محبت ایک پاکیزہ لفظ ہے جو دل کے صحیح میلان کا نام ہے۔اگر محبت میں صداقت ہو تو اس میں احترام ، اتباع اور پائیداری کا عنصرپایا جاتا ہے۔ محبت محبوب کے تقاضے سے مشروط ہوتی ہے ،اگر تقاضے کی تکمیل نہ ہو تو دعویٰ بے بنیاد اور کھوکھلا ثابت ہوتا ہے۔ معاشرے میں ایک انسان کا دوسرے انسانوں سے یا باقی مخلوقات سے محبت در اصل کسی اعلیٰ و برتر ہستی سے تعلق کا نتیجہ ہوتا ہے ، اب یہ تعلق جتنی اعلیٰ مرکز (ذات )سے ہو اُتنی ہی اس کے اثرات مرکز کے اردگرد باقی دائروں میں ہوتے ہیں ۔ لیکن اگر یہ تعلق کسی اعلیٰ مرکز کے ساتھ وابسطہ نہ ہو تو انسان کا دوسرے انسانوں یا مخلوقات کےساتھ محبت بھی مشکوک ہوجاتی ہے۔انسان جس اعلیٰ و برتر ہستی سے تعلق قائم رکھتا ہے اسی کے ساتھ وہ اپنی جان و مال سے بھی زیادہ محبت کرتا ہے۔ محبوب کے ساتھ اگر محبت میں سچائی ہو تو محبوب بھی اپنے چاہنے والوں/محبت کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔
ایک سلیم الفطرت انسان ، خاص طور پر ایک مسلمان کے لیے اللہ ربُ العزّت سے بڑھ کر کوئی اعلیٰ و برتر ہستی نہیں ہے جن سے وہ اپنا تعلق قائم کرے۔ جب اللہ تعالیٰ کی ذات کو محبت کا مرکز مان لیا تو اللہ کے ساتھ محبت کا اظہار کس طرح ہونا چاہیئے ۔اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ “
ترجمہ: “(اے نبیؐ مسلمانوں /اپنے پیروکاروں سے) کہہ دو اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو ،اللہ تم سے محبت کرے گا”
(سورۃ ال عمران ، آیت 31)
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ؐ کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دے دیا ۔ ارشاد ربّانی ہے ترجمہ: “جورسولکیاطاعتکرتاہےتواسنےاللہ تعالیٰ کی فرمانبرداریکی”
(سورة النساء، آیت 80)
ان آیاتِ کریمہ سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ اللہ تعالی کی محبت و اطاعت ، حضرت محمد مصطفی ٰ ﷺ کے ساتھ محبت و اطاعت سے مربوط ہے۔ اللہ تعالیٰ سے محبت کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم حضورؐ سے محبت رکھیں اور حضورؐ کی اطاعت کریں۔
اب اگر ہمیں اللہ کے رسول ﷺ سے سچی محبت ہے تواس کے تقاضے سامنے آنے چاہئیں ۔
حضور ﷺکے ساتھ محبت کا اولین تقاضہ:
آپ ؐ کے ساتھ محبت کا اولین تقاضا یہ ہے کہ حضورؐ جس مقصد کے لیے مبعوث فرمائے گئے تھے ، اُسی مقصد کے لیے کام کیا جائے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ حضورؐ کی بعثت کے بارے میں فرماتے ہیں”
ترجمہ: وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اس (دین) کو (دنیا کے) تمام دینوں پر غالب کرے۔اگرچہ کافر ناخوش ہی ہوں۔
(سورۃصف، آیت 09
ایک دوسری جگہ پرانبیاء کرامؑ کی بعثت کے مقصد کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
(ترجمہ: اور تحقیق ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو،
النحل ، آیت 36)ان آیاتِ کریمہ سے واضح ہوتا ہے کہ حضورؐ کے بعثت کا مقصد یہ تھا کہ آپ ؐ انسانوں کے لیے ایک عادلانہ نظام قائم کریں جو دنیا کے سارے نظاموں پر غالب ہو، ہر قسم کی طاغوتی(شیطانی) قوتوں کے شر سے محفوظ ہو، جس میں ہر انسان کو اللہ سے تعلق مضبوط کرنے کا موقع میسر ہو۔ سیرتِ نبی کریم ؐ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت محمد ﷺنے نبوت کے پہلے تیرا سال ( 13 ) مکی اور 10 سال مدنی دور میں مکمل جدوجہد کے ساتھ اس مقصد کی تکمیل کے لیے کام کیا جس مقصد کے لیے مبعوث فرمائے گئے تھے ۔چنانچہ آپﷺ نے اپنے حیات مبارکہ میں ہی یثرب ( مدینہ منورہ ) میں انسانی بنیادوں پر ایک سٹیٹ قائم کی۔ جہاں پر آپؐ نے ایک عادلانہ نظام کی بنیاد رکھی اور تاریخ انسانی میں پہلا تحریری آئین، میثاقِ مدینہ لاگو کرکے رہتی دنیا تک ایک ماڈل بنا دیا۔