سوچ رہا ہوں کہ کیا لکھوں۔ جو دل میں ہے وہی لکھوں یا اسی سوچ کو الفاظ کی کمی بیشی کے ساتھ مہفومی ردوبدل کر دوں۔ کیونکہ ڈر ہے کہ اگر وہی لکھا جو میرے دل میں ہےتو میری حب الوطنی نا صرف شک کیا جائے گا بلکہ میرے ایمان کو دوبارہ سے اپنے اپنے پیمانوں سے مختلف طریقوں سے تولا جائے گا۔ خیر قلم اٹھا ہی لیا ہے تو پوری نہ سہی آدھی ادھوریی بات آپ تک پہنچا ہی دیتا ہوں۔ کیونکہ یا تو “ڈرنا چھوڑ دے یا پھر لکھنا چھوڑ دے” اپنا تو ایمان یہی ہے۔
اس سال کے گرمیوں کے موسم میں سیاسی ابال کافی اونچا ہے۔ ہر گھر کی ہانڈی میں سیاست کی مرچی تھوڑی بہت ضرور ڈالی جا رہی ہے۔ ہاں شاید جن گھروں میں ڈاکٹر کی نصیحت کے بعد اسکا استعمال متروک ہو وہاں پر بھی متبادل سیاسی بیانیے سے چٹخارہ ضرور حاصل کر لیا جاتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہوا کہ ہر کوئی موجودہ سیاسی صورتحال سے متاثر ضرور ہے۔ میں بھی پاکستانی ہوں کہاں بچنے والا تھا کھا گیا رگڑا۔
مگر مجھے اس ساری صورتحال میں بنیادی انسانی حقوق جو کہ آئین پاکستان میں بیان کیے گئے بہت یاد آئے۔ آئین پاکستان 1973 میں بنیادی حقوق بہت تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔ ہر پاکستان شہری کو تقریر کی آزادی، کاروبار کی آزادی، سیاست میں حصہ لینے کی آزادی، ایسوسی ایشن کی آزادی و دیگر بنیادی حقوق حاصل ہیں۔ 1973 میں جب بھٹو مرحوم نے یہ آئین پاس کیا تھا تو اگلے ہی سال قومیانے والی پالیسی سے کاروبار کی آزادی والی شق کی دھجیاں اڑا دیں تھیں۔ یہ آئین میں بیان کردہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی سب سے پہلی اور بڑی مثال ہے۔
اب موجودہ وقت میں بھی آئین کے اس بنیادی حقوق والے آرٹیکل کی کھلی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ آئین یہ حق دیتا ہے کہ ہر شخص الیکشن میں حصہ لے سکتا ہے۔ مگر یہاں پر بے۔اے کی ڈگری والی شرط لگا کر اس کے آئینی حق کو سلب کر لیا جاتا ہے۔ اس کے بعد پاکستان میں سزا یافتہ شخص الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتا جو کہ بنیادی انسانی حقوق والے آرٹیکل کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
ہم عموما یورپ اور امریکہ کی مثالیں دیتے ہیں۔ تو میں آپ کے علم میں اضافہ کرتا چلوں کہ برطانیہ اور امریکہ میں سزا یافتہ شخص الیکسن میں حصہ لے سکتا ہے۔ ہاں البتہ ویسے شخص کو سزا اپنے ملک کے ساتھ جنگ کرنے کی صورت میں نہ ہوئی ہو۔ کینڈا میں جیل کے اندر سے الیکشن نہیں لڑا جا سکتا مگر جیل سے باہر آتے ہی آپ الیکشن میں حصہ لے سکتےہیں۔
:اسلامی نقطہ نظر
سزا یافتہ شخص کے الیکشن میں حصہ لینے کا قانون اسلامی تعلیمات کی روح کے بھی منافی ہے۔ آئین پاکستان میں واضح لکھا گیا ہےکہ کوئی بھی قانون اسلامی تعلیمات کے خلاف نہیں بنایا جائے گا۔ یہ اسلامی روح کے منافی اسطرح ہے کہ اللہ تعالی نے جب انسان کے مرنے تک توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے تو ہم کون ہوتے ہیں ایسا فیصلہ کرنے والے کہ جرم کرنے کے بعد سزا پوری کرنے کے باوجود اسکی زندگی کو محدود کر دیں۔ جب اسلام میں ری اینٹری والا نظام اپنی خوبیوں کے ساتھ موجود ہے تو ہم اس کو کیوں بند کر رہے ہیں۔ ہمیں قانون کے ذریعے ایسی پابندی نہیں لگانی چاہیے بلکہ عوام پر چھوڑ دینا چاہیے کہ وہ اس جرم کی وجہ سے ناپسند کر اپنی رائے سے اسکو جمہوری طریقے سے محدود کریں۔ توبہ اور ری اینٹری والا تصور اگر آپ بھی وسیع النظری سے دیکھیں گے تو میری بات کو بخوبی سمجھ سکیں گے۔
مناظر: 74