سائینسی ایجادات و تصورات کی حقیقت:
جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں کہ یورپ و امریکہ خود کو سائینس و ٹیکنالوجی کا بانی سمجھتے ہیں اور اور اِس کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں۔ اپنے اِسی دعٰوی کو سچ ثابت کرنے کے لیے اُنھوں نے مسلمانوں کی ایجادات اور نظریات کو اپنے سائنسدانوں کے نام سے شائع کیا۔ اگر چہ یہ ایک طویل فہرست ہیں مگر چند ایک کا ذکر ذیل میں کیا جا تا ہے۔
۱- یورپ کہتا ہے کہ راجر بیکن[1292]ء وہ پہلا شخص ہے جس نے اڑنے کی مشین اور انسانی پرواز کا تصور دیا لىكن فلپ ہیتی کے مطابق قرطبہ کے رہائشی عباس ابن فرناس نے نویں صدی میں فلائنگ مشین بنائی اور اس کی پرواز کر کے عملی مظاہرہ بھی کیا۔اس پرواز سےاترنے کے دوران اُنھیں چوٹیں بھی آئیں۔ بغداد ائیرپورٹ پر ابن فرناس کا مجسمہ جبکہ لیبیا نے یادگاری ٹکٹ میں اِس کو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔
۲۔ یورپ میں یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ شیشے کی ایجا د 1291 میں وینس میں ہوئی مگر حقیقت تو یہ ہے کہ نویں اور دسوٰیں صدی میں شام میں باقاعدہ شیشہ سازی کا علم موجود تھا یعنی یورپ سے صدیوں پہلے مسلمان شیشے سے واقف تھے۔ اسی طرح 11 ویں صدی میں اسلامی سپین میں آئینے کا استعمال عام تھا۔
۳۔ یہ بتایا جاتا ہے کہ ریاضی میں ڈیسی مل فریکشن کا تصور اور اس کا آغازو استعمال سائمن اسٹیون نے 1589ء میں کیا اگر حقیقت کی عینک سے دیکھا جاۓ تو پتہ چلے گا کہ الکاشی نے اپنی کتاب ” مفتاح الحساب” میں اس کا استعمال پندرھویں صدی میں کیا۔ شاید سائمن اسٹیون نے الکاشی کی کتاب سے اسکا آئیڈیا لیا ہو۔
۴- گیلیلیو کے متعلق یہ مشہور ہے کہ انھوں نے پینڈولم کو سترھویں صدی میں دریافت کیا۔ مگر مصر کے مایہ ناز سائینسدان ابن یونس نے اس کی ایجاد دسویں صدی میں کی۔ گویا گیلیلو سے چھ، سات سو سال پہلے مسلمان پینڈولم کے تصور سے واقف تھے۔
کا استعمال فرانسیسی ریاضی دان ویٹا نے 1591 میں کیا جبکہ نویں X and ۵- الجبراء کے سمبل صدی میں مسلمانوں نے ایسے ہی حروف کا استعمال کیو بک اىكویشن کو حل کرنے میں کیا تھا۔
۶۔ تھىورم آف نصیىر الدىن كو طوسى كپل بھى كہتے ہىں۔ اس تھىورم كو نصیىر الدىن الطوسى نے پىش كىا تھا۔ جبكہ اسى تھىورم كو كوپر نیىكس نے سولہوىں صدى مىں اپنى كتاب مىں پىش كىا تھا۔ فرق صر ف اتنا ہے كہ تھىورم كو نصیىر الدىن الطوسى نے اپنى تھىورم كى وضاحت كےلئے ڈایا گرام مىیں ( الف اور ب) جبكہ كوپر نىیكس نے ( اے اور بى) لكھا تھا۔
۷۔ما ہر فلكیىات ابو الوفاء نے ۹۹۸ مىں تھرڈ لونر اىنكولٹى دریافت كى مگر كئى صدىوں بعد انگریز وں نے اس كو ڈینش ماہر فلکىیات ٹانكو براہے كے ساتھ منسلك كر دیا۔
