بچپن سے ہی جن ممالک کو دیکھنے کی خواہش ہوئی، اُن میں لبنان بھی شامل تھا۔ اور پھر یہ خواہش بے تابی میں اس وقت بدل گئی جب لبنان خانہ جنگی کا شکار ہوا۔ عالمی اور علاقائی طاقتوں نے اس خانہ جنگی میں بلاواسطہ اور بالواسطہ اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ امریکہ، اسرائیل، شام، ایران، لیبیا اور دیگر ممالک سمیت۔ اردن میں قیام کے دوران جب یاسر عرفات کی قیادت میں فلسطینی ، اسرائیل کو شکست دینے کے قریب ہوگئے تو عرب حکمرانوں کی سازشوں نے اس فلسطینی فتح کو شکست میں بدل دیا۔ اس کے بعد ساری فلسطینی قیادت کو لبنان منتقل ہونے پر مجبور کیا گیا کیوںکہ عالمی طاقتوں نے جلد ہی لبنان کو جنگ کا میدان بنانا تھا۔ جنت الارض کو جہنم بنانے میں کس کس نے اپنا کردار ادا کیا، یہ ایک دل خراش داستان ہے۔ میری سیاسی جہاں گردی لبنان کے لیے ہروقت دل میں مچلتی رہی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جب اسرائیل نے لبنان اور اس کے دارالحکومت بیروت پر یلغار کردی تو ہمارے کئی ساتھی جو پاکستان میں جمہوریت کی جدوجہد کررہے تھے، وہ صیہونی اسرائیلی جارحیت کے خلاف جنگ کرنے لبنان چلے گئے، جن میں میرا بہادر اور پیارا دوست آغا ندیم سرفہرست ہے۔
جب میں پہلی مرتبہ لبنان کے رفیق حریری ایئرپورٹ اترا تو میری آنکھیں بے چین تھیں مزاحمت اور بہادری کے اُن نشانات کو دیکھنے کو جو لبنانیوں نے سردھڑ کی بازی لگا کر تاریخ میں ثبت کردئیے۔ بیروت جس کی راتیں اور کلب دنیا بھر میں مشہور ہیں، لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس بستی کے دانشور، ادیب، لیڈر، استاد، فنکار، گلوکار اور مزاحمت کار بھی دنیا میں بے بدل ہیں۔ آسمان پر اڑتے جہاز سے بے قرار آنکھیں صابرہ و شتیلا کے فلسطینی مہاجر کیمپ، سپورٹس سٹیڈیم اور ان گلیوں کی تلاش میں تھیں جنہوں نے میرے بچپن میں میرے دل و دماغ کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ جہاز نے سرزمین لبنان کو چھوا تو مجھے یوں لگا جیسے میں نے اپنی روح کو چھو لیا کہ اسی سرزمین کی بیٹی ریما عبداللہ میری شریک حیات ہیں جن کے والد کامل عبداللہ نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف اپنے قلم، فکر اور عمل سے اہم کردار تو ادا کیا، ساتھ ہی سب سے انمٹ کردار یہ کہ انہوں نے اپنے دوست کمال جنبلاط کے ساتھ مل کر لبنان کو ایک شان دار سیاسی جماعت بنا کر دی، پروگریسو سوشلسٹ پارٹی جو آج بھی لبنان کی اہم ترین سیاسی جماعت ہے۔ شام ہونے سے پہلے ہم ریما کی والدہ ڈاکٹر ہدیٰ عدرہ کے گھر تھے، بحیرۂ روم کنارے، بیروت کا حسین ترین علاقہ، الروشے۔ ریما نے پوچھا، بیروت میں سرفہرست کیا کرو گے؟ میں نے کہا، صابرہ و شتیلا، سپورٹس سٹیڈیم، بیروت کی گلیاں جہاں جارج حباش، یاسر عرفات سمیت ہزاروں فدائین کے قدموں کے نشانات ہیں اور ومپی کیفے۔ بیروت اور لبنان کو خوب دیکھا اپنی آنکھوں سے اور ریما کے سنائے دل دہلا دینے والے واقعات سے۔ وہ خانہ جنگی میں پلی بڑھیں اور گواہ ہیں ان واقعات اور جنگ وجدل کی جس نے دنیا کو دہائیوں اپنی طرف متوجہ کیے رکھا۔ بیروت جتنا خوب صورت قدرت نے تخلیق کیا ہے، اسی قدر اس بستی کے لوگوں نے بھی اس کی خوب تعمیر کی۔ خوب صورت لوگوں کی بستی۔ اسی شہر میں پاکستان کے عظیم اشتراکی شاعر فیض احمد فیض اپنے قلم کے ذریعے جدوجہد کرتے جا بسے، بیروت کے سب سے پسماندہ محلے الضاحیۃ، تنگ گلیوں کے اندر، جہاں کے لوگوں نے تاریخ ساز مزاحمت کی تاریخ رقم کی۔ اس خوب صورت بستی کو کس نے نہیں روندا، اسرائیل امریکہ سمیت۔ وہ چھٹا بحری بیڑا جس کی امید پر ہماری قوم اور حکمران اپنا آدھا ملک بچانے کی آس لگائے بیٹھے تھے، دنیا کے اس تباہ کن بحری بیڑے نے بیروت پر جو گولے برسائے، ان کو ریما اور ان کی والدہ نے اپنے اردگرد گرتے دیکھا۔ ریما کا کہنا ہے کہ اس چھٹے بحری بیڑے کی گھن گرج میرے کانوں میں مرتے دم تک گونجتی رہے گی۔ اس خانہ جنگی اور غیرملکی یلغاروں نے جنت الارض کی 15فیصد آبادی کو لقمہ اجل بنا دیا اور آدھے سے زیادہ ہجرت پر مجبور ہوئے۔ جو وہیں رہے اور بچ گئے، ان میں میری شریک سفر ریما عبداللہ گوئندی بھی شامل ہیں۔
بیروت کی جہاں گردی میری زندگی میں دل دُکھا دینے والے تجربات رکھتی ہے، لیکن یہ بھی کہوں کہ دل بڑھا بھی دیتی ہیں اس شہر کی مزاحمتی داستانیں، جہاں ولید جنبلاط کا بیٹا کمال جنبلاط دن کو دراز زلفوں کو لہراتا جہازی سائز کا موٹر سائیکل دوڑاتا پھرتا تھا اور شام ڈھلے کندھے پر کلاشنکوف لٹکائے غیرملکیوں کو ناکوں چنے چباتا تھا۔ لبنانی ایک زندہ قوم ہیں، جینے کا فن بھی خوب آتا ہے ان کو اور لڑنے کا بھی۔گلی گلی زخمی ہے بیروت کے مکانوں کی گولیوں، بموں اور راکٹوں کے ساتھ۔ خون کے نشانات ابھی بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس شہر کی داستانِ مزاحمت میں اس شہر کے دانشوروں اور قہوہ خانوں کا جو کردار ہے، وہ شاید ہی دنیا کے کسی اور قہوہ خانوں کے حصے میں آیا ہو۔ ان میں سرفہرست ہے کیفے ومپی۔ یہیں سے اسرائیل کی پسپائی کا آغاز ہوا تھا۔ حمرا سٹریٹ بیروت کے کافی ہائوسز، قہوہ خانوں اور وہاں پر بیٹھنے والے دانشوروں، مفکروں، ادیبوں، لیڈروں کے حوالے سے جانی جاتی ہے۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سب دانشور، گلوکار، فنکار اسرائیل کی یلغار کے بعد مزاحمت کار بن کر ابھرے۔ خصوصاً کمیونسٹ، سوشلسٹ اور قوم پرست۔ انہوں نے اسرائیلی یلغار کے خلاف جو مزاحمت کی، وہ لبنان کی جنگِ مزاحمت میں سب سے نمایاں ہے۔ چوںکہ انہوں نے مذہب اور فرقہ سے بلند ہوکر صیہونیت کے خلاف بندوق اپنے کندھوں پر لٹکا کر بیروت کی گلیوں میں داستانیں رقم کر دیں۔ فیروز اور ماجدہ الرومی کی آواز میں گائے گیت ان کی طاقت تھے اور مشہور اشتراکی گلوکار، شاعر اور موسیقار مارسیل خلیفہ کی دھنیں اُن کی مزاحمت کی دھنیں تھیں بیرونی یلغار اور اندرونی خانہ جنگی کے خلاف۔
