ملائیشیا کے شہر ایپو (IPOH) میں واقع یونیورسٹی ٹیکنالوجی پیٹرو ناز میں تدریس و تحقیق کے فرائض سرانجام دینے والے پاکستان کے قابلِ فخر اُستاد ڈاکٹر فیض احمد کی جانب سے واٹس اپ پر موصول ہونے والی یہ تحریر کس کی محنت شاقہ کا نتیجہ ہے یہ تو میں نہیں جانتا مگر اِس کی مقصدیت اور موضوع کی نزاکت کے پیشِ نظر میں اِس کا کچھ حصہ اور اْس پر اپنے تاثرات نذرِ قارئین کرنے پر مجبور ہوں۔ ملاحظہ ہو۔
’’ٹی وی چینل ہم کے ڈرامہ ’’پاکیزہ‘‘ میں میاں بیوی کے درمیان طلاق ہوجانے کے بعد بیٹی کا بہانہ بنا کر طلاق کو چھپایا گیا اور میاں بیوی ایک ساتھ رہتے رہے جبکہ بیٹی کم سِن نہیں بالغ تھی۔ اے پلس کے ڈرامہ ’’خدا دیکھ رہا ہے‘‘ میں طلاق کے بعد شوہر مْنکر ہوجاتا ہے اور مولوی صاحب سے جعلی فتویٰ لے کر بیوی کو زبردستی اپنے پاس روکے رکھتا ہے جبکہ بیوی اِس کے لیے رضامند نہیں تھی۔ ہم ٹی وی کے ڈرامہ ’’ذرا یاد کر‘‘ میں طلاق کے بعد حلالہ کیلئے لڑکی خود شوہر تلاش کررہی ہے تاکہ اْس سے طلاق لے کر دوبارہ پہلے خاوند کے ساتھ نکاح کرسکے۔ اے آر وائی کے ڈرامہ ’’انابیہ‘‘ میں شوہر بیوی کو طلاق دے کر اْسے چھوڑنے سے انکاری ہوجاتا ہے جبکہ اُس کی والدہ اور بہن اِس امر کی گواہ تھیں۔ لڑکی خلع کا کیس جیتنے کے باوجود اپنی بہن کا گھر بسانے کی خاطر سابقہ شوہر کے ساتھ جانے کے لیے تیار ہوجاتی ہے۔ ہم ٹی وی کے ڈرامہ ’’من مائل‘‘ میں لڑکی طلاق کے بعد والدین کے گھر جانے کی بجائے اپنے چچا اور چچی کی عدم موجودگی میں اْن کے گھر میں اپنے جوان کزن کے ساتھ رہ رہی ہے۔ ہم ٹی وی ہی کے ڈرامہ ’’تمہارے سوا‘‘ میں ایک ملازمت پیشہ لڑکے کے دوست کی بیوی کو کینسر کا مرض لاحق ہوجاتا ہے تو وہ اپنے دوست سے اْس کی بیوی کو طلاق دلوا کر خود اْس سے نکاح کرلیتا ہے تاکہ اْس کے علاج کے لیے کمپنی سے میڈیکل لْون کے لیے اپلائی کرسکے۔ اِس دوران وہ لڑکی عدّت کا دورانیہ پورا کیے بغیر پہلے شوہر کے ساتھ ہی رہتی ہے۔ جیو ٹی وی کے ڈرامہ ’’جورو کا غلام‘‘ میں ایک بیٹے نے اپنے باپ کے کہنے پر بیوی کو طلاق دے دی اور پھر ایک شخص کو نقد رقم دے کر اپنی بیوی سے نکاح کروایا تاکہ دوسرے روز اْس سے طلاق دلوا کر خود دوبارہ نکاح کرسکے‘‘۔
قارئین کرام! شادی ہر معاشرے کے لوگوں کی ضرورت ہے اور سْنتِ نبوی ہونے کے ناتے ہر بالغ و عاقل مسلمان مرد اور عورت پر واجب ہے۔ اِس سی پیدا ہونے والے طلاق اور حلالہ جیسے مسائل خالصتاً شرعی انداز میں حل طلب ہوتے ہیں۔ تاہم ہمارے ڈرامہ نگاروں نے اِس مسئلے کو بچوں کا کھیل سمجھ لیا ہے۔ اِس مسئلے پر جو بھی اْوٹ پٹانگ خیال کسی کے ذہن میں آتا ہے وہ اْسے بِلا سوچے سمجھے کہانی کا حصہ بنادیتا ہے جبکہ ضرورت اِس امر کی ہے کہ ایسے نازک مسائل پر قلم انتہائی احتیاط اور تحقیق کے بعد اْٹھایا جائے۔ پاکستان کے عوام کی واضح اکثریت کا تعلق دیہات سے ہے جن کی تفریح کا سب سے بڑا ذریعہ ٹیلی ویڑن ہے اور ٹی وی تفریح ہی نہیں ناظرین کی بالواسطہ شعوری اور لاشعوری انداز میں تعلیم وتربیت کا حصہ بھی ہے اور پھر ٹی وی گھر کی ضرورت ہونے کے ناتے دیکھا بھی فیملی کے ساتھ جاتا ہے۔ اِس صورتحال میں ٹی وی ڈراموں میں طلاق سے متعلقہ دی جانے والی مذکورہ قسم کی ٹریٹمنٹ کیا ناظرین کے ذہنوں میں شرعی مسائل سے متعلق الجھائو پیدا کرنے کا باعث نہیں بنتی اور کیا حساس لوگوں کے ذوقِ سلیم پر اثر انداز نہیں ہوتی؟ ستم ظریفی یہ ہے کہ تفریح کا سب سے بڑا ذریعہ یعنی ہماری فلم انڈسٹری جب مولا جٹ اور اتھرا گْجر جیسی کہانیوں کی آماجگاہ بن کر تباہ ہوگئی تو سینما گھر، تھیٹر ہالوں میں تبدیل ہوگئے جہاں سٹیج ڈرامے کچھ عرصہ تک شائقین کو صحت مند تفریح مہیا کرتے رہے مگر جب وہاں بھی مزاح کے نام پر عامیانہ جگت بازی شروع ہوگئی اور رقص ہیجان خیز جسمانی حرکات میں بدل گیا تو لوگ اْدھر سے بھی منہ موڑ گئے اور اب ماشااللہ ٹی وی ڈرامہ بھی فلم اور سٹیج ڈرامے کی طرح روبہ زوال ہے۔ فلموں کے لیے باقاعدہ ایک سنسر بورڈ ہے، سٹیج ڈراموں کا قبلہ درست رکھنے کے لیے ایک صوبائی محکمہ کبھی کبھار کارروائی ڈالتا نظر آتا ہے اور الیکٹرک میڈیا کو ٹریک پر رکھنے کیلئے بھی پیمرا جیسی اتھارٹی موجود ہے مگر بدقسمتی یہ ہے کہ قوانین ضرور موجود ہیں مگر اْن پر عملدرآمد نام کی کوئی شے کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا ہر شعبہ حیات روز بروز تنزل پذیر ہے۔
تن ہمہ داغ داغ شُد پنبہ کُجاکُجا نہم۔