال منصفین کی قلمی کاوشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز کو توانا بنانے کے لیے دارالشعور میگزین میں اپنے مضامین،تجزیے اور تبصرے بھیج کر ہماری ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ دارالشعور پبلیکیشنزکی آفیشل ویسائٹ کو نیچے دیئے گئے لنک کو کلک کرکے ویزٹ کرسکتے ہیں۔ www.darulshaour.com

دارالشعور میگزین © 2022
اکاؤنٹ