ذوالفقار علی بھٹو پچاس کی دہائی میں اقتدار کی سیاست میں داخل ہوئے۔ ایوب خان کے عروج کے وقت وہ پاکستان کے پہلے مقبول وزیرخارجہ اور پھر 1971ء میں صدر اور 1973ء میں وزیراعظم بن گئے۔ 5جولائی 1977ء کو جب اُن کو اقتدار سے نکالا گیا، اُس وقت تک عام آدمی تو کجا اہم سیاسی وصحافتی حلقوںمیں بھی اُن کے بچوں کے ناموں سے لوگ آگاہ نہیں تھے۔ ایک ایسا شخص جس کے خون میں سیاست دوڑتی تھی، اُس نے اپنے چاروں بچوں کو حکومتی سرگرمیوں سے دُور رکھا۔ انہوں نے اپنے تین بچوں بے نظیر، مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو کی اس دوران سیاسی تربیت کا عمل تو شروع کیا لیکن حکومت، اقتدار، مراعات اور پبلسٹی کے بغیر۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس سیاسی تربیت میں صرف بے نظیر ہی تھیں، اُن کا مطالعہ اور معلومات نہایت محدود ہیں۔ بے نظیر بھٹو مختلف وجوہات کے سبب عملی سیاست میں بہت آگے نکل گئیں، اس لیے مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو کے نام حالات کی ستم ظریفی میں دب گئے۔ اہم بات یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے بحیثیت صدر اور وزیراعظم اپنی بیٹی بے نظیر کو حکومتی مراعات کے قریب بھی پھٹکنے کا موقع نہ دیا۔ بے نظیر بھٹو سیاسی تربیت کے سلسلے میں دفتر خارجہ میں ایک عرصے تک عام حیثیت سے ایک پراجیکٹ سے منسلک رہیں اور اسی طرح پاکستان ٹیلی ویژن سے ایک پروگرام بھی ہوسٹ کیا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے ایک اہم رہنما جناب ممتاز کاہلوں مرحوم اُن لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے پنجاب کی گلی گلی میں سیاست کی تربیت حاصل کی، شدید گرمی کے موسم میں اُن کو اور شاید میاں ساجد پرویز کو وزیراعظم نے حکم دیا کہ بے نظیر بھٹو کو پنجاب کے مختلف شہروں میں لے جایا جائے اور اُن کی پیپلزپارٹی کے کارکنوں سے میٹنگز کروائی جائیں۔ اس کے لیے سرکار کی گاڑی استعمال نہیں کی گئی بلکہ گاڑی کا انتظام بھی میاں ساجد پرویز اور ممتاز احمد کاہلوں کے ہی ذمے تھا۔ وزیراعظم کی بیٹی کی سیاسی تربیت کے لیے پنجاب کے کسی بھی ضلع کے متعلقہ افسر کو اطلاع نہیں کی گئی۔ گاڑی بغیر ایئرکنڈیشن کے تھی اور جون جولائی کے گرم مہینوں میں ایک ایسے سیاسی رہنما کی بیٹی کو اس تپتے سفر پر روانہ کیا گیا جس کے لیے اس رہنما کے چاہنے والے اپنے وقت کی جدید گاڑیوں کی قطار لگا دیتے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ بعد میں اسی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو نے پھانسی کی کوٹھڑی سے اپنی بیٹی کے نام ایک خط “My Dearest Daughter” ،میں یہ تاریخی فقرہ لکھا کہ ’’خدا کی جنت ماں کے قدموں تلے اور عوام کی سیاست غریب کے قدموں تلے ہے۔‘‘ پاکستان کے اس مقبول ترین لیڈر، ذہین ترین وزیراعظم اور طبقاتی طور پر جاگیرداری پس منظر رکھنے والے شخص کی یہ لاڈلی بیٹی، اسلام آباد سے لاڑکانہ کیسے سفر کرتی، کبھی اس کا مطالعہ کریں۔ قائدعوام کی بیٹی راولپنڈی سے عام مسافروں کی طرح ٹرین میں سوار کی جاتیں، وزیراعظم ہائوس سے سخت ہدایت تھی کہ بے نظیر کے سفر کی اطلاع نہ صرف صوبہ پنجاب اور سندھ کے افسران سے مخفی رکھی جائے بلکہ پاکستان ریلوے کو بھی اس بارے آگاہ نہ کیا جائے۔ اور جب جاگیردار پس منظر رکھنے والی بے نظیر بھٹو لاڑکانہ کے پسماندہ ریلوے سٹیشن پر پہنچتیں تو اُن کو وزیراعظم کا اعتماد رکھنے والا ڈپٹی کمشنر خالد کھرل اپنی ذاتی گاڑی میں لینے آتا۔ سوائے شملہ معاہدہ کے، ہم لوگوں نے آج تک کسی حکومتی تقریب میں بے نظیر کو اپنے والد وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ہمراہ تصویروں میں کہیں نہیں دیکھا۔ اور اسی طرح مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو کو بھی۔
