’’مثبت تبدیلی کی بنیاد اپنے سے نیچے والوں کی خدمت میں ہے!‘‘
لی لاکوکا
ہم اپنی زندگی میں ہونے والے واقعات کو نہیں بدل سکتے، لیکن ان واقعات کے ردِ عمل کو بدل سکتے ہیں۔ برتائو (Behavior) درحقیقت وہ ردِعمل ہوتا ہے جو آدمی کسی واقعے پر ظاہر کرتا ہے۔ اہم یہ ہے کہ اپنے ردِعمل کو اس وقت تک تبدیل نہیں کیا جاسکتا جب تک یہ فیصلہ نہیں ہوتا کہ کون کون سی صورتِ حال میں اپنے ردعمل کی وجہ سے نقصان اٹھایا۔ جب پتا چلا کہ میں نے جو نقصان اٹھایا، اس میں رد عمل منفی تھا یا اس طرح کا برتائو ظاہر نہیں کرنا چاہیے تھا یا اس طرح نہیں سوچنا چاہیے تھا یا برتائو کا انتخاب غلط تھا… تو پھر خود کو بدلنا آسان ہوجاتا ہے۔
ہم جس طرح کا ردِ عمل دیتے ہیں، ان میں زیادہ تر کو ہم لا شعور ی طور پر منتخب کرتے ہیں۔ ہم نے کبھی شعور ی طور پر جانچا ہی نہیں ہوتا کہ کیا فلاں واقعہ کے نتیجے میں ہمارا عمل درست تھا یا غلط۔
برتائو وقت کے ساتھ بنتا ہے۔ زندگی میں آنے والے تجربات اور مشاہدات سے جو تربیت ہوتی ہے، وہ ردِ عمل کی تشکیل کرتی ہے۔مثال کے طورپر، مشکل حالات میں یہ کہتے ہوئے سنا جاتا ہے کہ بہت ظلم ہوا۔ جب اس طرح کے حالات دوبارہ دیکھتے ہیں تو پھر اسی کا اظہار ہوتا ہے کہ جو کچھ سیکھا ہے۔ اس برتائو کو شعوری طور پر بدلنا پڑتا ہے۔ اور یہ تبھی ہوسکتا ہے کہ جب زندگی میں انسپائریشن ہوگی، تحریک ملے گی۔ اگر انسپائریشن منفی ہو تو بدلنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اگر انسپائریشن مثبت ہو تو پھر تبدیلی بہت آسان ہوجاتی ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق، وہ تمام لوگ جن کا رجحان جرائم کی طرف ہوتا ہے یا جن کے اندر لڑنے مرنے کا جذبہ بہت زیادہ پایا جاتا ہے، یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنھوں نے کسی دور میں ایسی خبریں پڑھی یا دیکھی ہوتی ہیں جن میں ماردھاڑ کا ذکر ہو۔ اس وجہ سے ان کے لاشعور میں مار دھاڑ اور تشدد کا ڈیٹا جمع ہوتا ہے۔ انھیں پتا ہی نہیں چلتا کہ ان کے اندر کتنی منفیت داخل ہوچکی ہے۔ جب اتنی منفیت ہو تی ہے تو پھر اْن میں عدم برداشت زیادہ ہوجاتی ہے اور ان کا ردِ عمل بھی منفی ہو جاتا ہے۔
نیوز چینل، ایکشن موویز اور گیمز
وہ بچے جنھوں نے بچپن میں تشدد دیکھا ہو وہ چاہے گھر میں ہو یا باہر، ایسے بچے جب بڑے ہوتے ہیں تو ان کا برتاؤ منفی ہوتا ہے۔ گھروں میں جب نیوز چینل پر خبریں دیکھی جاتی ہیں یا ایکشن موویز دیکھی جاتی ہیں تو بچوں کے ذہنوں اور کردارپر جو ان کے اثرات مرتب ہوتے ہیں، وہ پوشیدہ نہیں۔ اب تو بچوں کے گیم بھی تشدد اور ماردھاڑ سے بھرپور ہوتے ہیں۔ آپ بہ خوبی اندازہ لگاسکتے ہیںکہ یہ بچے بڑے ہوکر کیا بنیں گے۔ برتن سے نکلنا وہی ہے جو اس میں ڈالا گیا ہو۔ اگر ذہن کے برتن میں منفی ہے تو پھر ردِعمل بھی منفی ہوگا۔ ہمارابرتائو لا شعور ی طورپر بنتا ہے۔ جیسے جیسے ہم پختہ ہوتے ہیں، ویسے ویسے برتائو بھی پختہ ہوجاتا ہے۔ پھرایک وقت ایسا آتا ہے کہ اسے بدلنا مشکل ہوجاتا ہے۔
