یہ 1981 کا واقعہ ہے کہ میں کراچی سے لاہور کے لیے بذریعہ پی آئی اے محوِ سفر تھا۔ جہاز نے اُڑان بھر کر مطلوبہ بلندی حاصل کی ہی تھی کہ پبلک ایڈریس سسٹم پر اعلان ہوا ’’انکم ٹیکس آفیسر مسٹر ایم بی انجم سے گزارش ہے کہ وہ اپنی نشست سے اُٹھ کر کھڑے ہوجائیں‘‘۔ اپنا نام سُن کر چوکنا ہوا ہی تھا کہ وہی اعلان دوبارہ اردو زبان میں دُہرایا گیا۔ چار وناچار اپنی سیٹ سے اُٹھ کھڑا ہوا۔ جس کے ساتھ ہی ایئر ہوسٹس نے میرے قریب آکر کہا کہ جہاز کے کپتان آپ سے ملنے کے خواہشمند ہیں، براہِ کرم آپ میرے ساتھ کاک پیٹ میں تشریف لے چلیے۔ میں یہ سوچتے ہوئے ایئر ہوسٹس کے پیچھے ہولیا کہ نہ جانے مجھ سے کیا خطا ہوئی ہے جو کپتان کے آگے میری پیشی ہورہی ہے۔ کاک پیٹ میں داخل ہوا تو کیپٹن صاحب خندہ پیشانی سے ملے اور فلائٹ انجینئر نے اپنی نشست میرے لیے خالی کرتے ہوئے بڑے ادب سے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ اِس سے قبل کہ میں اپنی طلبی کی وجہ دریافت کرتا، کپتان صاحب بولے ’’انجم صاحب! زحمت کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ دراصل میں نے ایئر پورٹ کے لائونج میں آپ کو بورڈنگ پاس لینے والی قطار میں کھڑے دیکھا تھا۔ پہلے تو میں سلام کے لیے آگے بڑھا مگر پھر یہ سوچ کر رُک گیا کہ سفر تو آپ نے جہاز میں ہمارے ساتھ ہی کرنا ہے، سو سلام وہیں کرلیں گے‘‘۔ میں نے کہا کہ اِس عزت افزائی پر میں آپ کا ممنون ہوں مگر معاف کرنا، میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔ کپتان صاحب بولے ’’سر آپ ایک بااختیار افسر ہیں، پشاور سے کراچی تک پی آئی اے کے تمام اہلکاروں کے انکم ٹیکس معاملات کو دیکھنا آپ کے فرائض میں شامل ہے۔ روزانہ درجنوں ٹیکس گزار آپ کے دفتر میں حاضری دیتے ہیں۔ اِس لیے آپ ہر آنے والے کی پہچان کیسے رکھ سکتے ہیں۔ میں چند ہفتے قبل معروف گلوکارہ نیرہ نور کے خاوند شہریار زیدی کے ہمراہ آپ کے دفتر حاضر ہوا تھا۔ آپ نے نہ صرف میرا انکم ٹیکس کا مسئلہ خوش اسلوبی سے حل کردیا تھا بلکہ پُرخلوص انداز میں چائے بھی پلائی تھی۔ یوں سمجھیے کہ آج قدرت نے مجھے موقع دیا ہے کہ میں آپ کو اپنے اِس ’’فضائی دفتر‘‘ میں چائے پلائوں‘‘۔ جہاز کے کاک پیٹ میں چائے کے کپ پر کپتان صاحب سے گپ شپ ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ میاں چنوں کے ایک نواحی گائوں کی جانی مانی شخصیت شیر افگن نیازی کے بھائی ہیں۔ گویا وہ میرے گرائیں نکلے۔ کراچی سے لاہور تک کا یہ سفر میں نے کاک پٹ میں کیا جو زندگی کا ایک یادگار تجربہ تھا۔ ذاتی زندگی کا یہ واقعہ مجھے اِس اخباری خبر سے یاد آیا کہ گزشتہ ہفتے اسلام آباد سے بیجنگ کی پرواز کے دوران جہاز کے کپتان نے ایک چینی خاتون مسافر کو کاک پٹ میں داخلے کی اجازت دے دی جس کی پاداش میں پی آئی اے انتظامیہ نے اُس کی جواب طلبی کرلی۔ ساڑھے تین عشرے قبل اور آج کے حالات کا موازنہ کرنے بیٹھتا ہوں تو وطنِ عزیز پاکستان سے مخاطب ہوکر احمد ندیم قاسمی کا یہ شعر پڑھنے کو جی چاہتا ہے ؎
پوچھ بیٹھا ہوں میں تجھ سے تیرے کوچے کا پتہ
دیکھ حالات نے کیا تیری صورت کردی
ایک وقت تھا کہ پی آئی اے کے جہاز کا کپتان حقیقی معنوں میں کپتان ہوتا تھا۔ جہاز کے تمام تر اندرونی معاملات کو بلا شرکتِ غیرے انجام دینا اُس کا اختیار و استحقاق ہوا کرتا تھا۔ وہ پبلک ایڈریس سسٹم پر اعلان کر کے بھی کسی مسافر کو کاک پٹ میں بُلا سکتا تھا مگر آج اگر کسی کپتان نے ایک مسافر کو چوری چھپے بھی کاک پٹ میں داخلے کی اجازت دے دی ہے تو اُس کی جواب طلبی ہوگئی ہے۔ کپتان کے اختیارات میں کمی ہی کا معاملہ نہیں، پی آئی اے بحیثیت ایک ادارہ ہی تباہ ہوچکا ہے۔ کبھی دنیا میں ہماری قومی ایئر لائن کا طوطی بولتا تھا۔ لاتعداد ممالک کی فضائی کمپنیوں کے اہلکار مختلف شعبوں میں تربیت حاصل کرنے کے لیے پی آئی اے ٹریننگ سنٹر کراچی آیا کرتے تھے۔ اِس ادارے کے عروج کا یہ عالم تھا کہ اسّی کی دہائی میں ایمیریٹس ایئر لائن نے پی آئی اے سے دو جہاز کرائے پر لے کر اپنی کمپنی کی بنیاد رکھی تھی۔ دُبئی کی وہ ایئر لائن آج دنیا کی صفِ اول کی فضائی کمپنیوں میں شمار ہوتی ہے اور پی آئی اے کے بارے میں بخوبی کہا جاسکتا ہے کہ ’’پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں‘‘۔ اِس ایک ادارے ہی پر کیا موقوف ہے، پاکستان کا کونسا شعبہ ہے جس میں وقت گزرنے کے ساتھ بہتری آئی ہے۔ ہاں کرپشن، غربت، مہنگائی، بیروزگاری، لوڈشیڈنگ، دہشت گردی اور اخلاقی گراوٹ کے شعبوں میں ضرور ترقی ہوئی ہے۔ اللہ ہماری حالت پر رحم کرے۔