ہم کوریا کی تقسیم سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، جس طرح نسل پرستانہ اور مفاد پرستانہ برطانوی طرز سیاست تھا، خصوصاً جنگ عظیم دویم کے بعد امریکہ بھی اسی راستے پہ چلنا شروع ہو گیا۔ برطانوی طرز سیاست کی ایک اور اہم شکل معاشرے کو تقسیم کرنے کے بعد ان کی اگلی نسلوں کو ایک جھوٹی تاریخ پڑھا کر اپنا اتحادی بنائے رکھنا تھا اور امریکہ بھی اسی راستے پہ چلنا شروع ہو گیا۔لیکن ایک اہم بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آخر یہ تقسیم ہوتی کیوں ہے؟آخر صدیوں تک ایک ساتھ رہنے والے لوگ کیوں لڑائی پہ اتر آتے ہیں۔ اس کے لیے کوریا کو بطور ماڈل سمجھ لیں تو اس کی کئی کڑیاں ہمیں برصغیر کی سیاست کو سمجھنے میں بھی مدد دیں گی۔
۱۹۱۰ء میں کوریا کی چوسن سلطنت کا خاتمہ ہو گیا تھا، جس کے بعد جاپانی، کوریا کے پورے علاقے پہ قابض ہو گئے تھے۔ جاپانی مینیجمنٹ میں بہت سخت تھے، لیکن کوریا کے انفراسٹریکچر کو جدید بنائے میں جاپان نے بہت مدد کی تھی اور جس طرح برطانوی حکمرانون نے برصغیر کو انڈسڑیل انقلاب سے روکے رکھا، جاپانیوں نے کوریا میں ایسا نہیں کیا۔ ایٹم بم مارنے کے بعد امریکہ نے پورے علاقے پہ قبضہ کر لیا، جاپانی کوریا کے اقتدار سے باہر ہو گئے۔ کوریا پہ امریکہ اور سویئت کی فوجیں، جو جاپان کے خلاف لڑ رہیں تھی، اپنی اپنی جگہ پہ رک گئی۔
اب اصول تو یہ تھا کہ جنگ کے خاتمہ کے بعد ملک، کورین کے حوالے کردیا جاتا۔ کورین جو نظام بناتے وہ ان کی مرضی اور منشا کا ہوتا۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ پورے کوریا کے اندر کوئی بھی ایسی سیاسی جماعت نہیں تھی، جو مغربی نظام کو سپورٹ کرتی اور اس کی طرز پہ حکومت نظام بناتی۔ اس کے مقابلے میں کمیونسٹ نظریات کی حامل ایک پارٹی پورے کوریا کے اندر موجود تھی، جو منظم بھی تھی۔ جنگ کے خاتمے کے بعد، امریکہ کی فوجوں کی جنوبی کوریا میں موجودگی کے باوجود، جنوبی کوریا کی لیبر پارٹی، جو کمیونسٹ پارٹی کی جنوبی کوریا کی برانچ تھی، جنوبی کوریا کو متحد کرنے کی مسلح کوشش کرتی رہی؛ لیکن ناکام ہو گئی۔ اب اگر امریکہ کوریا چھوڑتا تو اس کے پاس مشرق میں صرف جاپان رہ جاتا۔ سویئت یونین بھی کوریا کے اندر کمیونسٹ پارٹی کے ذریعے پورے کوریا کو متحد کرنا چاہتا تھا، جبکہ امریکہ کی حمایتی کوئی بھی جماعت نہیں تھی۔ سویئت یونین ابھی کوشش کر ہی رہا تھا کہ امریکہ نے ۲۶ فروری ۱۹۴۸ءکے دن اقوام متحدہ سے ایک قرارداد پاس کروا لی،جس کے ذریعے جنوب کے حصے میں ۱۰ مئی ۱۹۴۸ء کو صدارتی الیکشن کروا کر کوریا کی تقسیم کو ایک قانونی شکل دے دی گئی۔ (طاغوت ہمیشہ قانون کی غلط تشریع کے ذریعے ہی ملکوں کو توڑتا ہے)
یاد رکھیں ابھی تک شمال میں تقسیم کا کوئی اعلان نہیں ہوا تھا اور نہ ہی سویئت یونین نے اقوام متحدہ میں ایسی کسی قرارداد کو پیش کیا تھا۔ جنوب میں الیکشن کروانے کا سارا کام امریکہ نے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے کروایا، (اقوام متحدہ اور امریکہ کا وہی رشتہ ہے، جو پاکستان میں چیف منسٹر اور پنجاب پولیس کا ہے) جس کے نتیجے میں اقتدار ۱۵ اگست ۱۹۴۸ء کو مسٹر سینگمن ری کو دے دیا۔ (کوریا میں پیدا ہوئے، لیکن امریکہ میں تربیت حاصل کی، تعلق چوسن شاہی خاندان سےِ تھا)
مسٹر سینگمن ری کی سیاست سامراج کے ایک مہرے سے زیادہ کی نہیں تھی، جس کی حکومت کو قائم رکھنے اور کمیونسٹ نظریات کی حامل لیبر پارٹی سے بچائے رکھنے میں امریکہ ہمیشہ مدد کرتا رہا، جو الیکشن کے بعد بھی جنوبی کوریا میں موجود تھی۔ مسٹر سینگمن ری کی حیثیت ایسے ہی تھی، جیسے نوآبادیات کے خاتمے کے بعد پاکستانی حکمرانوں کی تھی، یا آج کل کے افغانستان اور لیبیا کے حکمرانوں جیسی۔جنوب کا جو آئین بنا وہ امریکی نظریات کا چربہ تھا۔
اب جبکہ شمال کے دھڑے کو محسوس ہو گیا کہ تقسیم واپس نہیں ہو سکتی تو تب جا کر ۹ستمبر ۱۹۴۸ء کو شمالی کوریا کی الگ حکومت کا بھی اعلان کردیا گیا۔
آزادی کے بعد امریکہ کی فوجیں وہاں موجود رہیں اور وہاں ایک ایسے مائینڈ سیٹ کی تیاری کی گئی، جو سامراج دوست ہو۔ اس کے بعد امریکہ نے خود کو کورین قوم کے مسیحا کے طور پہ خود کو پیش کیا، جبکہ جاپان اور کمیونسٹ پارٹی کو جنوبی کوریا کے دشمن کے طور پہ پیش کیا، حالانکہ جاپان نے قبضہ کے باوجود کوریا کو تقسیم نہیں کیا اور صنعتی انقلاب بھی جاری رکھا۔امریکہ نے جنوبی کوریا کے اندر تمام کمیونسٹ ہمدرد لوگوں کو ختم کیا۔ ایک مخصوص مذہب کی ترویج پہ اربوں ڈالر لگائے گئے، جو خطے کی تاریخ سے کوئی تعلق نہیں رکھتا تھا۔ اس مذہب کی ترویج کے بعد اب کوریا کے دونوں دھڑے کبھی بھی ایک سماجی نظام میں نہیں بندھ سکتے۔
ان سارے واقعات کو ملائیں تو آپ آسانی سے سمجھ جائیں گے کہ کس طرح سامراج اپنے حمایتی بناتا ہے، کس طرح بین الاقوامی اداروں کو استعمال کیا جاتا ہے اور کس طرح مصنوعی تقسیم کو مستقل بنانے کے مذہبی طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