• کوئی سوال ہے؟
  • 923009426395+
  • darulshaour.magazine@gmail.com
مذہبی باریکیاں — تحریر: ایم بی انجممذہبی باریکیاں — تحریر: ایم بی انجممذہبی باریکیاں — تحریر: ایم بی انجممذہبی باریکیاں — تحریر: ایم بی انجم
  • صفحہ اول
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • قرآنیات
  • تاریخ و فلسفہ
  • تعلیم | تربیت
  • انتخاب
  • شخصیات | انٹرویوز
  • کالم
  • کتابوں پر تبصرے
  • یوٹیوب چینلز
    • “Hakayat O Rawayat”
      حکایات و روایات
    • “Darulshaour Audio Books”
      دارلشعور آڈیو بکس
    • آڈیوز/ وڈیوز
  • آن لائن کتابیں
✕

مذہبی باریکیاں — تحریر: ایم بی انجم

  • صفحہ اول
  • بلاگ
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • مذہبی باریکیاں — تحریر: ایم بی انجم
بی آر ایف اور مستقبل کے چیلنجز — تحریر: مدثر گل
مئی 28, 2017
انسانی منشور، خطبہ حجتہ الوداع — تحریر: ڈاکٹرحافظ محمد ثانی
مئی 28, 2017
Show all

مذہبی باریکیاں — تحریر: ایم بی انجم

میرے زمانہ لڑکپن میں بھی جمعہ کا دن ہفتہ (Week) کا ایک عام دن ہوا کرتا تھا۔ میں گائوں سے چل کر میاں چنوں شہر کی جامع مسجد میں نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لیے جاتا، جہاں ہزاروں نمازیوں سے نماز سے قبل اور بعد میں ملاقات ہوتی مگر کبھی کسی ایک شخص کے منہ سے بھی ’’جمعہ مبارک‘‘ کے الفاظ سننے کو نہیں ملتے تھے۔ آج پچاس پچپن برس بعد پاکستان کی کسی بھی مسجد میں نمازِ جمعہ کے لیے چلے جائو، ہر نمازی دوسرے کو ملتے ہوئے جمعہ کی مبارکباد دے رہا ہوتا ہے۔ اِس پر مستزاد یہ کہ اُس روز صبح ہی سے سوشل میڈیا پر جمعتہ المبارک کے اتنے پیغامات موصول ہونے شروع ہوتے ہیں کہ دوپہر تک موبائل فون پر سٹوریج فُل کا سندیسہ مل جاتا ہے اور ایسے پیغامات کے ساتھ کئی اقوالِ زریں اور احادیثِ نبوی بھی نقل کی گئی ہوتی ہیں جن میں جمعہ کے دن کی فضیلت بیان کی گئی ہوتی ہے۔ میرا اپنے اہلِ ایمان بھائی بہنوں سے سوال ہے کہ کیا نصف صدی قبل تک جمعہ بھی ہفتے کے دیگر دنوں کی طرح ایک عام دن ہوا کرتا تھا یا کہ اُس وقت تک مسلمانوں کو دوسرے دنوں کے مقابلے میں اِس کی اہمیت و فضیلت کا علم واحساس نہیں ہوا تھا؟ اِسی طرح چند عشرے قبل تک جب دوست احباب میں سے کوئی ہم سے جُدا ہورہا ہوتا تھا تو اُسے ’’خدا حافظ‘‘ کے الفاظ سے الوداع کیا جاتا تھا مگر اب یہ اصطلاح بھی بدل کر ’’اللہ حافظ‘‘ ہوگئی ہے۔ ہمارے عُلمائے دین کا کہنا ہے کہ قرآنِ کریم میں کہیں بھی خدا کا لفظ نہیں ملتا، خالقِ کائنات کے لیے ہر جگہ اللہ کا لفظ ہی استعمال ہوا ہے۔ علاوہ ازیں یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ عیسائی برادری خداوند کا لفظ حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام کے لیے استعمال کرتی ہے اِس لیے اللہ کو خدا کہنا معیوب ہے۔ جہاں تک اِس بات کا تعلق ہے کہ قرآنِ کریم میں کہیں بھی خدا کا لفظ استعمال نہیں ہوا تو یہ کوئی معقول دلیل اِس لیے نہیں ہے کہ خدا عربی کا نہیں فارسی زبان کا لفظ ہے جو وہاں سے اردو میں مستعمل ہوا ہے۔ اِس لیے قرآن میں کسی غیر عربی لفظ کی گنجائش ہی کہاں تھی۔ اِس دلیل کو مزید پرکھا جائے تو پھر ’’نماز‘‘ کا لفظ بھی پورے قرآن مجید میں کہیں نہیں ملتا۔ اُس کے لیے بھی صلوٰۃ کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے تو پھر کیا ہم نماز کے لفظ کو بھی ترک کرکے اُس کی جگہ صلوٰۃ کا لفظ استعمال کیا کریں۔ وضاحتاً میرا مطلب یہ ہے کہ جس طرح عربی لفظ صلوٰۃ کا اردو ترجمہ نماز ہے اُسی طرح عربی لفظ اللہ کا اردو ترجمہ خدا ہے۔ اِس ضمن میں مرزا غالب سے لے کر احمد ندیم قاسمی تک بے شمار قادر الکلام شعرائے کرام کے کلام سے ہزاروں مثالیں دی جاسکتی ہیں جن میں ربِ کریم کے لیے خدا کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ یہاں میں صرف مفکّرِ اسلام علّامہ اقبال کے کلام سے مندرجہ ذیل مثالیں پیش کروں گا ؎
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
یہاں تک کہ علاّمہ نے تو ’’خداوند‘‘ کی اصطلاح بھی اللہ تبارک و تعالیٰ کے استعمال کی ہے ؎
خداوند یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے، سلطانی بھی عیاری
ہوا یہ ہے کہ ہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ’’نیم حکیم خطرہ جان نیم مُلاّ خطرہ ایمان‘‘ جیسے محاورے کے نصف آخر کا شکار ہوتے چلے گئے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں کوئی اَن پڑھ یا نیم خواندہ شخص اگر قرآنِ حکیم کی چند سورتیں حفظ کرلے اور اُسے چند لوگوں کے سامنے بولنا آجائے تو بآسانی کسی نہ کسی مسجد کی امامت سنبھال سکتا ہے اور وہاں بولنا چونکہ صرف اُسے ہی ہوتا ہے، اِس لیے وہ اپنے آپکو عالمِ دین کے منصب پر فائز کرکے ہی سنی سنائی بات کو بغیر کسی تحقیق کے لوگوں کے گوش گزار کرتا چلا جاتا ہے اور ہمارے وہ علمائے کرام جو علومِ اسلامیہ میں ڈاکٹریٹ جیسی ڈگریاں لیے ہوئے ہیں وہ اپنی علمیت کے اظہار میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے چکر میں ایسی ایسی باریکیوں کے سمندر میں غوطہ زن ہورہے ہوتے ہیں کہ عقلِ سلیم اُن پر ماتم کرتی دکھائی دیتی ہے۔ جمعتہ المبارک اور خدا اور اللہ والی بحث جیسی باریکیاں ایسے ہی فاضل علمائے کرام کی پیدا کردہ ہیں اور ہمارے عوام کی اکثریت چونکہ کم علمی اور جہالت کے سبب مذہبی مسائل سے بے بہرہ ہے اِس لیے وہ ایسی باریکیوں کو علم وحکمت سمجھ کر اپناتی چلی جاتی ہے جبکہ عقل و شعور کا تقاضا ہے کہ مذہب سے متعلقہ حساس امور کو تحقیق و تجسس اور غوروفکر کی کسوٹی پر پرکھ کر ہی اپنانا چاہیے۔