زندگی کے ابتدائی ایام میں ہر چیز میں انسپائریشن ہوتی ہے۔ بچہ ہر چیز کو حیرت سے دیکھتا ہے۔ یوں، لاشعوری سطح پر رول ماڈل بننا شروع ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے رویے بھی بنتے ہیں۔ پھر وہی رویے شخصیت اور کردار کی تشکیل کرتے ہیں۔
دس ایسی صورت ہائے حال کی فہرست بنائیے جن میں آپ کو آپ کے رویے کی وجہ سے نقصان ہوا ہو۔ مثلاً، کسی اپنے سے جھگڑا ہوگیا ہو، کسی سے دوری ہوگئی ہو، کوئی کاروبار کی ڈیل خراب ہوگئی ہو، نوکری چلی گئی ہو، کوئی موقع کھودیا ہو، زندگی میں اچھے لوگ کم ہوگئے ہوں یا پھر گھر میں اہمیت کم ہوگئی ہو۔ ان تمام صورتوں کے اسباب نکالیے۔ پھر ان کے نتائج دیکھئے۔ اس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ کہاں کہاں خود سے غلطی ہوئی اور کہاں کہاں میں صحیح تھا۔
فائدے اور نقصان کو ماپنے سے تبدیلی آسان ہوجاتی ہے۔ ہم نے کبھی رسک مینجمنٹ سیکھی ہی نہیں ہوتی تو ہمیں پتا ہی نہیں ہوتا کہ زندگی میںآنے والے خطرات و خدشات سے کیسے نمٹنا ہے۔ ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ اَن جانے میں اٹھایا گیا ایک قدم کتنی پستی میں لے جاسکتا ہے۔ ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ ہمارا رویہ ہمیں فائدہ دے گا یا نقصان پہنچائے گا۔
محض ورکشاپس کافی نہیں
آج کل ہمارے ہاں سیلف امپروومنٹ کے متعلق بہت زیادہ ٹریننگ ہو رہی ہیں۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی بہت زیادہ ضرورت ہے اور اس کلچر کو پروان چڑھایا جانا چاہیے۔ لیکن اگر ایک ٹرینر صرف سلائیڈیں چلا کر ڈیٹا بتا کر چلا جاتا ہے تو اس سے رویوں اور برتائو میں تبدیلی نہیں آئے گی۔ رویوں کے متعلق پڑھانا ایک کمزور عمل ہے جبکہ رویے کو سیکھنے کا سب سے طاقتور اوزار خود آپ کا اپنا رویہ ہے۔ کسی کا اچھا کردار کسی کو اچھا بنا سکتا ہے۔ کسی کا اچھا اخلاق کسی میں اچھا اخلاق پیدا کرسکتا ہے۔ کسی کے ساتھ شائستگی سے اور بہتر انداز میں کی گئی بات مخالف کے رویے کو بدل دیتی ہے۔
اگر ہم رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ دیکھیں کہ جب آپؐ پر کوڑا پھینکا گیا توآپؐ نے اس بڑھیا کے برتائو کی طرح جواب نہیں دیا۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے معاف فرما دیا۔ جب بڑھیا نے کوڑا نہیں پھینکا تو آپؐ اس کی عیادت کیلئے اس کے گھر چلے گئے۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ردِعمل تھا۔
جینا سیکھنا اہم تر ہے
