اگر لیڈر یا رہنما کی تعریف کی جائے تو کچھ یوں ہے، وہ شخص جو اپنے زیر انتظام افراد کے لیے زیادہ سوچے اور اپنے لیے کم سوچے اور عمل بھی دوسروں کی بہتری کے لیے کرے، رہنما دوسروں کے لیے سوچنے ، پلان کرنے، وقت دینے کا جذبہ رکھتا ہے اور اس کی ذات یا خاندان اس کی ترجیع نہیں ہوتے ہیں۔
لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے رہنما اس تعریف پر پورا نہیں اترتے ہیں۔ پاکستان کے ہر انتخابی حلقے میں کچھ خاندان براجمان ہیں جن کا تسلسل انگریز دور سے چلا آرہا ہے۔ ان مخصوص خاندانوں کے علاوہ کچھ نو دولتیے بھی ان کے کلب میں آ جاتے ہیں، لیکن جلد ہی وہ پہلے سے موجود سیاسی کلچر میں ضم ہو جاتے ہیں اور وہ بھی جلد یا بدیر اسی راہ پہ چل پڑتے ہیں جس پہ پہلے کے امرا چل رہے ہوتے ہیں، اور وہ راہ ہے ذاتیات کی، اپنے لیے سوچنے کی اور ذاتی معاشی و سیاسی اثروروسوخ کی راہ۔ اس سیاسی اشرافیہ کا ایک ہی مقصد ہے وہ ہے اپنے علاقے کے اندر طاقت کو قائم رکھنا۔ یہی ان کی موٹیویشن ہے، نیت ہے۔ یہ اشرافیہ ایک اندر کے خوف کا شکار ہے اور لوگوں کے روزگار اور معاش کے مسائل اداروں کے ذریعے حل کرنے کی بجائے اپنی ذات کے ذریعے حل کرتے ہیں، اسی لیے عام لوگ ان کے درباری بنے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ کوئی سماجی نظریہ نہیں رکھتے ہیں اور نہ ہی کسی نظریہ پہ قائم سیاسی جماعت کے وفادار ہیں۔ یہ کسی جماعت کے وفادار ہو ہی نہیں سکتے، کیوںکہ ان کا نظریہ ہی اپنے اور اپنے خاندان کا اقتدار ہے، ان کو اپنے وجود کے قائم رکھنے کے لیے کسی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے یہ بدلتی ہوا کو محسوس کر کے اس رخ چل پڑتے ہیں۔ یہ بھیڑ چال ہیں۔ یہ مفاد پرست ہیں۔ یہ بے ضمیر ہیں۔ یہ کالے انگریز ہیں۔ یہ ہم میں ہیں۔ یہ ہم جیسے ہیں۔ یہ ہماری زبان بولتے ہیں۔ یہ ہم جیسا کھاتے ہیں۔
ان کی قائم کردہ سیاسی جماعتوں میں بھی کوئی نظریہ نہیں ہے۔ سیاسی جماعتیں کوئی ادارہ نہیں ہیں، بلکہ فرد واحد کے گرد گھومتی ہیں، اگر فرد واحد کمزور ہو تو پارٹی کمزور۔ ان کو کبھی اسٹیبلشمنٹ اپنی لگتی ہے کبھی پرائی۔ یہ لوٹے دھڑوں میں بٹ کے رہتے ہیں، کوئی اپنے مفاد کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی گود میں بیٹھ جاتا ہے اور کوئی اپنے مفاد کے لیے مخالفت پہ اتر آتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ان سے زیادہ طاقتور اس لیے ہے کہ وہ ایک ادارہ ہیں، وہ اپنے سب لوگوں اور کسی حد تک قوم کا بھی خیال رکھتے ہیں اور اپنے فیصلے جمہوری انداز میں کرتے ہیں اور منظم بھی ہیں۔ جب کہ یہ لوٹے گلی محلے میں تو خدا ہیں، تھانہ ان کی جیب میں ہے، اور باقی لوکل ادارے بھی۔ لیکن یہ لوٹے چونکہ اقتدار کو اداروں میں منتقل نہیں کرنا چاہتے، تو اس لیے یہ کوئی سیاسی جماعت بنا نہیں سکے، جس میں قیادت ایک نظام سے آئے اور جائے۔ کیونکہ سیاسی جماعت میں تو آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، اور فرد واحد اور اس کے بچے چمٹ نہیں سکتے اسی وجہ سے یہ لوگ کوئی سیاسی پلیٹ فارم نہیں بناتے تاکہ ان کے خاندان کے علاوہ کوئی لوگ عوام سے اٹھ کر اوپر نہ آ جائیں۔ چونکہ یہ سیاسی گروپ عوام سے نہیں، اسی وجہ سے عوام کی حمایت ان کو حاصل نہیں ہے۔ اور ایک ہوا کے جھونکے کے ساتھ ہی یہ لوگ سیاسی وفاداریاں بدل لینے پہ مجبور بھی ہیں۔