قطر اور #ترکی ہمیشہ سعودی عرب کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے یہاں تک کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ #سعودیہ تشریف لے آۓ، سعودی شاہ سلمان نے مسلم ممالک کے حکمرانوں کو دعوت دی اور دو روز تک امریکی صدر نے وہاں قیام کیا۔ بہت سی تقاریر ہوئیں، امریکی صدر نے اپنے خطبہ میں اسلامی ممالک کے عسکری اتحاد کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہوۓ خطے میں عدم استحکام اور دہشت گردی کا ذمہ دار #ایران کو قرار دیتے ہوۓ امت مسلمہ کو ایران کا سیاسی اور اقتصادی بائیکاٹ کا حکم بھی دیا۔ اسی موقع پر #مصر کے صدر جنرل #السیسی نے خطاب کرتے ہوۓ ترکی اور قطر پر نام لیے بنا تنقید کی، ان پر دہشت گردوں اور انتہاپسندوں کی مالی معاونت کا الزام عائد کیا۔
مصر اپنے ملک کی سیاسی بدامنی اور اقتصادی بد حالی کا ذمہ دار مذہبی سلفی جماعت اخوان المسلمین کو قرار دیتا ہے۔ دوسری جانب قطر اور ترکی اس پارٹی کی حمایت کرتے ہیں۔ مصر کا کہنا ہے ملک میں دہشت گرد #لیبیا سے آرہے ہیں جہاں اخوان المسلمین کے دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے موجود ہیں ۔
جن لوگوں نے ملک میں موجود عیسائیوں پر حملہ کی ذمہ داری قبول کی وہ لیبیا میں موجود ہیں۔ چنانچہ مصر نے لیبیا میں ان کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے، سعودیہ میں کانفرنس کے موقع پر امریکا اور سعودی عرب کے درمیان ۵۰۰ ارب ڈالر کے اقتصادی و دفاعی معاہدے ہوۓ۔
تجزیہ کار اسے سعودیہ کی طرف سے امریکا کو بطور جزیہ (جرمانہ)کے رقم ادائیگی سے تعبیر کرہے ہیں۔
امریکا نے اس موقع پر قطر سے بھی مطالبہ کیا مگر قطر نے اتنی خطیر رقم دینے سے انکار کیا، اس کی وجہ دراصل ترکی اور امریکا کے درمیان حالیہ کشیدگی ہے جس کی وجہ امریکا کی #شام میں موجود کرد فورس کی حمایت ہے امریکہ شام میں داعش سے #رقہ شہر کی واپسی کے لیے #کردوں کو استعمال کر رہا ہے #داعش سے واپس لینے کے بعد اس علاقے پر شامی حکومت کو دینے کے بجاۓ یہاں کرد ریاست قائم کی جائیگی، جس کا مقصد شرق اوسط میں منی #اسرائیل کا قیام ہے۔ اس ریاست کے قیام کی مخالفت میں #عراق، #شام اور #ترکی کا متفقہ موقف سامنے آیا ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر قطر نے امریکہ کو جزیہ دینے سے انکار کیا۔ جس پر آج کل وہ سعودیہ اور اس کے اتحادیوں کے زیر عتاب ہے۔ تمام تعلقات منقطع، بری فضائ اور بحری راستے ختم کردیے۔ ممکنہ فوجی چڑھائی سے بچنے کی خاطر قطر نے ترکی اور ایران سے امداد لی ۔ ترکی نے اپنا عسکری اڈہ قائم کردیا۔