لوگوں نے پاکستان کی اس مقبول ترین شخصیت کی اِس بیٹی کو پہلی مرتبہ اس وقت دیکھا جب اُس کے والد کو پھانسی لگانے کا اہتمام کیا گیا اور ملک میں ’’آئین کو ردّی کی ٹوکری میں پھینک کر‘‘ جمہوریت مٹا کر جگہ جگہ جمہوریت اور آئین کو بحال کرنے کی کوشش کرنے والوں کو دُرّے مارنے کے لیے ٹکٹکیاں لگا دی گئیں تو اس وقت بے نظیر بھٹو اپنی والدہ نصرت بھٹو کے ہمراہ اِن دُرّے کھانے والوں کے ساتھ شامل ہوگئیں۔ اُن دنوں میں نے اپنے کانوں سے بے نظیر بھٹو کے خلاف آمریت کے ’’علاقائی کارندوں‘‘ کو ننگی اور گندی گالیاں دیتے سنا۔ جب ضیاآمریت کے خلاف کوئی پرندہ تک پر نہیں مار سکتا تھا، تب ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی نے سیاست کی تربیت کا ایک اہم مرحلہ طے کیا۔ اس جدوجہد میں اُن کے ہزاروں سیاسی بھائیوں کی پیٹھوں پر کوڑے مارے گئے اور عقوبت خانے ان کو قید میں ڈالنے کے لیے کم پڑ گئے۔ باپ کو پھانسی دی گئی اور بھائی شاہنواز اور دیگر درجنوں سیاسی بھائی موت کی گھاٹ اتار دئیے گئے، تب جاکر بھٹو کی بیٹی کی سیاسی تربیت مکمل ہوئی۔ اور ہاں ایک بات عرض کردوں، اُن کی تربیت اور اُن کی لیڈرشپ ظہورپذیر ہی نہ ہوسکتی اگر اُن کی والدہ نصرت بھٹو کی جرأت، عمل اور تدبر اُن کے ساتھ نہ ہوتا۔ بے نظیر بھٹو کی سیاست اور قیادت کی تکمیل کا سہرا سراسر نصرت بھٹو کے سر ہے اور یہ تربیت جدوجہد اور حریت سے عبارت ہے۔
نوزشریف چند سال قبل ایک بار پھر وزیراعظم بنے تو یہ اطلاعات حقیقت میں بدل گئیں کہ اُن کی صاحب زادی مریم نوازشریف سیاسی تربیت کے عمل میں داخل ہو گئی ہیں۔ اس دوران میں نے مورخہ 14دسمبر 2013ء کو ایک کالم ’’مریم نواز‘‘ لکھا جس میں مریم نواز صاحبہ کا لاہور کے ایک لبنانی سکول میں بچوں کے داخلے کا واقعہ تحریر کیا جو مجھے اس سکول کی لبنانی سربراہ دنیا نے سنایا تھا۔ یہ ایک واقعہ تھا اور اس واقعے کو لکھنے کا مقصد حقیقت کو سامنے پیش کرنا تھا نہ کہ کسی کی حمایت۔ مریم نوازشریف کا سیاست میں آنا یا اُن کی تربیت کی خبر مجھے نوازشریف صاحب کے اقتدار میں تیسری بار آنے سے بہت پہلے مل چکی تھی۔ اور اس کا مجھے ذاتی طور پر تجربہ اُس وقت ہوا جب 2008ء کے بعد میاں شہباز شریف ایک بار پھر وزیراعلیٰ بنے تو ماڈل ٹائون میں شریف خاندان کے پرانے گھر کو جدید سہولیات سے آراستہ کرکے میڈیا سیل قائم کیا گیا۔ وہاں پر موجود اس میڈیا ہائوس کے ایک ذمہ دار میرے دوست ہیں۔ وہ مجھے اکثر وہاں بلاتے تو مجھے علم ہوا کہ سابق وزیراعظم نوازشریف کی صاحب زادی آج کل سیاسی تربیت حاصل کررہی ہیں۔ اس میڈیا ہائوس کو میں نے پاکستان کا جدید ترین میڈیا ہائوس پایا۔ شاید ہی کسی اور سیاسی جماعت کے پاس اس قدر سہولیات میسر ہوں جو یہاں میسر تھیں۔ مجھے ایک بار پوچھا گیا کہ آپ کی مسلم لیگ (ن) کے اس میڈیا ہائوس کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں تو میں نے عرض کیا کہ بہت جدید سہولیات سے لبریز مگر سیاست سے کوسوں دُور یا سیاسی جماعت کا دفتر کم اور کسی کارپوریٹ کمپنی کا دفتر زیادہ لگتا ہے۔ میرا یہ تجربہ ہے کہ شاید ہی ابھی تک پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کو یہ ادراک ہے کہ آج کی جدید دنیا میں ایک منظم سیاسی جماعت کا دفتر کیسے منظم یا تخلیق کیا جائے۔ جماعت اسلامی کا منصورہ، کسی سیاسی جماعت کا دفتر کم اور حصار یا قلعہ کی تعریف پر زیادہ پورا اترتا ہے۔ ایک بڑی آبادی کالونی کی طرز پر، ایک جزیرہ نما کالونی۔
