• کوئی سوال ہے؟
  • 923009426395+
  • darulshaour.magazine@gmail.com
عورت کی تضحیک کا کلچر — تحریر: صاحبزادہ محمد امانت رسولعورت کی تضحیک کا کلچر — تحریر: صاحبزادہ محمد امانت رسولعورت کی تضحیک کا کلچر — تحریر: صاحبزادہ محمد امانت رسولعورت کی تضحیک کا کلچر — تحریر: صاحبزادہ محمد امانت رسول
  • صفحہ اول
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • قرآنیات
  • تاریخ و فلسفہ
  • تعلیم | تربیت
  • انتخاب
  • شخصیات | انٹرویوز
  • کالم
  • کتابوں پر تبصرے
  • یوٹیوب چینلز
    • “Hakayat O Rawayat”
      حکایات و روایات
    • “Darulshaour Audio Books”
      دارلشعور آڈیو بکس
    • آڈیوز/ وڈیوز
  • آن لائن کتابیں
✕

عورت کی تضحیک کا کلچر — تحریر: صاحبزادہ محمد امانت رسول

  • صفحہ اول
  • بلاگ
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • عورت کی تضحیک کا کلچر — تحریر: صاحبزادہ محمد امانت رسول
بے نظیر بھٹو سے پہلی ملاقات — تحریر: فرخ سہیل گوئندی
جون 19, 2017
کل اور آج — تحریر: ایم بی انجم
جون 21, 2017
Show all

عورت کی تضحیک کا کلچر — تحریر: صاحبزادہ محمد امانت رسول

مشرقی روایات میں سے ایک روایت عورت کا احترام بھی ہے۔ عورت ماں ہویا بیٹی، بیوی ہو یا بہن …اس کا ہر روپ قابل احترام ہے یہی وہ تعلیم ہے جو ہمیں قرآن اور سنت سے ملتی ہے۔ اسلامی تہذیب ہو یا مشرقی روایت، ان کا خمیر اسلامی تعلیمات ہیں جو قرآن وسنت پہ مشتمل ہے۔ قرآن مجید نے سورۃ الاحزاب میں بد قماش اور اوباش لوگوں کے لئے سخت سزا تجویز کی ہے وہ بھی اس پس منظر میں ہے کہ وہ عفت مآب خواتین پہ تہمت و بہتان لگاتے یا پھر گلی کوچوں میں کھڑے ہو کر نازیبا جملے کستے اور ان کے جسمانی اعضاء کا ننگی اور بھوکی نظروں سے جائزہ لیتے تھے۔
یہ بات حوصلہ افزاء اور قابلِ تحسین ہے ہمارے معاشرے میں یہ قدر بایںصورت زندہ ہے کہ ا گر کوئی شخص کسی عورت کو تضحیک کا نشانہ بناتا یا اسے غلط نام سے پکارتا ہے تو پاکستان کی اکثریت سراپا احتجاج بن جاتی ہے اور اس کی اس حرکت کی بالا جماع مذمت کی جاتی ہے ۔ یہ مذمت بلا تفریق جنس ، گروہ اور نسل کے ہوتی ہے ۔ پاکستان کے سیاسی کلچر میں بہت عرصے سے بعض سیاستدان اپنی بیمار ذہنیت اور پست اخلاقیات کی وجہ سے مخالف جماعت کی عورتوں کو اپنی بے ہودہ گفتگو کے ذریعے نشانہ بناتے رہے ہیں لیکن خود ان کی اپنی جماعت کے لوگوں نے ان کی اس گفتگو کو پسند نہیں کیا۔ شیخ رشید احمدنے اپنے عہد شباب میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے لئے ایسی زبان استعمال کی جس وجہ سے انہیں کلاشنکوف کیس میں کچھ سال جیل میں گزارنا پڑے جہاں انہوں نے ’’فرزند پاکستان‘‘ قلمبند فرمائی۔ یہی وہ دور تھا جب نواز شریف صاحب سیاست سیکھ رہے تھے۔ ملک میں ٹکرائو کی سیاست اپنے عروج پہ تھی۔ بے نظیر بھٹوملک کے لئے سکیورٹی رسک قرار دی جا چکی ۔ اس لئے نواز شریف صاحب نے بھی کبھی شیخ رشید احمد کو ایسے بیانات سے منع نہیں کیا تھا۔ خیر! وہ اب بھی منع نہیں کرتے لیکن اتنا ضرور ہے کہ اب وہ خود محتاط ہو گئے ہیں کہ کسی کے بارے میں خواہ مخواہ بیانات جاری نہیں کرتے۔ یہ بھی ایک اچھی مثال ہے جس پہ میاں صاحب کی تحسین ہونی چاہئے اگر وہ اپنی ذات کے علاوہ اپنے معزز وزراء اور اراکین کو بھی ہر حال میں شائستہ اور مہذب زبان استعمال کرنے کی تعلیم دیتے تو پاکستان کاسیاسی ماحول مزید بہتر ہو سکتا تھا۔
مسلم لیگ کے ذمہ داران عمران خان یا کسی اور سیاستدان پہ رکیک حملے کرتے ہیں تو وہ اس لئے سن لیئے جاتے ہیں کہ ان کا رویہ بھی ایسا ہی ہوتا ہے (اگر چہ یہ بھی کوئی اعلیٰ مثال نہیں ہے) لیکن خواتین پہ رکیک حملے وڈیرانہ اور جاگیردارانہ ذہنیت کی عکاس ہیں کہ معاشرے میں بس وہی خواتین قابلِ احترام ہیں جو ہماری خواتین ہیں۔ان کا احترام سب پہ لازم اور فرض ہے ۔ ان کے علاوہ خواتین جنسِ بازار ہیں جو چاہے جس وقت چاہے ان کی بولی لگا سکتا ہے۔
دورِ طالب علمی میں پروفیسر ساجد میر کی تقریر محترمہ بے نظیر بھٹو سے متعلق سنی تھی، وہ تقریر کیا تھی آپ اس سے اندازہ لگا لیں،محترمہ کی مخالف خواتین بھی اس کانفرنس میں ان کی حمایت اور پروفیسر ساجد میر کی مذمت پہ مجبور ہو گئی تھیں ۔ میں نے زندگی میں پہلی اور آخر ی بار ایک عالمِ دین اور مذہبی راہنما کو ایسی …گفتگو کرتے سنا تھا۔ وہ تقریر تھی یا چاٹ مصالحے کی ریڑھی … میرے دونوں کانوں سے صرف دھواں ہی نہ نکلا ، میری آنکھیںبھی آنسوئوںسمیت زمین میں گڑ گئیں۔ شاید زمانہ جاہلیت میں ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے باپ اپنی بیٹیوں کو زمین میں زندہ درگور کرنے پر مجبور ہوئے تھے ۔پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جب بھی بے لگام سیاستدانوں کا ذکر ہو گا ان میں خواجہ آصف (وزیردفاع) کانام چنیدہ اسمائے گرامی میں سے ہو گا۔ سیاست کے میدان اور اقتدار کی راہداریوں میں جن کی زندگی بسر ہوئی ان میں ایک خواجہ آصف بھی ہیں ۔سنا ہے ان کے والد ایک مہذب اور شریف سیاستدان تھے۔ سیاست ان کا خاندانی ’’پیشہ‘‘ ہے، اتنے تجربہ کار سیاستدان کی زبان کے پھسلنے کا یہ عالم ہے کہ ابھی سال بھی نہیں ہوا ہو گا کہ انہوں نے شیریں مزاری کے متعلق ’’اول فول‘‘ فرمایا تھا اور اس پہ باقاعدہ ’’معذرت‘‘بھی کی تھی بلکہ معافی کے انداز میں معذرت کی تھی۔ اگر خواجہ آصف معافی اور معذرت کو اپنی عادت بنا لیں تو نواز شریف صاحب کو چاہئے کہ انہیں وزارتِ دفاع سے علیحدہ کر کے مسلم لیگ میںکہیں کھڈے لائن لگا دیں۔ ان کا جرم نہال ہاشمی سے کسی طرح بھی کم نہیں ہے۔ نہال ہاشمی کا حملہ جمہوریت اور جمہوری اداروں پہ ہے تو خواجہ آصف صاحب کا حملہ چادراور چاریواری پہ ہے ۔ اُس کے برے اثرات جلد نظر آ رہے ہیں تو اس کے اثرات دیرپا اور دوررس ہیں۔حکومت نے کرپشن اور بدعنوانی سے اپنی ساکھ کو تباہ کر ہی لیا ہے۔اب شرم و حیاء رہ گئی تھی وہ بھی رخصت ہونے لگی ہے۔
کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیاء ہوتی ہے