۸- ایک اور تھیورم جیسے الاردی تھیورم کہا جاتا ہے،محیی الدین الاردی نے 1250 میں پیش کی اور قریبٰا 300 سال بعد کوپر نیکس نے اپنی کتاب میں اس کا تذکرہ کیا۔ الاردی نے اسکا حسابی ثبوت پیش کیا جبکہ کوپر نیکس ایسا کرنے سے قاصر رہا۔
۹- ابن شاطر کی جانب پیش کیا جانے والا چاند کا ماڈل اور مرکری کی حرکت کے ماڈل کو بھی کوپر نیکس نے کاپی کیا۔
میں اُند لس کے عظیم ریاضی دان جابر ابنِ افلح نے Plane and spherical trigonometry ۱۰-
اضافے كیے- اُنھیں طریقوں کو پندرھویں صدی کے ریاضی دان جوہان مولر نے اپنی کتاب ڈائی ٹرائی اینگولس میں کاپی کیا۔ بعض پیراگراف تو بالکل ہو بہو ویسے ہی نقل كىیےگىیےتھے۔
میڈیکل میں مسلمانوں کے کارنامے:
میڈیکل کے شعبے میں مسلمانوں نے آٹھویں سے بارھویں صدی تک بڑا تحقیقی کام کیا اور عظیم الشان کتابیں لکھی۔اُن کتابوں کی عظمت کا انداذہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج بھی وہ کتابیں یورپ کی لائبریریوں مثلا بوڈلین لائبریری-آکسفورڈ اور برٹش لائبریری لندن کی زینت ہیں-اگر چہ میڈیکل کے شعبے میں مسلمان ڈاکٹروں اور سائینسدانوں کے کارناموں کی فھرست طویل ہے مگر چند ایک کا ذکر ذیل میں دیا گیا ہے۔
1۔ سنا ن بن ثابت نہایت ہی قابل اور ماہر ڈاکٹر تھا۔ اُنھوں نے میڈیکل کے شعبے میں اصلاحات کیں۔ اِن اصلاحات میں طلباءکی رجسٹریشن، امتحان کا طریقہ کار، اور میڈیکل پریکٹس کیلیے لائیسنس جاری کرنا شامل تھیں-
)، چیچک،بچوں کی بیماریاں، مریض پر Infection2۔ محمد بن زکریا الرازی: اُنھوں نے انفیکشن سے بنے ہوۓ ٹانکوں سے زخموں کی سلائی،Intestine نفسیاتی اثرات، جانوروں کی آنتوں جراثیم اور انفیکشن کے درمیان تعلق کو واضح کیا- انھوں نے 100 سے زیادہ کتب تحریر کیں- اس میں 56 کتب میڈیکل پر،7 کتابیں نیچرل سائینسسز پر،10 ریاضی پر، 17 فلسفہ پر،دیینیات پر 14 ،کیمسٹری پہ22 جبکہ میٹا فزکس پر 6 کتابیں لکھی۔ اسکے ساتھ ساتھ 12 کتابیں دیگر موضاعات پر تحریر کی۔اُنھوں نے میڈیکل میں الکُحل کا استعمال شروع کیا۔ وہ واحد شخص تھےجنہوں نے سب سے پہلےپر ریسرچ آرٹیکل تحریر کیا۔ Allergy and Immunologyپر کام کیا۔Hey Fever اور Physical balance
3- ابولحسن الطہری: ابولحسن الطہری نے میڈیکل تھراپی اور سائیکو تھراپی کے حوالے سے سائینسی نظریات پیش کیے۔ نفسیاتی امراض پر روایتی تصورات سے ہٹ کر سائینسی گفتگو کی- ) ابولحسن الطہری نے خارش کے کیڑے کو دریافت کیا۔
4- ابنِ سینا: ابنِ سینا کی مشہور کتاب القانوں فی الطب ہے- اس کتاب کا دنیا کی مختلف زبانوں میں 87 مرتبہ ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ واضح رہے کہ 19 ویں صدی تک ساربون یونیوسٹی میں میڈیکل کے طالبِ علم کو میڈیکل پریکٹس کی اُس وقت تک اجازت نہیں تھی جب تک وہ اس کتاب کا ماہر نہ بن جاتا۔