ماڈل ٹائون لاہور میں اس جدید کارپوریٹ طرز کے مسلم لیگ (ن) کے میڈیا ہائوس میں متعدد رہنما ئوں سے ٹاکرا ہوا اور اس ’’سیاسی دربار‘‘ کے در پر بڑے ادباء اور ’’دانشوروں‘‘ کو باادب کھڑا پایا۔ اور یہ خبریں ملتی رہیں کہ مریم نوازشریف سیاسی تربیت میں تقریر کا فن بھی سیکھنے کی کوشش میں ہیں۔ اس دوران ایک دن اس میڈیا ہائوس کے ایک کرتا دھرتا نے مجھے مشکل صورتِ حال میں فون کیا اور اپنی مشکل بیان کرتے ہوئے کہا کہ فرخ صاحب! ہم بڑی مشکل میں ہیں، تین روز بعدمریم نواز نے مسلم لیگ (ن) کی انتخابی مہم کا آغاز کرنا ہے۔ اس افتتاحی انتخابی مہم میں جو دو پمفلٹس انہوں نے تقسیم کرنے ہیں، لاہور کا کوئی پرنٹر انہیں تین دن میں پرنٹ کرنے کا وعدہ نہیں کررہا۔ مجھے لاہور سے تعلق رکھنے والے اس سیاسی خاندان کی ’’تحریکی‘‘ حقیقت سے اس دن آگاہی ہوئی۔ ہم جیسے لوگوں نے بغیر سرمائے، پولیس اور فوج کے خوف میں راتوں رات پمفلٹ تو کیا ایک کتاب رات بھر میں چھاپ کر تقسیم کرنے کا لطف بھی اٹھایا۔ مسلم لیگ (ن) کے اس جدید میڈیا ہائوس کی ’’سیاسی و تحریکی‘‘ حقیقت اور وہاں پر تربیت پانے والی ’’سیاسی شہزادی‘‘ کا راز مجھے اُن کی اِس بے چارگی سے کھل گیا کہ اس خاندان کا تعلق اسی شہر سے ہے ، ہزاروں پریس یہاں موجود ہیں، پاکستان کی سیاست اور اقتدار پر اِن کا راج ہو اور اِ ن کا میڈیا ہائوس تین دن کے اندر دوپمفلٹ شائع کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ اس طرح اس جدید کارپوریٹ سٹائل میڈیا ہائوس اور مستقبل کی ’’سیاسی شہزادی‘‘ کی سیاست کی حقیقت میرے سامنے کھل گئی۔ خیر، میں دوستیوں پر یقین رکھتا ہوں، اس دوست کو میں نے تین نہیں بلکہ ایک روز میں یہ پمفلٹس پرنٹ کروا دئیے اور کہا، اگر کبھی اِس ملک میں آمریت مسلط ہوگئی تو حکم دیجئے گا یہ کام حکومت، پولیس، فوج اور خفیہ والوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر گھنٹوں میں کردوں گا۔
جب میاں نوازشریف تیسری بار وزیراعظم ہوکر اسلام آباد کوچ کرگئے، مریم نواز بھی اسلام آباد پدھار گئیں۔ خبریں سنتے رہے، سیاسی تربیت جاری ہے لیکن راقم کے نزدیک یہ اقتدار اور حکمرانی کی تربیت تھی، خوب خبریں ملتی رہیں کہ مریم نواز کس قدر اہم ہیں، تقریباً نائب وزیراعظم اور ممکن ہے مستقبل کی وزیراعظم۔ اور پھر ایک روز خبر ملتی ہے ڈان لیکس کی۔ میرے لیے یہ خبر نہیں تھی، اس لیے کہ جب آپ شہزادگی کی تربیت جمہوری نظام میں دیں گے تو ایسے ہنگامے برپا ہوکر رہیں گے۔ مریم نواز بہت طاقتور ہیں مگر کیا سیاسی تربیت مکمل ہوگئی، اس کا جواب پھر کبھی۔ بس اتنا عرض کروں کہ ایک بڑے امتحان میں پاس نہیں ہوسکیں۔ کہاں بے نظیر بھٹو اور کہاں مریم نواز، کوئی مقابلہ ہی نہیں اور کوئی تاریخی تقابل ہی نہیں۔ لکھنؤ کے نوابوں کے چشم و چراغوں کی تربیت اور سیاسی جدوجہد کی تربیت، دو مختلف انداز میں۔ کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ بالکل نہیں۔