مناظر: 255
شئیر کریں
vicky
vicky

Related posts

جون 13, 2022

عمران خان کا یہ قصور کم نہیں تھا!


مزید پڑھیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

✕

اقسام

  • قرآنیات
  • سیرت النبی
  • امروزیہ | آج کی تحریر
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاست | معیشت
  • شخصیات | انٹرویوز
  • تعلیم | تربیت
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خواتین کارنر | صحت
  • اردو ادب | لٹریچر
  • انتخاب | نادرتحریریں
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کتابوں پر تبصرے
  • Uncategorized

تازہ ترین پوسٹس

  • 0
    پیغام ابراہیم
    جولائی 12, 2022
  • 0
    عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
    جولائی 11, 2022
  • 0
    مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
    جولائی 8, 2022

حالیہ تبصرے

  • جون 7, 2022

    M Abbas Shad commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

  • جون 5, 2022

    امیر حمزہ وٹو commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

Array

اہم ضوابط

اکاؤنٹ

پالیسی و ترجیحات

اغراض و مقاصد

نئے لکھنے والوں کے لئے

تازہ تحاریر

  • پیغام ابراہیم
  • عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
  • مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
  • تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
  • سرسید اور حقوق نسواں

رابطہ

موبائل نمبر : 03009426395

فون نمبر : 04237239138

ای میل : da******************@***il.com

پتہ: دارالشعور 37.مزنگ روڈ لاہور

تعارف

"دارالشعورمیگزین" دارالشعور پبلیکیشنز کا ایک ذیلی پلیٹ فارم ہے۔ جو دارالشعورپبلیشرز اور مطبوعات مکی دارالکتب کے ترجمان سہ ماہی مجلے "الصدق" لاہورکی ترقی یافتہ شکل اور ماہنامہ رسالہ "دارالشعور،لاہور"کا ایک متبادل میگزین ہے۔ جو اب ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سوفٹ کاپی کی شکل میں آن لائن شائع ہوتا ہے۔اور اس میں کتابوں پر تبصروں اور تعارف کے علاؤہ مختلف سماجی ،سیاسی اور علمی موضوعات پر آپ کی خدمت میں معیاری مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ جو دارالشعورکے ہم خیال منصفین کی قلمی کاوشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز کو توانا بنانے کے لیے دارالشعور میگزین میں اپنے مضامین،تجزیے اور تبصرے بھیج کر ہماری ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ دارالشعور پبلیکیشنزکی آفیشل ویسائٹ کو نیچے دیئے گئے لنک کو کلک کرکے ویزٹ کرسکتے ہیں۔ www.darulshaour.com

دارالشعور میگزین © 2022
اکاؤنٹ