تعلیمی اداروں میں بچوں کو جی پی اے لینا سکھایا جاتا ہے جس سے ان کی یادداشت اچھی ہو جاتی ہے۔ بچے کتابوں کے حافظ بن جاتے ہیں، لیکن جینا نہیں سیکھتے۔ کسی کو کھانا کھاتے دیکھیں تو ایسا لگے گا جیسے اس کو بہت جلدی ہے، اس کی گاڑی چھوٹے جارہی ہے۔ کسی کو کام کرتے دیکھیں تو لگے گا کہ وہ بہت جلدی میں ہے۔ ہوٹل میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو دیکھیں تو وہ لوگ جلدی میں نظر آئیں گے۔ کسی کو گاڑی چلاتے دیکھیں تو لگے گا کہ وہ بڑی جلدی میں ہے۔ ہم زندگی کے ہر کام کو اتنی تیزی سے کرتے ہیں کہ اپنی شخصیت کی طرف دھیان ہی نہیں رہتا۔ اسی تیزی کی وجہ سے آج کا انسا ن دن، ہفتے،مہینے اور سال کو گزارنے کا عادی ہوچکا ہے۔ وہ زندگی گزارتا ہے، جیتا نہیں ہے۔
کسی بھی صورتِ حال میں برتائو مثبت رکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ جینا آ جائے۔ دن کو دن بنانا آئے، وقت کو مزے کا وقت بنانا آئے۔ اگر یہ یقین ہے کہ آج کا دن گزر جائے گا، کل کا دن اس سے بہتر آ سکتا ہے تو آپ اس امید کے چراغ کو بجھنے نہیں دیتے تو پھر سکون آنا شروع ہو جائے گا۔ اگر آپ کچھ سوشل ہیں تو دوستوں کا ایک ایسا حلقہ بنائیے جس میں آپ شیئر کرسکیں، کیونکہ مسئلے ان کے زیادہ بڑے ہوتے ہیں جن کے پاس اپنا سر رکھنے کو کندھا نہیں ہوتا۔ باباجی اشفاق احمدؒ فرمایا کرتے تھے کہ ’’ہماری قوم کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہمارے پاس کندھا نہیں ہے اور ہر شخص کو کندھے کی ضرور ت ہے۔‘‘
اگر آپ کے پاس کندھا ہے ، آپ شیئرنگ کر لیتے ہیں تو شاید مسئلے تو حل نہ ہوں، لیکن آپ کے مسئلے چھوٹے ضرور ہوجائیں گے۔ اپنے مسائل پر غوروفکر کیجیے اور ان کی حقیقت کو جانئے، کیونکہ زندگی کے نوے فیصد مسئلے اپنی ذات میں خامی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ ذات میں کوئی نہ کوئی خامی ایسی ضرور ہوتی ہے جسے صحیح نہیں کیا گیا ہوتا۔ اس خامی کے باعث مسئلہ یا مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اس خامی کو دور کرنے کی پوری کوشش کیجیے۔
اچھا اخلاق ہی اچھا انسان بناتا ہے
اگر آپ یہ ارادہ کرلیتے ہیں کہ مجھے ہر مہینے اپنے ایک برتائو کو بہتر کرنا ہے اور اس کے اوپر کام کرنا ہے تو پھر یہ دْور نہیں ہے کہ سال گزرے اور آپ سال کے بارہ مہینوں میں بارہ مثبت برتائو اختیار کرچکے ہوں۔ حدیث کا مفہوم ہے کہ جس کا اخلاق اچھاہے، وہ خوش قسمت ہے؛ اور جس کا اخلاق برا ہے، وہ بد قسمت ہے۔ اس سے بڑی خوش قسمتی کوئی نہیں کہ اچھا اخلاق سیکھ لیا جائے۔ کسی بھی صورتِ حال میں مثبت رہنا سیکھ لیاجائے۔ اگر ہر مہینے ایک برتائو ٹھیک ہوتا ہے تو پھر آنے والے دنوں میں وہ ایک برتائو بھی آپ کی زندگی کی کامیابیوں میں اہم کردار ادا کرے گا۔