پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے انداز میں عوامی رابطے بحال کرنے کے لیے پنجاب میں مہم کا آغاز کردیا ہے۔ مسلم لیگ (ن)، پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی اپنے انداز میں تین مختلف سیاسی ثقافتوں کی مالک ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی تاریخ بھرپور عوامی جدوجہد، عوامی مزاحمت، حکمران طبقات، بشمول اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جدوجہد سے عبارت ہے۔ مسلم لیگ (ن) ، روایتی طرزِ سیاست وجدوجہد کی تاریخ رکھتی ہے۔ عوامی جدوجہد یا مزاحمت سے اس جماعت کا کبھی کوئی تعلق نہیں رہا۔ پاکستان تحریک انصاف کا ظہور اچھے دنوں میں ہوا، جب ریاستی جبر اپنی گرفت توڑ چکا ، اس لیے اس جماعت کے خمیر میں وہ مزاحمت، عوامیت اور جہد موجود نہیں جو پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے احتجاج، مظاہرے اور دھرنے جمہوری زمانے میں برپا ہوئے اور جماعت کے مظاہرے نئی مڈل کلاس کے مرہون منت ہے، کارپوریٹ مڈل کلاس۔ ملک میں پچھلے چار سالوں میں جو احتجاج برپا ہوئے، اس میں پی ٹی آئی نمایاں رہی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کردئیے جانے کے بعد نیا ظہور ہوا۔ جناب آصف علی زرداری کی قیادت میں اُن کی سیاست کی ہیئت ترکیبی میں وہ جہد شامل ہی نہیں جو اس جماعت کے بانی ذوالفقار علی بھٹو، بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی قیادت میں موجود تھی۔ وہ مفاہمت کا اپنا ایک انداز متعارف کروانے میں معروف ہوئے ہیں۔ جس میں انہوں نے ظہورالٰہی کے خاندان سے لے کر نوازشریف کے خاندان تک تعلقات استوار کرکے سیاست اور اقتدار کا ڈھانچا کھڑا کیا۔ وہ پی پی پی کو اپنے انداز میں چلانے کے درپے ہیں۔ اسی لیے ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ محلاتی رابطوں میں مصروف ہیں۔ بلوچستان، سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا تک اور امکانات ہیں کہ وہ ان رابطوں اور حکمت عملی سے 2018ء میں حیران کن کامیابیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس سارے معاملے میں اُن کی سب سے بڑی خوش نصیبی ایک ایسی جماعت ہے جس کی شان دار تاریخ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ نہایت کمزور ہوجانے کے بعد بھی عوام میں اثر رکھتی ہے۔ اس اثر کو مزید تقویت دینے کے لیے انہوں نے ایک طرف اپنی آمد سے پہلے بلاول بھٹو زرداری کو عوامی رابطوں کے مواقع دئیے، جس کے دوران بلاول کے گرد ترقی پسندی اور عوامی سیاست کی طفلانہ خواہشات رکھنے والے کچھ لوگ اکٹھے بھی ہوئے اور اس کے نتیجے میں پی پی پی نے ایک سیاسی تحرک بھی پیدا کیا، لیکن ملک واپسی کے بعد جناب آصف علی زرداری کی اس تقریر نے درحقیقت اپنا سیاسی ایجنڈا انائونس کردیا کہ میں اگلی قومی اسمبلی میں شامل ہوں گا۔
