جس طرح ایک انسان کے اندر مختلف نظریات و طاقتیں کام کر رہی ہوتی ہیں، ٹھیک اسی طرح سماج کے اندر بھی مختلف گروہ اور ان کے نظریات کام کررہے ہوتے ہیں۔ کسی وقت میں کوئی ایک گروپ اور نظریہ ہاوی ہو جاتا ہے اور دوسرے وقت میں دوسرا۔ ہاوی ہونے کے بعد کے کردار سے ہی اس نظریے کی صداقت کا علم ہوتا ہے کہ وہ اپنے بل پہ اوپر اٹھا ہے یا کسی بیرونی آقا کی مدد سے۔
کوئی بھی سماج چاہے وہ قومی بنیادوں پہ استوار ہو، سوشلسٹ ہو، یا مذہبی بنیادوں پہ بنا ہو؛ تب ہی طاقتور ہو سکتا ہے جب وہ اپنے آپ پہ انحصار کرے۔ جس طرح فرد اپنی ترقی کے لیے دوست اور دشمن بناتا ہے، اسی طرح سماج بھی اپنے دوستوں اور دشمنوں کا تعین کرتا ہے۔ جس طرح فرد اپنے مزاج ومفاد؛ صحیح وغلط کے نظریات کے حساب سے اپنے گروپس کا انتخاب کرتا ہے، ٹھیک اسی طرح سماج بھی خودکار و شعوری دونوں طریقوں کے تحت انتخاب کرتا ہے۔
اب طاقت پہ بات کی جائے تو طاقت کے لیے سماج کو اپنے آپ پہ ہی بھروسہ کرنا ہوگا۔ باقی دوست اور دشمن کا فیصلہ ضروری ہے۔ سچ کے سارے ساتھی نہیں ہوتے۔ بہت سارے مفاد کے ساتھی ہوتے ہیں۔ دوستوں کے لیے جو جائز ہوتا ہے، دشمن کے لے ناجائز۔ سو طاقتور کو کس طرح شکست دینی ہے یا اس سے دوستی کرنی ہے، اس کا فیصلہ سماج کا مزاج اور مفاد کرتا ہے۔
بسااوقات مزاج اور جذبات جو فلاسفی ہی سے پیدا ہوتے ہیں، وہ کسی اور سمت کھینچتے ہیں اور زمینی حقائق کچھ اور بتا رہے ہوتےہیں۔ ایسے حالات میں وقتی سمجھوتے بھی کرنا پڑتے ہیں۔ چائینہ نے کمیونزم کا معاشی ڈھانچہ اسی وجہ سے چھوڑا تھا کہ وہ نتائج نہیں دے رہا تھا۔ جبکہ سووئیت یونین نے کمیونزم کا معاشی ڈھانچہ نہیں چھوڑا، اور یونین ٹوٹ گئی۔ چائینہ کی معاشی پالیسیاں ۱۹۷۵ء کے وقت تبدیل ہوئیں جبکہ سووئیت یونین ۱۹۹۱ء میں ٹوٹ گیا۔ چائینہ ۱۹۹۱ء تک ایک معاشی قوت کے طورپہ نظر آنا شروع ہو گیا تھا۔ چائینہ کی پالیسیاں زمینی حقائق سے زیادہ قریب تھی، گو وہ ان کے بنیادی نظریات سے مختلف تھی، پھر بھی ان کو تبدیل اپنے فائدے کے لیے کیا گیا تھا، نہ کہ کسی کے دباؤ یا خواہش پہ۔
گو چائینہ نے مارکیٹ اکانومی کا انتخاب کر لیا تھا، لیکن اس کے باوجود مغرب نے ترقی ان کی جھولی میں نہیں ڈالی، انہوں نے اپنے زور بازو سے ایسے حالات پیدا کیے، کہ ترقی کا رخ ان کی طرف ہوتا گیا( اور مغرب اپنا پوٹینشل اسلام دشمنی میں ضائع کرتا رہا۔) جس سے ان کی مارکیٹ کی ساکھ بن گئی۔ وہ ساکھ بنانے کے لیے انہوں نے اپنی محنت زمینی حقائق کے حساب سے کی۔ انہوں نے ویسٹ کے ساتھ کوئی جنگ نہیں کی، نہ ہی سرد جنگ اور نہ ہی کوئی اور تناؤ جس سے ان کے پورے معاشرے کی توجہ کام سے ہٹ جائے اور وہ سیاسی بحثوں میں الجھ جائیں۔
ادارہ جاتی کام کا اصول، جس کا کام اسی کو ساجے؛ کے اصول پہ پورے سماج نے اپنی توجہ کسی اور سمت نہیں بھٹکائی۔ وہ اپنے قومی پالیسوں کے تناظر میں جس سمت میں لگائے گئے، انہوں نے کام کیا۔ انفرادیت پسندی کی بجائے ادارہ کے مفاد میں کام کیا۔ اسی طرح کا ملتا جلتا عوامی مزاج کوریا میں بھی پایا گیا۔ کوریا کے لوگ بھی اپنی دوستیاں صرف اپنے ادارہ کے لوگوں سے کرتے ہیں۔ اسے ادارہ کی ترقی ہوتی ہے کیونکہ لوگ جذباتی طور پہ کام کے ساتھ لگاؤ رکھتے ہیں۔ اسی ادارہ جاتی مزاج کی بدولت چائنہ اور کوریا، دونوں نے اپنے بڑے بڑے ادارے بنائے اور اپنے ریسورسز کو لایعنی کاموں میں نہیں لگایا۔
اداراہ جاتی مزاج پہ بات بھی تفصیل سے کسی اور مضمون میں ہو گی، لیکن بنیادی طور پہ اس بات کو سمجھنا چاہیےکہ اس قوم نے بین الاقوامی قوانین کو سمجھا، طاقت کے محور کو سمجھا، اپنی طاقت کو سمجھا، چال اور وقت کا پورا توازن برقرار رکھا اور پھر جا کے ترقی کے جن کو قابو کیا؛ اور اس سارے پراسس میں لیڈرشپ نے اپنی قوم سے وفاداری اور اپنے سماج پہ خودانحصاری کو نہیں چھوڑا۔