’’دولت مندوں کی سوچ کے راز مجھ پر اُس وقت کھلے جب میں نے اپنے ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں خودشناسی کے سفر کا آغاز کیا!‘‘
ٹی ہارو ایکر
لوگ امیر ہونا چاہتے ہیں، وہ زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنے کے خواہش مند رہتے ہیں۔ لیکن، حقیقتاً امیر وہ شخص ہے جس نے اپنے اندر کے خزانے کو دریافت کرلیا ہو، جس نے خود کو تلاش کرلیا ہو۔ جس شخص نے اپنی صلاحیتوں کو استعمال کیا اور بہتر نتیجہ دیا، وہ شخص امیر ہے۔ امارت کا تعلق بینک بیلنس، پُر تعیش طرزِ حیات، مال و اسباب کی زیادتی، بڑے مکان یا نئی گاڑی کے ساتھ نہیں ہوتا بلکہ اس کاتعلق اپنی تلاش کے ساتھ ہے۔ ہر شخص کسی نہ کسی خواہش کے ساتھ زندگی گزارتا ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ خواہش نہ ہو۔چنانچہ جس کے پاس نوکری نہیں، وہ نوکری تلا ش کر رہا ہے، جسے مل گئی ہے، وہ اچھے عہدے پر جانا چاہتا ہے، جو عہدے پر ہے وہ اس سے بڑا عہدہ لینا چاہتا ہے۔ کوئی ملک چھوڑنا چاہتا ہے تو کوئی ملک واپس آنا چا ہتا ہے۔ کوئی پسند کی شادی کرنا چاہتا ہے تو کوئی پسند کی شادی کے فیصلے پر پشیمان ہے۔ انسان اس دنیا میں جتنی بھی خواہشیں رکھتا ہے، وہ تمام اس کے اندر ہوتی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ انسان اپنے اندر پڑے ہوئے خزانے کو تلاش کیے بغیر ان خواہشوں کی تکمیل کرنا چاہتا ہے۔
ہمارے ہاں نوجوان اس لیے تعلیم حاصل کرتے ہیں تاکہ وہ امیر ہوجائیں، لیکن وہ تعلیم جو ان نوجوانوں کو خود شناس کردے، اس تعلیم سے وہ محروم ہیں۔دنیا میں انسانوں کی اکثریت اپنے دماغ، اپنی خداداد صلاحیتیں استعمال کیے بغیر قبرستان تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ وہ دماغ ہوتے ہیںجنھوں نے اپنے آپ کو کبھی تلاش نہیں کیا۔
کیا آپ کو یہ ادراک ہے کہ مصنوعہ (پروڈکٹ) اہم نہیں ہوتی، مشین اہم ہوتی ہے، کیونکہ مصنوعہ اگر ضائع بھی ہوجائے تو مشین سے اس چیز کو دوبارہ تیار کیا جاسکتا ہے۔ جو نتیجہ دے رہا ہے، وہ خواہ پیسے کی شکل میں ہو، شہرت کی شکل میں ہو یا آسانیوں کی شکل میں ہو، اصل میں وہی Millionnaire ہے۔
امیر لوگ امیر کیوں تھے؟
ہم قابلیت کے بغیر نتیجہ چاہتے ہیں۔ ہر ٹرینر چاہتا ہے کہ ٹونی رابنس اس کے گھنٹوں کو ہاتھ لگائے۔ ہرکاروباری شخص چاہتا ہے کہ کسی دن بل گیٹس اس سے وقت مانگے۔ ہر دانشور چاہتا ہے کہ لوگ ٹکٹس لے کر مجھے سنیں۔ یہ سب خواہشیں ہیں جو ہر شخص میں پائی جاتی ہیں اور ہر شخص اپنے اندر کے میلینیر کو جانے بغیر یہ خوا ہش پوری کرنا چاہتا ہے۔ وہ جو کہا جاتا ہے کہ دل دریا سمندروں ڈھونگے، یہ اصلی دولت مند ہے۔ اپنی اندر جھاتی مارنے والا امیر ہے۔ اپنے من میں ڈوب کر جو سراغِ زندگی پاتا ہے، وہ دنیا میں خوش حال رہتا ہے۔ تیرے اندر آپ حیاتی ہو کا راز جاننے والا میلینیر ہے۔ اپنے اندر کے اس میلنیر کو دریافت کیے بغیر ممکن نہیں کہ کوئی بڑا شاعر بن جائے، بڑا دانشور بن جائے، بڑا بزنس مین بن جائے یا بڑا رائٹر بن جائے۔
