• کوئی سوال ہے؟
  • 923009426395+
  • darulshaour.magazine@gmail.com
شہر بسانے کا ہنر — تحریر: ڈاکٹر ممتاز خانشہر بسانے کا ہنر — تحریر: ڈاکٹر ممتاز خانشہر بسانے کا ہنر — تحریر: ڈاکٹر ممتاز خانشہر بسانے کا ہنر — تحریر: ڈاکٹر ممتاز خان
  • صفحہ اول
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • قرآنیات
  • تاریخ و فلسفہ
  • تعلیم | تربیت
  • انتخاب
  • شخصیات | انٹرویوز
  • کالم
  • کتابوں پر تبصرے
  • یوٹیوب چینلز
    • “Hakayat O Rawayat”
      حکایات و روایات
    • “Darulshaour Audio Books”
      دارلشعور آڈیو بکس
    • آڈیوز/ وڈیوز
  • آن لائن کتابیں
✕

شہر بسانے کا ہنر — تحریر: ڈاکٹر ممتاز خان

  • صفحہ اول
  • بلاگ
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • شہر بسانے کا ہنر — تحریر: ڈاکٹر ممتاز خان
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول حضرت محمدﷺ کے ساتھ محبت کے تقاضے
اپریل 27, 2017
مثبت تبدیلی کے چند مفید کام — تحریر: عثمان حبیب کراچی
اپریل 29, 2017
Show all

شہر بسانے کا ہنر — تحریر: ڈاکٹر ممتاز خان

اگر ہم کسی بھی قوم کا تہذیبی سفر دیکھیں تو ہمیں ایک قدر مشترک ملے گی۔ وہ ہے نئے شہر بسانے کی پالیسی۔ نئے شہر بسانے سے جو بنیادی فوائد حاصل ہوتے ہیں، ان میں ترقیات، ٹیکنالوجی، ٹرینڈ ،افرادی قوت، اورسرمایہ کی ریل پیل شامل ہے ( چائینہ میں ۲۰۱۲ء میں شہر بسانے کے لے بیچی گئی زمین سے ۴۳۸ بلین ڈالر منافع ملا جو کہ بعد کے ترقیاتی پروگراموں میں لگایا جاتا ہے)۔ یہ سارا منافع وہاں کی لوکل باڈیز نے کمایا، (ہمارے ہاں تو یونین کونسل کے لوگوں کا ویژن کیا ہے وہ آپ جانتے ہی ہیں)۔ یہ سب فوائد ملکی سرحدوں کے اندر آ جاتے ہیں اور یہ ایک خودکار عمل ہوتا ہے۔ اس کو بیرونی طاقتیں روک نہیں سکتیں۔ اگر کوئی روک سکتا ہے تو وہ انتظامیہ کی خودغرضی اور منافقت ہے۔ چائینہ نے ۱۹۴۹ء سے اب تک بیسیوں شہر بنائے ہیں، جو سنٹرل لیول پہ پلاننگ سے بنے ہیں۔ پھران میں حکومت کی ہدایت پہ معاشی وسماجی سرگرمیوں کا انعقاد، نئی تعلیمی درسگاہوں کا قیام، نئی فیکڑیوں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے اور یہ سلسلہ ایک تسلسل سے جاری ہے۔ اس میں کسی ایک گروپ کے فائدے یا شعوری طور پہ اس کو فائدہ پہچانے کے لیے پالیسی بنائی یا روکی نہیں جاتی ہیں۔ (وطن عزیزمیں جو کچھ ہوتا ہے اس میں خواص کے لیے ایسے دروازے رکھے جاتے ہیں جہاں سے ان کو نوازا جا سکے)۔
مغلیہ سلطنت کی کنسٹریکشن اور نئے شہر بسانے کی پالیسوں کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں کئی نام جیسے دہلی (شاہ جہان نےبنایا، ۱۶۳۸۔ ۱۶۴۹)، فتح پور سیکری، واراناسی ( یہ اکبرنے دوبارہ تعمیر کروایا تھا) ملیں گے، اس کے علاوہ آگرہ ( جوکہ سکندر لودھی نے بنایا تھا)، حیدرآباد ( قطب سلطنت ۱۵۸۹) جیسے بڑے شہر ملیں گے۔


جو لوگ برصغیر کے عظیم حکمرانوں کا آجکل کے مغرب نواز ٹولے سے موازنہ کرتے ہیں، وہ اپنے مطالعے کو وسعت دیں اور کابل سے شروع ہوکر سری لنکا تک پھیلی تہذیب کا مطالعہ کریں تو ان حکمرانوں کی وسعت علمی، اس وقت کی موجود تمام ٹیکنالوجییز پہ ان کا عبوراور سیاسی کنڑول، اور ان کی اعلی ذہانت کو ماننا پڑے گا۔ جب کہ ان کے ہم اثر یورپ، امریکہ، چین اور باقی ملکوں میں ایسا کچھ نہیں ملے گا، یا کم درجے کا ملے گا۔