، نفسیاتی بیماریوں کی پہچان ، جلد کی بیماریاں،اور آب (Meningitis) ابن سینا نے مینن جائٹس وہوا کے صحت پر اثرات کی وضاحت کی۔ کینسر کی صورت میں جسم کے متاثرہ حصہ کو کاٹنے ۔کی تجویز پیش کی۔
ابنِ سینا کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اطالوی مصنف فراری ڈی گریڈو نے اپنی تصانیف میں ابنِ سینا کا حوالہ تین ہزار مرتبہ دیا ہے۔
5- ابن النفیس: اِنھوں نے پھیپھڑوں کی ساخت اور دورانِ خون کی وضاحت کی۔ جدید تحقیق کے مطابق دورانِ خون کی دریافت ابن النفیس نے کی۔
6- ابو القا سم زہراوی: یہ عظیم سرجن اور فارماسسٹ تھے۔ ابو القا سم نے اپنی کتاب میں 200 کے قریب سر جری کے آلات کا ڈایاگرام بنایا۔ جبکہ قریبا 30 آلاتِ جراہی کا استعمال خود اُنھوں نے کیا- اُنھوں نے ہیموفیلیا کا ذکر کیا۔گاۓ کی ہڈی سے نقلی دانت بنانے کی بنیاد زہراوی نے رکھی۔سات سو سال بعد امریکہ کے صدر جارج Orthodentistryیوںکا استعمال شروع کیا-Dentures واشنگٹن نے لکڑی کےطریقے،گردوں اور کینسر آف تھائرائیڈ میں فرق،ہڈیوں کو جوڑنےکے(Goiter) گائیٹرسے پتھری نکالنے کے لۓ آپریشن، یہ تمام زہراوی کے کارنامے ہیں۔
فارماکالوجی میں کردار:
(Mechanism of Action)فارماکالوجی ادویات ، اُس کے بنانے، اور ادویات کے کام کرنے کے اندازکے مطالعہ کو کہتے ہیں۔الکندی نے ادویات پر اچھی خاصی تحقیق کی ہیں۔ اُنھوں نے اپنے دور میں دریافت شدہ ادویات کی صحیح خوراک پر سیر حاصل گفتگو کی۔ضیاءالدین ابنِ بیطار بہت بڑے فارماسسٹ تھے۔اُنھوں نے دس سال تک دنیا کے مختلیف ممالک کی سیاحت کی، جڑی بوٹیوں کو اکٹھا کیا تاکہ ادویات بنائی جا سکے اور اُن پر ریسرچ کی جا سکے۔
فارماکالوجی پر تین کتابیں لکھیں History of Medicine سلمان ابن حسان نےافغانستان کے ریسرچر ابوالمنصور نے 585 امراض اور اُنکے علاج پر بحث کی۔اُنھوں نے 466امراض کا علاج جڑی بوٹیوں سے،75 کا علاج معدنی اور 44کا علاج حیوانی ادویات سے کیا۔ یہ ابوالمنصورہی تھے جنہوں نے سوڈیم کاربونیٹ اور پوٹاشیم کاربونیٹ میں فرق بتایا۔اُنکی کتاب جوکہ فارسی میں لکھی گئی ہیں، آج بھی ویانا کے میوزم موجود ہیں۔
علم ریاضی:
ریاضی میں نوٰیں سے پندوھویں صدی تک مسلمانوں نے گراں قدر کارنامے سر انجام دئیے۔چند مشہور ریاضیدانوں کے نام درج زیل ہیں۔
الخوارزمی،بنو موسٰی، الکندی، الماہانی ، ابن قرۃ،الخازن، ابوکامل،ابولوفا،ابن یونس وغیرہ۔
دیگر علوم:
دیگر علوم میں فزکس، کیمسٹری،جغرافیہ، فلسفہ، تاریخ، موسیقی، امراض عین، علم المناظر وغیرہ شامل ہیں۔ اِن علوم میں بھی مسلم سائینسدانوں کا کردار اور کارنامے کسی سے پوشیدہ نہں۔ مغرب کے حقیقت پسند مصنف نے مسلم سائینسدانوں کے اِس کردار کو سراہا بھی ہے۔فزکس کی تاریخ پر روشنی Age of faith ڈالے تو ابن الہیثم جیسے سائینسدان کا نام سامنے آتا ہے۔ وِل ڈیورانٹ نے اپنی کتاب میں کی گئی ریسرچ کو (Optics) میں ابن الہیثم کے علم المناظرقرار دیا ہے۔آج اگرہم ایک طرف مائیکروسکوپ کے ذریعے مائیکروبز Master piece of opticsاور اس میں ہونے والی تبدیلیوں کا مشاہدہ کرتے ہیں اور دوسری طرف ٹیلی سکوپ کے ذریعے کائنات کی حدود کا تجزیہ کرتے ہیں تو اس میں بھی بنیادی کردار ابن الہیثم کا ہے جنہوں نے حدبی عدسوں پر تحقیق کی۔ بعد اذا مزید تحقیق کے بعد یہ آلات ایجاد ہوۓ۔ راجر بیکن بھی ابن الہیثم سے بہت متاثر تھے۔یہی وجہ ہے کہ وِل ڈیورانٹ یہ کہنے پہ مجبورتھا کہ ” ابن الہیثم کے بغیر راجر بیکن کے نام سے دنیا کے اوراق خالی ہوتے۔”
‘’Without Ibn al-Haitham, Roger Bacon would have never been heard of 5’’
آلحسیب: آلحسیب بہت بڑے ماہر فلکیات گزرے ہیں۔829ء میں جب سورج کو گرہین لگا تو عین اُسی وقت سورج کی بلندی سے وقت کا تعین کرنا، اور ٹیبل آف شیڈز آلحسیب کے کارنامے ہیں-
ابوالعباس نے فلکیات پر کتابیں لکھی اور ا ن کتابوں کے کئی زبانوں میں ترجمہ بھی ھو چکا ہے۔ ۔
ہے- Compendium of Astronomy ہیں۔انگریزی میں اسکا نام مصر کے لو گ آنکھوں کی بیماریوں میں مبتلا رہتے تھے۔ چنانچہ آئی سرجن اور ماہرین چشم پیدا کرنے پر کام ہوا۔ نویں اور دسویں صدی میں بڑے بڑۓ ماہریں پیدا ہوۓ۔آنکھوں کی امراض پر تحقیق ہوئی ۔اُس زمانے میں آنکھ کے آپریشن اور موتیابند کے اپریشن کامیابی سے کۓ جاتے تھے۔
قطب الدین شیرازی نے ریٹینا، شی ایزما، آپٹک نرو اور تھیوری آف ویژن پر کام کیا۔
مسلمانوں کے علمی کارناموں کی یہ فہرست طویل ہیں- مسلمان سائینسدانوں اور انکی تحقیقات کو پیش کرنے کا بنیادی مقصد مسلم نوجوان کو یہ یقین دلانا ہے کہ ہمارا ماضی شاندار ہیں- تو کیا اسکا یہ مطلب ہے کہ صرف ما ضی کی حسین یادوں کے سہارے اپنی زندگی گزار لی جائیں۔ نہیں ہر گز نہیں-اس میں کوئی شک نہیں کہ آج یورپی اقوام اور امریکہ سائینسی تحقیقات کے حوالے سے کافی آگے نکل چکیں ہیں- وہ ہر سال لاکھوں ریسرچ پیپرز پنلش کرتے ہیں اگر ہم نے اِن اقوام سے مقابلہ کرنا ہے اور ترقیا فتہ اقوام کی صف میں کھڑا ھونا ہے تو لامحالہ تعلیم و تربیت اورسائینس و ٹیکنالوجی پر زور دینا پڑے گا۔ اگر ہم نے خلوصِ نیت سے، حب الوطنی کے جزبے کے تحت کام کیا تو وہ دن دور نہیں کہ ہما را شمار بھی دنیا کی زندہ اور ترقیافتہ اقوام میں کیا جاے گا-
حوالہ جات:
1- وکی پیڈیا
2- مسلمانوں کے سائینسی کارنامے، محمد زکریا ورک، ص2
3- مسلمانوں کے سائینسی کارنامے، محمد زکریا ورک، ص3
4- عہدنبوی میں نطامِ تعلیم،مولانا محمد عبدالمعبود ص 30
5- آیج آف فیتھ، ول ڈیورانٹ، ص 244
6- شارٹ ہسٹری آف سائینٹیفک آئیڈیاز ٹو ، 1900
7- مسلمان سائینسدان،ندوی، ابراہیم