عید سے دو روز قبل جمعۃ الوداع کو پاراچنار میں دہشت گردی کے واقعے نے عید کی خوشیوں کو لہو لہو کردیا۔ ابھی یہ خبر چل ہی رہی تھی کہ احمد پور شرقیہ میں آئل ٹینکر سے ٹپکتے تیل کو لوٹنے والے ڈیڑھ سو سے زائد شہری جل کر راکھ ہوگئے۔ تادمِ تحریر اس آگ سے جھلس کر مرنے والوں کی تعداد دوسو کے قریب پہنچ چکی ہے۔ عید کی چھٹیاں تھیں، اس لیے آئل ٹینکر سے تیل لوٹنے والوں کی مختلف ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں۔ میری حیرت کی اس وقت انتہا نہ رہی جب اس لوٹ مار میں مرنے والوں کی ہلاکت پر جنوبی پنجاب کے متعدد لوگوں نے سوشل میڈیا پر سرائیکی وسیب، اس کی غربت، آبادکاروں کا جنوبی پنجاب میں آباد ہونا، مسلح افواج کی ان علاقوں میں زمینوں کی الاٹمنٹس جیسے ایشوز کو جوڑ کر لوٹ مار کرنے والوں کی ہلاکتوں کو سرائیکی وسیب کی غربت اور استحصال سے جوڑ دیا۔ بڑے جذباتی انداز میں سرائیکی لوگوں کے استحصال کا شور مچایا گیا۔ اب تجزیہ اور واویلا سوائے لاشوں کو بیچنے کے سوا اور کچھ نہیں۔ مجھ سمیت جس کسی نے اس کو جہالت، تماش بینی اور لوٹ مار سے منسوب کیا، سوشل میڈیا پر اس کی خبر نہیں تھی۔ لیکن دھیرے دھیرے اس رائے نے تقویت پکڑنا شروع کر دی کہ اس سانحے کا تعلق سراسر جہالت اور لوٹ مار کی ثقافت سے ہے۔ اس کی تصدیق انہی بدنصیب لوگوں کی بنائی ہوئی ویڈیوز کرتی چلی گئیں جو اس لوٹ مار کے مناظر کو ریکارڈ کررہے تھے۔ جس طرح سگریٹ کے کش لگاتا ایک تماش بین لوٹ مار کے تیل کے عین بیچ سلگتا سگریٹ پھینکتا ہے، اس سے اس تماش بین کی جہالت سرعام دیکھی جا سکتی ہے۔ جب ہم کسی بھی معاملے اور ایشوز کو اُن کے پیرائے سے باہر ہوکر دیکھیں گے تو درحقیقت ہم حقائق سے آنکھیں چرا رہے ہوتے ہیں۔ میں نے جب اس پر اپنا ردِعمل سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا اور اسے ریاست کی ناکامی اور سماج کے بکھرنے سے تعبیر کیا تو کئی احباب نے اسے مایوسی قرار دیا۔ بابا اگر ایک ڈاکٹر مرض کی تشخیص کرتے ہوئے مریض کی صحت یا زندگی محدود ہونے کی خبر دیتا ہے تو اسے مایوسی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مرض کی تشخیص ہی دوسرے مرحلے میں مرض کا علاج تجویز کرنے کا سبب بنتی ہے۔ راقم کی مختلف تحریروں پر مشتمل ایک کتاب ’’بکھرتا سماج‘‘ انہی موضوعات پر شائع ہوچکی ہے۔ سماجی میڈیا پر اس سانحے کے بعد ایک ویڈیو تین روز قبل وائرل ہوئی جس میں کولڈ ڈرنک کا ایک کنٹینر شہر کے وسط میں خراب ہوا، آتے جاتے لوگ اس کو لوٹنے لگے۔ جوان، بوڑھے، باریش بزرگ، عورتیں اور کم سن بچے ، سب ہی سربازار خراب ہونے والے کنٹینر سے مشروب کی بڑی بڑی بوتلیں لوٹ کر اپنے قومی کردار کا بھرپور مظاہرہ کرتے دکھائی دئیے اس ویڈیو میں۔ اور افسوس آئل ٹینکر سے اذیت ناک موت کا شکار ہونے والوں کی خبر ابھی ٹھنڈی نہیں ہوئی کہ دو روز قبل بالکل اسی طرح حیدرآباد کے قریب ایک اور آئل ٹینکر ہائی وے پر لیک ہونا شروع ہوا تو لوگوں نے بالکل اسی طرح لوٹ مارکی۔ حیدرآباد میں بھی لوٹ مار اور تماش بینی کا وہی مظاہرہ دیکھا جا سکتا ہے جیسے تین چار روز قبل احمد پور شرقیہ میں تیل کا ٹینکر لوٹنے والے افسوس ناک موت کا شکار ہوئے۔
اگر ہم لاہور اور اب پاکستان کی سڑکوں پر چلنے والی حکمران طبقات کی قیمتی گاڑیوں کی قانون شکنی کا ذکر کرتے ہیں تو ہمیں اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ موٹر سائیکل سوار جس طرح قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے سڑکوں کو موت کے کنووں میں بدل چکے ہیں، وہ ایک قانون شکن سماج کی ثقافت کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ چند فیصد موٹر سائیکل سوار ہی اب ڈرائیونگ لائسنس رکھتے ہوں گے۔ ٹریفک پولیس والے اُن کی قانون شکنی کو ہی قانون تصور کرتے ہوئے اُن سے ڈرائیونگ لائسنس کا تقاضا نہیں کرتے۔ کسی حادثے کی شکل میں اُن سے اُن کے صرف شناختی کارڈ دکھانے کا تقاضا کیا جاتا ہے۔ ایسی صورتِ حال کو کیا ریاست کی کامیابی قرار دیں گے؟ لاہور میں لاکھوں کی تعداد میں موٹرسائیکل سوار، چنگ چی اور رکشہ ڈرائیور بلاڈرائیونگ تربیت اور بلا ڈرائیونگ لائسنس سڑکوں پر قانون کو جس طرح پامال کرتے ہیں، اسے ایک ناکام سماج اور ناکام ریاست نہ کہیں تو کیا کہیں؟ اب تو دس سال سے کم عمر بچے اپنی والدہ اور دوچار بہن بھائیوں کو لے کر سڑکوں پر قانون توڑتے دندناتے عام دیکھے جا سکتے ہیں۔ یقینا والدین ان کم سنوں کو Abuse of Power کی کنجی اور موقع خود دیتے ہیں۔ ایک ناکام سماج کا دردناک پہلو غور طلب ہے۔ ایسے سماج میں لوگ ہنگامے برپا کرتے ہیں، تحریکیں نہیں۔
اور ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کوئی سانحہ ہوجائے، ناگہانی آفت یا تباہی آجائے، گالی دی جاتی ہے نوازشریف، عمران خان اور آصف علی زرداری کو۔ 2008ء سے پہلے کے اخبارات اٹھالیں، ساری گالیاں جنرل پرویز مشرف کو، یعنی ایسے ناکام سماج تمام تر ذمہ داری اجتماع پر نہیں، فرد پر ڈالتے ہیں۔ میری ایک پسندیدہ کتاب ہے، ’’مسلمان اندلس میں‘‘۔ یہ کتاب سپین میں مسلمانوں کے عروج وزوال پر بہترین کتابوں میں شمار کی جاتی ہے۔ اس کا مصنف ایک انگریز سٹینلے لین پول ہے جس نے بڑی غیرجانب داری سے سپین میں مسلمانوں کی شان دار تاریخ کو بیان کیا ہے۔ سپین میں مسلمانوں کے زوال کے آخری برسوں میں اندلس کے عوام کا ایک قومی کردار بن گیا تھا کہ تمام تر فساد کی جڑ سلطان کو ٹھہرا دیا جاتا اور پھر وہ اس سلطان کو ہٹانے کی جدوجہد کرتے اور نیا سلطان لے آتے۔ کچھ سالوں کے بعد وہ اسی نئے سلطان کو بھی ہٹانے میں سرگرم ہوجاتے، بجائے اس کے کہ عوام اپنے بوسیدہ گرتے نظام کی جگہ نیا نظام لاتے۔ اُن کا وژن اِس سے آگے دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوگیا۔ اور پھر ایک دن آیا کہ سپین کی اسلامی ریاست تاریخ سے مٹی اور وہ سماج بھی مٹ گیا۔ اگر اس سماج کے اہل فکر اور دانشور ، فکرِنو دینے میں کامیاب ہوجاتے تو مسلم سپین بکھرنے کی بجائے دوبارہ عروج حاصل کرلیتا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ سوویت یونین ٹوٹا، سماج نہیں ٹوٹا، نئی ریاست بن گئی کیوںکہ سماج طاقت ور ستونوں پر کھڑا تھا۔ عثمانی سلطنت ٹوٹی، عثمانی سلطنت کو یورپ کا مردِبیمار قرار دے دیا گیا، اہل فکرودانش نے نئی فکر دی، نیا ترکی بن گیا اور مسلم دنیا کی کامیاب ریاست اور مثالی سماج بن کر سامنے آیا۔ لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں۔ کلونیل ریاست جو برطانوی سامراج نے کھڑی کی، وہ دوسرے مرحلے میں یعنی 1947ء کی نام نہاد آزادی کے بعد تحلیل ہونا شروع ہوگئی اور ریاست پر ایک مخصوص طبقے کا کنٹرول ہوگیا۔ اب اسی لسّی میں مدھانی چلائی جا رہی ہے۔ مگر سماج بکھر گیا۔ سماج کی ناکامی کے ذمہ دار اہل فکر لوگ ہوتے ہیں، سیاسی جماعتیں اور سیاسی لیڈر نہیں۔ سیاسی جماعتیں اور سیاسی لیڈر بھی دانشوروں کی فکر ہی سے جنم لیتے ہیں۔ ہمارا سماج درحقیقت فکر کے بحران کا شکار ہے۔ یہاں ناکامی ان دانشور طبقات کی ہوئی ہے جس میں ادیب، سیاسی مفکر، قلم کار، ڈرامہ نگار، شاعر، مذہبی سکالرز، اساتذہ اور سماج کو بنانے اور فکر دینے والے دیگر سرچشمے بند ہوگئے یا گندا پانی اگلنے لگے ہیں۔
پاکستان کی شاہراہیں، پاکستان کا چہرہ ہیں۔ جدید دنیا میں آپ نے کسی قوم کا قومی کردار دیکھنا ہوتو شاہراہوں سے معلوم کیا جاتا ہے کہ یہاں کیسا سماج پنپ رہا ہے۔ ہمارے ہاں لوٹ مار، تماش بینی، قانون شکنی میں سینکڑوں نہیں ہزاروں لوگ ہلاک ہوجاتے ہیں مگر اپنے حقوق کے لیے اٹھنے کے لیے تیار نہیں۔ لوٹ مار میں جانیں گنوا دیں گے، قانون شکنی کرتے روز درجنوں بلکہ سینکڑوں سڑکوں پر ہلاک ہو جاتے ہیں، لیکن جدوجہد سے گریزاں ہیں، اپنے ہی حقوق کی جدوجہد سے گریزاں۔ یہ اس سماج کا المیہ ہے۔