پاکستان بننے کے بعد ہم نے اسلام آباد بنایا، پھر ایک ایسا طبقہ کنسٹریکشن میں گھس گیا، جو محلے اور کالونیاں ذاتی اغراض کے لیے بناتا ہے، جو صرف ذاتی فائدے کے لیے پیسے کو بڑہاتے ہیں؛ لیکن کنسٹریکشن کے پیچھے چھپی انڈسٹریز کی چین اس وقت تک ملکی فائدے میں نہیں آ سکتی جب تک کنسٹریکشن کی پالیسی مرکزی سطح پہ پلاننگ اور قومی مفاہمت اور عوامی فائدے کے لیے نہ بنے۔ کنسٹریکشن کے پیچھے کئی صنعتیں کام کر رہی ہوتی ہیں، مثلاً: توانائی، سٹیل، کمپیوٹر سوفٹوئیرز، ریسرچ کے ادارے، بینک، بینک کی ٹیکنالوجی، تیل، گیس، بجلی، پینٹ، الیکڑونکس اور نہ جانے کتنے شعبہ جات۔ اگر کسی ملک میں کنسٹریکشن کا جامع پلان بنا لیا گیا، تو پھر آپ ان سب ٹیکنالوجیز کو بڑی آسانی اور کسی کی کاسہ لیسی کیے بغیر اپنے ملک لا سکتے ہیں۔ ان سب ٹیکنالوجیز کی حامل فرمز کو منافع چاہیے ہوتا ہے اور وہ آپ کے ملکی فائدے کا سبب بن سکتی ہیں۔ لیکن اگر انفرادی نقطہ نظر سے پالیساں بنائی جائیں تو، نہ یہ صنعتیں ملک میں آتی ہیں اور نہ ہی سرمائے کی صحیح گردش ہو پاتی ہے۔ اپنی چھت ملنا تو ایک خواب ہی رہتا ہے۔

مناظر: 244
شئیر کریں
vicky
vicky

Related posts

جون 13, 2022

عمران خان کا یہ قصور کم نہیں تھا!


مزید پڑھیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

✕

اقسام

  • قرآنیات
  • سیرت النبی
  • امروزیہ | آج کی تحریر
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاست | معیشت
  • شخصیات | انٹرویوز
  • تعلیم | تربیت
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خواتین کارنر | صحت
  • اردو ادب | لٹریچر
  • انتخاب | نادرتحریریں
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کتابوں پر تبصرے
  • Uncategorized

تازہ ترین پوسٹس

  • 0
    پیغام ابراہیم
    جولائی 12, 2022
  • 0
    عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
    جولائی 11, 2022
  • 0
    مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
    جولائی 8, 2022

حالیہ تبصرے

  • جون 7, 2022

    M Abbas Shad commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

  • جون 5, 2022

    امیر حمزہ وٹو commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

Array

اہم ضوابط

اکاؤنٹ

پالیسی و ترجیحات

اغراض و مقاصد

نئے لکھنے والوں کے لئے

تازہ تحاریر

  • پیغام ابراہیم
  • عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
  • مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
  • تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
  • سرسید اور حقوق نسواں

رابطہ

موبائل نمبر : 03009426395

فون نمبر : 04237239138

ای میل : da******************@***il.com

پتہ: دارالشعور 37.مزنگ روڈ لاہور

تعارف

"دارالشعورمیگزین" دارالشعور پبلیکیشنز کا ایک ذیلی پلیٹ فارم ہے۔ جو دارالشعورپبلیشرز اور مطبوعات مکی دارالکتب کے ترجمان سہ ماہی مجلے "الصدق" لاہورکی ترقی یافتہ شکل اور ماہنامہ رسالہ "دارالشعور،لاہور"کا ایک متبادل میگزین ہے۔ جو اب ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سوفٹ کاپی کی شکل میں آن لائن شائع ہوتا ہے۔اور اس میں کتابوں پر تبصروں اور تعارف کے علاؤہ مختلف سماجی ،سیاسی اور علمی موضوعات پر آپ کی خدمت میں معیاری مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ جو دارالشعورکے ہم خیال منصفین کی قلمی کاوشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز کو توانا بنانے کے لیے دارالشعور میگزین میں اپنے مضامین،تجزیے اور تبصرے بھیج کر ہماری ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ دارالشعور پبلیکیشنزکی آفیشل ویسائٹ کو نیچے دیئے گئے لنک کو کلک کرکے ویزٹ کرسکتے ہیں۔ www.darulshaour.com

دارالشعور میگزین © 2022
اکاؤنٹ