کل سبزی منڈی میں نظر ایک کمسن سبزی فروش پر پڑی عادتاً میں نے سوال کیا بچے تم پڑھتے ھو؟ وہ خاموش رہا میں نے پھر اپنا سوال دھرایا دل برداشتہ بچے کا جواب تھا اگر میں سکول جاؤں تو ہم کھائیں گے کیا- اس اندوہ ناک جواب سے میرا دل چونک اٹھا اور کئ سوال پوچھنے پر مجبور ہوا
سوال تو بہت سے ہیں ۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا یہ خدا کی مرضی ہے کہ اسی کے نام پر بنائے جانے کے دعویٰ کے باوجود اس ملک کے عوام زندگی کی بنیادی ضرورتوں کو ترستے رہیں، اگر بیمار ہوں تو انہیں منہ مانگی فیس مانگنے والے ڈاکٹروں اور مہنگی دواؤں کے خوف سے کمپاؤنڈروں، عطائیوں اور بہروپئےاور جعلی قسم کے پیروں کی طرف بھاگنا پڑے۔شائد غریب لوگ اسی لئے زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں کہ ان میں سے دوچار توحالات کی بے رحم مار کے باوجود بچ ہی جائیں گے( یا زیادہ مزدور پیدا ہونگے
کیا یہ خدا کی مرضی ہے کہ جہالت سے جان چھڑانے کیلئے انکا دھیان علم کی اہمیت کی طرف نہ جائے اور اگر کسی وجہ سے چلا بھی جائے تو ان کے بچوں کو ایسے سکول نصیب ہوں جہاں علم دینے والے خود علم کے مفہوم سے بے بہرہ ہوں اور بچوں کو سکولوں کی طرف بلانے کی بجائے بھگانے میں ماہر ہوں ۔کیا یہ خدا کی مرضی ہے کہ اس ملک کے اسی فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی نصیب نہ ہو۔کیا یہ خدا کی مرضی ہے کہ عدالتوں میں انصاف دینے کے ذمہ دار جج خدا کے نام کا حلف اٹھانے کے باوجود ہر کس و ناکس سے فیصلوں کی قیمت طلب کریں۔کیا یہ خدا کی مرضی ہے کہ جاگیرداروں کی ہر نئی نسل حکمرانوں کے پہلو میں بیٹھی ہو۔کیا یہ خدا کی مرضی ہے کہ اس ملک کے سرکاری ملازموں کو بائیس درجوں میں تقسیم کیا جائے۔اور ٨٠% ملازمتیں جاگیرداروںو صاحب مال لوگوں میں بانٹ دی جائے
کیا یہ خدا کی مرضی ہے کہ اس ملک کے وزیروں، مشیروں اور سفیروں کو ہر ماہ لاکھوں کی مراعات اور کروڑوں کی کمائی کے مواقع نصیب ہوں۔ کیا یہ خدا کی مرضی ہے کہ اس ملک کے بینک صرف سرمایہ داروں کو کروڑوں کے قرضے دیں اور اگر وہ یہ قرضے واپس نہ کرنا چاہیں تو کوئی انکا کچھ نہ بگاڑ سکے۔کیا یہ خدا کی مرضی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بسنے والی شریف مگر غریب خواتین اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کیلئے اپنی عزت نیلام کرنے پر مجبور ہوجائیں ۔ کیا یہ خدا کی مرضی ہے کہ یہاں لوگوں کو دو نمبر دوائیں اور ملاوٹ شدہ اشیائے خوردنی اور وہ بھی کسی کنٹرول کے بغیر داموں پر خریدنی پڑیں۔
کیا یہ خدا کی مرضی ہے کہ جب طوفانی بارشیں ہوں تو صرف غریبوں کے کچے گھر تباہ ہوں اور امیروں کی کوٹھیاں انکے تمام گناہوں کے باوجود خدا کا تمسخر اڑاتی رہیں۔ کیا یہ خدا کی مرضی ہے کہ بھوک اور بیماری سے ایڑیاں رگڑتے غریبوں کی آہیں، کراہیں اور دعائیں بد دعائیں آسمان تک جانے کی بدروحوں کی طرح انکے گرد ہی منڈلاتی رہیں۔
سوال تو بے شمار ہیں اور ہر قاری اپنے اذیت ناک تجربات کے حوالے سے اس فہرست میں جس قدر چاہے اضافہ کرسکتا ہے مگر کہیں ایسا تو نہیں کہ تنقیدی غوروفکر سے محروم ہماری روائتی قسم کی مذہبی سوچ ان سوالوں کے اصل جواب ڈھونڈنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
ہمارا ایمان یہ ہے کہ خدا قادرِ مطلق اور عادل و منصف ہے تو کیا ان حالات میں ہم یہ کہیں کہ ہمارا معاشرہ ایک بے خدا معاشرہ ہے جہاں صرف اور صرف شیطان کی حکمرانی ہے
ہمارے بارے میں پوری مغربی دنیا کا یہ گمان ہے کہ ہم شدت پسند مذہبی لوگ ہیں جو پوری دنیا پر اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق’ اپنے خدا‘ کے احکامات نافذ کرنے کے جنون میں مبتلا ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم کس طرح کے خدا کے پیرو کار ہیں کہ جس کا ہمیں قطعاََ کوئی خوف نہیں ہے ۔ رمضان میں ہر کسی کی زبان پر اٹھتے بیٹھتے خدا کا نام ہوتا ہے مگر کسی سے رشوت یا بھتہ لیتے وقت، ملاوٹ کرتے وقت، کھانے پینے کی اشیاء مہنگے داموں بیچتے وقت اور اپنے چھوٹے سے چھوٹے اور گھٹیا سے گھٹیا مفاد کیلئے جھوٹ بولتے وقت کسی کے دل میں ایک لمحاتی لرزش بھی پیدا نہیں ہوتی۔ہم عجیب خدا کے ماننے والے ہیں کہ مسجد میں نماز پڑھتے وقت ہمارا دھیان خدا سے کہیں زیادہ اپنی جوتیوں میں اٹکا ہوتا ہے جن کا ہمیں اپنے ہی کسی بھائی بند کے ہاتھوں چوری کا خدشہ ہوتا ہے۔
ہمارے عوام کی اکثریت کا یہ ایمان ہے کہ رمضان المبارک میں شیطان کو قید کردیا جاتا ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اس مہینے میں شیطان کھلے عام انسانی شکل میں دندناتا پھرتا ہے اور سرِعام فیکٹری مالکان اور دوکانداروں کا روپ دھار کر عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالتا ہے اور خداپرستی کے دعویداروں کے اس ملک میں ایک بھی شخص شیطان کو لگام ڈالنے کی ہمت نہیں رکھتا۔
سوال یہ کہ ہم جسے شیطان مانتے ہیں وہ کہیں مولویوں کی بنائی ہوئی کوئی کہانی تو نہیں ہے تاکہ ہمارا دھیان معاشرے میں موجود انسان نما اصل شیطانوں کی طرف سے ہٹایا جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لوٹنے اور لٹنے والے دونوں ہی اس زمین پر بستے ہیں مگر ہم انکی سزا کیلئے ہمہ وقت آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہیں