ایک حدیث کا مفہوم ہے.حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا!ملاوٹ کرنے والا ہم میں سے نہیں ہے۔آج ہم ہر چیز میں ملاوٹ کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ جیسے کوئی بڑا معرکہ مار لیا ہو۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ رونا روتے تھکتے نہیں کہ ہمیں خالص چیزیں نہیں ملتی ہیں
اہل مسلم ہو کر بھی قرآن کو بھول بیٹھے ہیں۔ انگریز، یہودی، سبھی ہم سے شرماتے ہیں۔ ظاہر ہے جو اپنے پیدا کرنے والے کو بھول گیا،وہ اس کے فرمان کو کیا یاد رکھے گا۔ کتنی شرمناک بات ہے پھر بھی اپنے آپ کو مسلمان کہلواتے ہیں۔ کیا ہم مسلمان کہلوانے کے حق دار ہیں۔عبادت بھی خالص نہیں کرتے۔ سجدے اللہ تعالی کو کر رہے ہوتے ہیں۔ خیالات کاروبار میں لگے ہوتے ہیں۔ ہاتھوں میں تسبیح،لبوں پر کلمہ،مگر دلوں میں ملاوٹ کرنے کے نئے نئے پلان بنا رہے ہوتے ہیں۔
۔ ہم ملاوٹ میں اتنے ماہر ہو گئے ہیں سچ اور جھوٹ کی تمیز نہیں کر پاتے۔اب تو یوں لگتا ہے جیسے ہماری رگوں میں خون نہیں ،ملاوٹ کے جراثیم گردش کر رہے ہیں۔ ہم زوال کی آخری حدوں سے بھی آگے نکل چکے ..
ہمارا کوئی شعبہ بھی ایسا نہیں ہے جس میں ہیرا پھیری سے کام نہ لیا جاتا ہو …
کھانے کے مسالے میں ملاوٹ …
دوائی میں دو نمبری کے ساتھ ساتھ مریض کو غیر ضروری ادویات دینا
تاجر کی قینچی میں ہیرا پھیری …
ریڑھی والے کے ترازو میں ہیرا پھیری …
آڑھتی کی زبان و مال میں ہیرا پھیرا …
قصاب کے گوشت میں حرام …
دودھ میں دودھ نام کی کوئی چیز نہیں ..
مزدور کی نیت میں خرابی ….
ٹیچر کی نیت میں فساد …
تعلیمی اداروں میں پیسے کی ہوس …
میڈیا میں حرام خوری …
مستری کی کمائی میں حرام شامل …
کمپنیوں کا لین دین سود پے …
ہمارے سیاستدان کرپٹ …
ہمارے لیڈر جھوٹے …
ہماری عوام جھوٹی …
پولیس میں حرام …
فوج میں کرپشن …
ظالم بھی ظالم ..
اب تو زہر بھی خالص نہیں ملتا فراز
لوگ پھرتے ہیں آدھے مرے ہوۓ