میں اکثر ریما اور اُن کی ہمشیرہ ڈاکٹر مائے عبداللہ سے لبنان کی جنگ کی کہانیاں، واقعات اور شاہکار داستانیں سننے کا خواہاں رہتا ہوں۔ ایک دن ڈاکٹر مائے کہنے لگیں کہ ’’ہم بازار میں اسرائیلیوں کو کندھوں پر دنیا کا جدید ترین اسلحہ لٹکائے دیکھتے تھے جو بازاروں میں اس طرح گھومتے تھے جیسے وہ یہاں کے مالک بن چکے ہوں تو خون کھولتا تھا۔ ایک مرتبہ بازار میں خریدوفروخت کرتے ایک اسرائیلی کی بندوق نے میرے بدن کو چھوا تو میں نے شور برپا کردیا۔ اس اسرائیلی بندوق کے لمس سے گھن آئی کہ اس کی نال نے نہ جانے کتنے معصوم فلسطینی، بوڑھے، بچے اور خواتین قتل کیے ہوں گے۔ میرے شور مچانے پر وہ جس طرح دبکا وہ میرے لیے بڑی خوشی کا سماں تھا۔ کندھے پر طاقتور بندوق لٹکائے خونیں قاتل۔ کیا لطف آیا اسے خوف زدہ دیکھ کر۔‘‘
بیروت کو جس طرح اسرائیل اور امریکہ نے تار تار کیا، وہ ایک دل دہلا دینے والی کہانی ہے۔ مگر یہی وہ شہر ہے جہاں سے امریکی یوں بھاگے جیسے ویت نام سے، خوف زدہ، اپنی جانیں بچا کر۔ گیت نگاروں اور فنکاروں کے بیروت نے بندوق والوں کو عبرت ناک شکست سے دوچار کیا۔ بیروت کی گلیوں میں دندناتے اسرائیلی سپاہی اس دن کو کبھی نہیں بھلا سکتے جب حمرا سٹریٹ کے کیفے ومپی میں کافی کی چسکیاں لیتے تین اسرائیلیوں کو بیروت کے ایک انیس سالہ نوجوان کامریڈ خالد علوان نے 24ستمبر 1982ء کو راکٹوں سے حملہ کرکے ہلاک کردیا کہ ان کیفے کا ان اسرائیلی قاتلوں سے بھلا کیا تعلق، جہاں مفکر، ادیب، فنکار، گلوکار، شاعر اور سیاسی رہنما بیٹھتے ہیں۔ کامریڈ خالد علوان شہید، لبنان کی ایک سوشلسٹ جماعت شامی سوشلسٹ نیشنلسٹ پارٹی (SSNP) کا رکن تھا۔ خالد علوان نے تین اسرائیلیوں کو جب ومپی کیفے میں پھڑکایا تو اسرائیلیوں کو یقین ہوگیا کہ اب وہ بیروت پر اپنا قبضہ برقرار نہیں رکھ سکتے۔ ’’ومپی کیفے آپریشن‘‘ کے نام سے جانی گئی اس مزاحمت نے صیہونیوں کے چھکے چھڑا دئیے۔ جدید اسلحے سے لیس اسرائیلی فوج نے پسپائی کا فیصلہ کیا جس کا آغاز بیروت کے ایک کیفے سے ہوا۔ صابرہ و شتیلہ کے مہاجر کیمپ کی زیارت کے بعد جب میں نے خود کو اس کیفے میں کھڑے پایا تو یوں لگا جیسے وقت تھم گیا ہو، ومپی کیفے میں۔ مگر نہیں۔ زندہ قومیں تاریخ میں نہیں رہتیں بلکہ وہ تاریخ رقم کرتی ہیں اور حال میں رہتی ہیں اور مستقبل کو دیکھتی ہیں۔ آباد ومپی کیفے کی میزوں کے گرد جابجا بیٹھے دانشور اس زندہ قوم کا ثبوت تھے جس کے لیے خالد علوان نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر حملہ آوروں کو عبرت ناک مثال بنا دیا۔ شہید خالد علوان کو پیچھا کرتی خفیہ آنکھوں نے 1985ء میں ہمیشہ کے لیے امر کردیا۔ آج کیفے ومپی اور حمرا سٹریٹ ہر وقت شہید خالد علوان کے پوسٹرز سے سجی رہتی ہے۔ خالد علوان کی تصاویر پر مبنی یہ پوسٹر دھوپ اور بارش سے اکھڑ جائیں تو فوراً ان کی جگہ نئے آویزاں کر دئیے جاتے ہیں۔ آئو ریما، کیفے ومپی میں اس آزادی سے لطف اندوز ہوں جس کے لیے اس نوجوان نے جرأت کا مظاہرہ کرکے اس کیفے، شہر اور ملک کو آزادی دلائی اور حملہ آوروں کو شکست سے دوچار کردیا۔ اب کیفے ومپی میرے سفر بیروت کا لازمی جزو ہے، ایسا کیفے جہاں مزاحمت کی داستان کا آغاز ہوا۔