یہ ایک مکمل حکمت عملی کا اعلان تھا، ایک ایسی حکمت عملی جس کے تحت وہ 2018ء کے بعد اپنی حکومت بنانے میں سرگرداں ہیں اور انہوں نے پنجاب، بلوچستان اور سندھ میں محلاتی رابطے بھی تیز کردئیے ہیں، اس حکمت عملی کے تحت پنجاب سے فیصل صالح حیات اور خالد کھرل پارٹی میں دوبارہ شامل کیے گئے اور اگر وہ اسی رفتار سے چلتے رہے تو یقینا ایسے کئی ’’سنگ میل‘‘ وہ طے کرلیں گے جو اُن کے اقتدار کو قریب تر کردیں گے۔ اس حکمت عملی کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی عوامی شناخت کو بہتر کرنے کے لیے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں وفاق اور پنجاب کو بھی ٹارگٹ کرنا شروع کردیا ہے۔ ان کی اس حکمت عملی کے سبب پنجاب میں عوامی سیاست کا خواب دیکھنے والے پی پی پی کے کارکن تاریخ دہرائے جانے کی آہٹ محسوس کررہے ہیں۔ اسی کے نتیجے میں لاہور اور پنجاب کے مختلف شہروں میں پی پی پی پنجاب اپنا وجود سڑکوں پر دکھانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ یوں آصف علی زرداری سیاست کے دو محاذوں پر سرگرم ہیں۔ محلات اور عوام۔ یعنی سیاسی خاندان، انتخابات جیتنے والے لوگ اور سیاسی اثرورسوخ رکھنے والے خاندان اور اپنے انداز میں عوامی رابطے۔ پنجاب پی پی پی کے نئے عہدے داران بیشتر وہ لوگ ہیں جو اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست کو سنا، اور چاہا لیکن وہ اس جدوجہد کا عملی حصہ نہیں رہے۔ نسلاً وہ بعد کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں، انہوں نے بے نظیر بھٹو کے ساتھ سیاست تو کی لیکن بہت آخری صفوں میں، لیکن 2008ء کے بعد انہوں نے عملاً آصف علی زرداری کے اقتداروحکومت میں ہی پر کھولے۔ وہ یقینا اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر پی پی پی کی پنجاب میں چھینی عوامی ساکھ کو بحال کرنے میں کوشاں ہیں، لیکن انہیں ابھی یہ ثابت کرنا ہوگاکہ اُن میں پی پی پی جیسی شان دار عوامی جدوجہد اور مزاحمت رکھنے والی جماعت کی تنظیم سازی اور عوامی رابطوں کا تجربہ ہے کہ نہیں۔ جو لوگ آج کے دور کو میڈیا کا دور کہتے ہیں، وہ غلط نہیں۔ لیکن سیاست آج بھی عوام کے قدموں تلے ہی ہے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر اگر کوئی لیڈر شان دار گفتگو کرکے عوام کو اپنے سحر میں لے لیتا ہے تو یقینا یہ ایک خوبی ہے۔ لیکن آج بھی اہم یہی ہے کہ آپ عوام کو اپنی تنظیم اور رابطوں سے بیدار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ نہیں۔ یہ ٹاسک ٹیلی ویژن کی سکرین پر شان دار گفتگو سے کہیں مشکل ہے۔ اور ٹاسک بھی پی پی پی جیسی جماعت کا، جس کے کارکن اپنی جرأت، جدوجہد سے پہاڑوں کے دل دہلا دینے کی تاریخ رکھتے ہوں۔ پنجاب پی پی پی کے نئے عہدے دار کیا بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید جو پی پی پی پنجاب کے صدر، شیخ رفیق، ڈاکٹر غلام حسین، حنیف رامے، رانا شوکت محمود، ممتاز کاہلوں، ڈاکٹر مبشر حسن حتیٰ کہ جہانگیر بدر جیسی تنظیمی صلاحیتوں کے جوہر دکھلا سکتے ہیں کہ نہیں، یہ انہیں ثابت کرنا ہوگا۔ لیکن میرا اپنا خیال ہے کہ پی پی پی اس جدوجہد کی خواہش ہی نہیں رکھتی جو اس کی ماضی میں پہچان رہی ہے۔ اب تو محل اور عوام ایک نئی سیاست اس جماعت کا عنوان بننے جا رہا ہے اور وہ اس میں کامیاب بھی رہیں گے۔ چوںکہ مقصد اگلی حکومت بنانا ہے، اس کے لیے موجودہ حکومت پر تنقید لازم ہے تاکہ پی ٹی آئی اکیلی اپوزیشن کا کریڈٹ نہ لے جائے۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں شیرپائو سے اتحاد، بلوچستان میں محلاتی رابطے، پنجاب میں انتخابات میں ہمیشہ جیتنے والے اس سیاست کا اوّلین ہدف ہیں اور یہ ذمہ داری آصف علی زرداری نے اپنے ہاتھوں میں لے رکھی ہے۔ عوامی سیاست کا کھیل بلاول بھٹو زرداری اور اُن کے گرد اکٹھے ہونے والے عوامی سیاست کے خوابوں والوں کو دے دیا گیا ہے۔ جناب آصف علی زرداری ’’اعلیٰ رابطوں‘‘ میں یقینا کامیاب ہوں گے۔ وہ طاقت کے تمام مراکز کو یہ یقین دلانے میں بھی کامیاب ہوں گے۔ ہم سے اچھا کون؟ ایسے میں اگر عوامی چاشنی بھی مل جائے تو سونے پہ سہاگہ۔ اُن کا ہدف 2018ء میں مکمل سندھ، مرکز میں فیصلہ کن اقتداری شرکت، صوبہ خیبر پختونخوا اور پنجاب میں اقتدار کی جو ممکن ہو سانجھے داری ہے۔
خوش نصیب آصف علی زرداری اس پارٹی کے قائد ہیں جس کا بانی عوام کے لیے سُولی پر جھول گیا، جس کے کارکن سولیوں پر جھولے، آگ میں خاکستر بھی ہوئے اور سڑکوں پر ٹکٹکی لگاکر اُن کی پشتوں پر کوڑے بھی مارے گئے تاکہ درد کی آواز دوسروں تک پہنچے۔ ایسی پارٹی کی تاریخ رکھنے والا قائد آج بھی یقینا عوام کی یادوں ہمدردیوں اور جذبات کو اپنی جھولی میں ڈال لے تو کوئی انہونی بات نہیں۔ تاریخ اور حقائق بڑے بے رحم ہوتے ہیں اور عوام بڑے فراخ دل۔ ایک ایسی جماعت کا قائد یقینا ان حقائق سے آگاہ ہے اور یوں ان حقائق کو اپنے مستقبل کے لیے بروئے کار لانا مشکل ہے، ناممکن نہیں۔ اور اس سارے تناطر میں جہاں کارپوریٹ مڈل کلاس کی نمائندہ پاکستان تحریک انصاف اور مرکنٹائل مڈل کلاس کی نمائندہ مسلم لیگ (ن) موجود ہو۔ فراخ دل عوام اور خصوصاً سماج کا نہایت پسا ہوا طبقہ آج بھی سولی پر جھول جانے والے ذوالفقار علی بھٹو کو اپنا مسیحا تصور کرتا ہے جو اقتدار کو ٹھکرا کر سامراج اور فوجی آمریت کے خلاف لڑتا ہوا سولی کی طرف لپک گیا۔ اس جماعت کا خمیر انہی پسے ہوئے طبقات سے اٹھا ہے۔ اس جماعت پر سینکڑوں موقع پرست وارد اور قابض ہوچکے ہیں۔ پی ٹی آئی کارپوریٹ مڈل کلاس تک اٹک گئی، اس کے نیچے عوام کے طبقات تک آنے میں قاصر رہی کہ وہاں ذوالفقار علی بھٹو اور اس کے کارکنوں کی شان دار تاریخ حائل تھی۔ اگر پی ٹی آئی اس سرحد کو عبور کرکے کارپوریٹ مڈل کلاس سے سماج کے ان نہایت پسماندہ طبقات تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتی جو آج پاکستان پیپلز پارٹی کی تاریخ کا حصہ بن چکی ہوتی، وہ ایسا نہ کرسکی اور اب چاہے بھی تو نہیں کرسکے گی۔ لہٰذا اس سارے سیاسی، سماجی اور ثقافتی تناظر میں پی پی پی اگلے انتخابات میں یقینا حیران کن نتائج حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی اور انتخابات کے بعد حیران کن فیصلے بھی کرے گی۔ پاکستان کے سول اقتدار میں سب سے بڑی حصے دار۔ رائج جمہوری نظام میں ایسا ہونا کوئی عیب نہیں اور جو لوگ پاکستانی جمہوریت سے سکینڈے نیوین یا مغربی جمہوریت کی تلاش میں ہیں، اُن کی طفلانہ خواہشات پر ہنسا ہی جا سکتا ہے۔ خصوصاً پاکستان کے ’’قومی تجزیہ نگاروں‘‘ پر۔ یہ لوگ نیم کے درختوں پر میٹھے آموں کے پھل تلاش کرنے میں کوشاں ہیں۔ درج بالا تجزیہ پاکستانی جمہوریت اور سماج کی زمینی حقیقت پر مبنی ہے۔