ایک مغربی ادیب کچھ برس قبل پاکستان پر ایک کتاب لکھنے یہاں آیا، اس کے ذہن میں پاکستان کا منفی تصور تھا، پہلے ہی روز اس نے ایک واقعہ دیکھا تو وہ اپنی رائے بدلنے پر فوراً مجبور ہوا کہ ایک محنت کش شخص ریلوے پھاٹک کے سامنے جب پہنچا تو ٹرین کی آمد کے سبب پھاٹک بند ہوگیا۔ یہ مغربی شخص اس وقت حیران بھی ہوا اور شدید متاثر بھی کہ اس غریب سائیکل سوار نے ٹرین کی آمد کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنی جان ہتھیلی پر رکھی اور سائیکل سر پر اٹھا کر بند پھاٹک سے ٹرین کی آمد سے چند ہی سیکنڈ قبل ریلوے لائن کراس کرگیا۔ مغربی دانشور اس محنت کش سے متاثر ہوا کہ یقینا یہ اپنی فیکٹری یا جہاں بھی ملازمت کرتا ہے،وہاں سے لیٹ ہورہا ہوگا، مگر اس نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنی ذمہ داری نبھانے کے لیے یہ عمل کیا۔ گیٹ چند منٹوں کے بعد کھلا، ٹریفک دونوں طرف رواں دواں ہوئی۔ یہ مغربی دانشور بھی ریلوے لائن کراس کرکے دوسری جانب آگے بڑھا، تو دیکھا کہ چند سو لوگوں کا مجمع لگا ہے اور ایک کرلا جس کی کمر توڑ کر تماشا لگانے والا ایک ’’نایاب تیل‘‘ بیچ رہا ہے۔ ڈیڑھ دوسو لوگ حیرت سے اور متاثر انداز میں اس ٹوٹی کمر والے کرلے اور تماشا لگانے والے کا لیکچر بڑی توجہ سے سن رہے ہیں اور وہ صاحب جو اپنی زندگی دائو پر لگاکر سائیکل سر پر اٹھا کر موت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے قانون توڑ کر پھاٹک پار کرگئے تھے، اپنی سائیکل پارک کرکے بڑی فرصت اور توجہ سے اس بازی گر کا تماشا دیکھنے میں مشغول ہیں۔
افسوس ان لوگوں پر جو موت اور زندگی کے درمیان حائل ایک چھوٹی سی لکیر کا ادراک نہیں رکھ پائے اور عید سے قبل لقمۂ اجل بن گئے۔ دل دہلا دینے والا وہ منظر ہے جہاں اس سانحے میں ہلاک ہونے والوں کی بے چہرہ مسخ شدہ لاشیں بکھری پڑی ہیں۔ میرے لیے وہ منظر زیادہ کرب ناک ہے جب وہ موت کی لکیر سے پرے لوٹ مار میں مصروف تھے۔ زندگی کے ادراک سے محروم یہ لوگ قابل رحم ہیں، قابل افسوس ہیں۔ اُن کو ادراک ہی نہیں کہ اُن کے اِس عمل سے موت کیسے اُن کو چند سیکنڈ میں اپنی لپیٹ میں لے لے گی، انہیں اپنے زندہ ہونے کا ادراک ہے اور نہ ہی زندہ ہونے کا شعور۔ موت کو دعوت دینے والے سماج کو خودکش سماج نہ کہیں تو کیا کہیں؟ جہالت کو جہالت نہ کہیں تو کیا کہیں؟ بہت افسوس اس سانحے پر اور اس سانحے کے برپا ہونے پر، جو لوٹ مار، تماش بینی اور موت سے کھیلنے پر مبنی ہے۔ یقینا یہاں ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ Human Development کو اپنا ایجنڈا بنائے مگر اس پر بھی ریاست کو مجبور عوام ہی کرتے ہیں۔ ریاستوں کا کردار بھی عوام ہی طے کرتے ہیں۔ فرانسیسی انقلاب سے لے کر بالشویک انقلاب تک، سب انقلابات عوامی شعور سے عبارت ہیں۔