چونکہ آپؐ کا مشن ایک بین الاقوامی مشن تھا اور آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے پوری انسانیت کے لیے رحمت بنا کر بھیجا تھا۔ اس لیے آپ ؐ اور اپکی جماعت نے جدوجہد کو جاری رکھا اور مدینہ سٹیٹ قائم ہونےکے صرف 8 سال بعد مکّہ کو فتح کرکے قومی انقلاب کی ایک اعلیٰ مثال قائم کر دی ۔ آپؐ کے وصال کے بعد حضرات صحابہ کرام نے مکمل تابع داری، نظم و ضبط کے ساتھ آپﷺ کے مشن پر کام کیا اور اُس دور کے ظالمانہ نظاموں (قیصر و کسریٰ ) کا خاتمہ کر کے بین الاقوامی سطح پرایک عادلانہ نظام قائم کیا جو تقریباً 1000 سال تک قائم و دائم رہا۔
برصغیر پاک و ہند میں انگریز وں کے تسلط ، اور بعد میں سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد جب مسلم دور ِحکومت کا خاتمہ ہوا تو مسلمان ایک مرتبہ پھر مغلوب ہو گئے اور مسلمانوں کا اپنا نظام نہیں رہا۔ اب محمد ﷺ کے ساتھ محبت کا تقاضہ یہ ہے کہ دوبارہ عادلانہ نظام قائم کرنے کے لیے اسی طریقے پر جدوجہد کریں جس طریقے پر حضورﷺ نے جدوجہد کی تھی۔ اور سامراج کے چالوں سے اپنے آپ کو مخفوظ رکھیں۔ ہر قسم کی نعرہ بازی ، توڑ پھوڑ سے اپنے آپ کو بچائے رکھیں۔ یہ حضور ﷺکے ساتھ محبت کا اولین تقاضہ ہے اور یہی سچا عاشقِ رسول ہونے کا ثبوت ہے۔
حضرت امام مالک ؒ کے الفاظ ہے کہ لا یصلح آخر ھذہ الامۃ الا بما صلح بہ اولھا ، ترجمہ: یعنی امت کے آخری عہد کی اصلاح کبھی نہ ہو سکے گی تا وقتیکہ وہی طریقہ اختیار نہ کیا جائے جس سے اس کے ابتدائی عہد میں اصلاح پائی تھی۔
اب نوجوان نسل کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ علماء حق کی صحبت صالح میں رہ کر سوسائٹی میں ایک عادلانہ نظام کے قیام کے لیے جدوجہد کریں۔ جس طرح حضورﷺ نے 13 سالہ مکی دور میں عدم تشدد (كُفُّوا أَيْدِيَكُمْ)کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے جماعت سازی کی، جس کے نتیجے میں 85، 86 افراد تیار ہوئے اور بعد کے دور میں اسی جماعت کے ذریعے مدینہ میں ایک عادلانہ نظام کی بنیاد رکھی ۔ اسی طرح آج بھی وحدتِ انسانیت کے نظریے پر کام کرتے ہوئے ایک صالح ٹیم تشکیل دینے کی ضرورت ہے جو تربیت کے مراحل سے گزرنے کے بعد مملکت پاکستان میں ایک عادلانہ نظام قائم کرسکے۔
محبت کا ایک تقاضہ یہ بھی ہے کہ اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیا جائے ، کیونکہ حضورؐ کا فرمان ہے کہ انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق ترجمہ : کہ مجھے اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کے لیے رسول بنا کر بھیجا گیا۔ اس لیے رحمت اللعا لمینؐ کے ساتھ محبت کا تقاضہ یہ بھی ہے کہ جماعت سازی کے دور سے گزرتے ہوئےاعلی اخلاق کا مظاہرہ کریں۔ ہر قسم کی غیر اخلاقی سرگرمیوں سے اپنے آپ کو بچائے رکھے، اللہ کے احکامات اور رسول ؐ کے اُسوۃ کو اپنی زندگی کا اوڑھنابچھونا بنا لیں۔
آخر میں پھر محبت کے مرکز کی طر ف آتا ہوں ، حضورؐ کا فرمان ہے کہ الخلق عيال الله فأحب الخلق إلى الله من أحسن إلى عيالہ ، ترجمہ: مخلوق اللہ کا کنبہ ہے پس مخلوقات میں اللہ کا محبوب وہ ہے جو اس کے کنبے کےساتھ اچھا برتاؤ کرے۔
حضرت مولانا عبیداللہ سندھی رح کا قول ہے کہ ” خدا پرستی کا لازمی نتیجہ انسان دوستی ہے”، اب اگر کوئی انسان، اللہ سے محبت رکھتا ہے اور اُسی کی پرستش کرتاہے تو معاشرے میں اسکی پہچان یہ ہوگی کہ وہ انسان دوست ہوگا۔ اگرکوئی خدا پرست ہونے کا دعویدار ہے اور انسانیت کے ساتھ دشمنی رکھتا ہے تو وہ اس دعوے میں سچا نہیں ہے۔اے اللہ ہمیں خداپرستی اور عاشقِ رسول ہونے کا صحیح دعویدار بنا دےآمین۔۔۔