مناظر: 217
شئیر کریں
vicky
vicky

Related posts

جون 13, 2022

عمران خان کا یہ قصور کم نہیں تھا!


مزید پڑھیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

✕

اقسام

  • قرآنیات
  • سیرت النبی
  • امروزیہ | آج کی تحریر
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاست | معیشت
  • شخصیات | انٹرویوز
  • تعلیم | تربیت
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خواتین کارنر | صحت
  • اردو ادب | لٹریچر
  • انتخاب | نادرتحریریں
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کتابوں پر تبصرے
  • Uncategorized

تازہ ترین پوسٹس

  • 0
    پیغام ابراہیم
    جولائی 12, 2022
  • 0
    عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
    جولائی 11, 2022
  • 0
    مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
    جولائی 8, 2022

حالیہ تبصرے

  • جون 7, 2022

    M Abbas Shad commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

  • جون 5, 2022

    امیر حمزہ وٹو commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

Array

اہم ضوابط

اکاؤنٹ

پالیسی و ترجیحات

اغراض و مقاصد

نئے لکھنے والوں کے لئے

تازہ تحاریر

  • پیغام ابراہیم
  • عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
  • مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
  • تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
  • سرسید اور حقوق نسواں

رابطہ

موبائل نمبر : 03009426395

فون نمبر : 04237239138

ای میل : da******************@***il.com

پتہ: دارالشعور 37.مزنگ روڈ لاہور

تعارف

"دارالشعورمیگزین" دارالشعور پبلیکیشنز کا ایک ذیلی پلیٹ فارم ہے۔ جو دارالشعورپبلیشرز اور مطبوعات مکی دارالکتب کے ترجمان سہ ماہی مجلے "الصدق" لاہورکی ترقی یافتہ شکل اور ماہنامہ رسالہ "دارالشعور،لاہور"کا ایک متبادل میگزین ہے۔ جو اب ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سوفٹ کاپی کی شکل میں آن لائن شائع ہوتا ہے۔اور اس میں کتابوں پر تبصروں اور تعارف کے علاؤہ مختلف سماجی ،سیاسی اور علمی موضوعات پر آپ کی خدمت میں معیاری مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ جو دارالشعورکے ہم خیال منصفین کی قلمی کاوشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز کو توانا بنانے کے لیے دارالشعور میگزین میں اپنے مضامین،تجزیے اور تبصرے بھیج کر ہماری ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ دارالشعور پبلیکیشنزکی آفیشل ویسائٹ کو نیچے دیئے گئے لنک کو کلک کرکے ویزٹ کرسکتے ہیں۔ www.darulshaour.com

دارالشعور میگزین © 2022
اکاؤنٹ