جن لوگوں نے ادارے بنائے، جنھوں نے ملک بنائے، جنھوں نے بڑے کام کیے،وہ حقیقتاً امیر لوگ ہیں۔ مثلاً قائداعظم محمد علی جناحؒ نے پاکستان بنایا۔ یہ بالکل درست بات ہے۔ کبھی آپ نے ان کی جناحؒ سے قائداعظمؒ بننے تک کی کہانی پڑھی ہے؟ آپ یہ سوانح پڑھیں تو پتا چلے گا کہ وہ کتنے بڑے میلینیر تھے۔ اسی طرح، شیکسپیئر میلینیر ہے۔ حضرت بابا بلھے شاہؒ میلینیر ہیں۔ حضرت علامہ اقبالؒ میلینیر ہیں۔ حضرت وارث شاہؒ میلینیر ہیں۔ غالب میلینیر ہے۔ فیض میلینیر ہے۔ یہ وہ تمام لوگ ہیںجنھوں نے اپنے اندر جھاتی ماری اور اپنے اندر کا خزانہ تلاش کیا۔
دولت کا مفہوم
یہ بات ہمیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ میلینیر کا مطلب یہ نہیں کہ جس کے پاس خوب پیسہ ہو یا بڑی بڑی جاگیریں ہوں۔ اگر آپ کے خیال میں ’’دولت مند‘‘ یا Millionnaire کی تعریف یہی ہے تو آپ غلط فہمی میں ہیں، آپ کو اپنی معلومات درست کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسا ممکن ہے کہ کسی کو پیسہ کمانے کی انتہائی خواہش ہو تو اس کیلئے میلینیر بننے کیلئے پیسہ ضروری ہے۔ عین ممکن ہے کہ کسی کی خواہش پیسہ نہ ہو تو اس کیلئے میلینیر ہونا کچھ اور ہوگا۔ یہ جاننا بہت ضرور ی ہے کہ اصل میں میلینیر کیا ہے۔
ہر ایک کا راستہ جدا ہے۔ ہر فرد کی منزل الگ ہے۔ کوئی کھیل میں چیمپئن بننا چاہتا ہے تو کسی کیلئے ٹاپ کرنا کمال ہے۔ کسی کیلئے منفرد کاروبار اہم ہے (خواہ اس میں زیادہ پیسہ نہ ہو) تو کوئی لکھاری یا ٹرینر کے اعلیٰ ترین مقام پر پہنچنا چاہتا ہے۔ غرض، ہر شخص کی خواہش جدا ہے۔
دنیا میں کام کرنا اتنا اہم نہیں ہوتا بلکہ اہم یہ ہوتا ہے کہ کون سا کام کرنا ہے۔ استقامت میں برکت ہے، مگر اس سے بھی اہم یہ نکتہ ہے کہ آپ وہ کام مستقل مزاجی کے ساتھ کریں جو آپ کی جبلت اور فطرت کے مطابق ہو۔ یہ وہ کام ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس دنیا میں بھیجا ہے۔ کیا آپ نے اپنے سے کبھی یہ سوال کیا ہے کہ ’’میں جو کام کررہا ہوں، کیا وہ میری جبلت کے مطابق ہے کہ نہیں ہے؟‘‘
اگر قدرت نے کسی کو بزنس مین بنایا ہے اور وہ تدریس میں سر توڑ کوشش کرتا رہے تو وہ فیل ہوجائے گا۔ لیکن اگر قدرت نے اسے بنایا ہی تعلیم کیلئے ہے تو وہ چاہے بزنس میں پی ایچ ڈی ہی کیوں نہ لے لے، وہ ایک دکا ن بھی نہیں چلاسکتا۔ نوجوانوں کی کتنی بڑی تعداد آپ کے گرد ایسی ہے جو لیڈرشپ کی ڈگری لیتی ہے، لیکن ساری زندگی ملازمت کرتی رہتی ہے۔
خود شناسی طویل عمل ہے
خود کو جاننا ایک لمحے کی بات نہیں ہے۔ یہ ایک سفر کا نام ہے۔ تاہم، یہ ممکن ہے کہ ایک نشست میں اس سفر کا آغاز ہو اور اس کاانجام پانچ سال بعد آئے لیکن پہلا قدم اٹھانا اور چلنا پہلا کام ہے۔ یہ اہم نہیں کہ مجھے کہیں جانا ہے، بلکہ اہم تر یہ ہے کہ مجھے جانا ’’کہاں‘‘ ہے؟ یہ اہم نہیں ہے کہ مجھے منزل کا انتخاب کرنا ہے بلکہ اہم تر یہ ہے کہ میرے لیے ’’کون سی‘‘ منزل مناسب ہے؟
ان سوالوں کے جواب دو بنیادوں پر تلا ش کیے جاتے ہیں۔ اول، ہمارا دماغ کیا کہتا ہے؛ دوم، ہمارا دل کیا کہتا ہے۔ پاکستانی قوم یہ سنتی ہے کہ دل کیا کہتا ہے، لیکن دماغ کیا کہتا ہے، شاید یہ کبھی نہیں سنا۔ دل سے جنون لینا چاہیے، ہم دل کی سنتے ہیں اور دماغ سے جنون چاہتے ہیں، حالانکہ دماغ کے پاس جنون نہیں ہوتا۔ اگر ان دونوں کا متوازن استعمال کیا جائے اور پھر کسی ماہر مشاور سے مشورہ کرلیا جائے تو آپ زندگی کے بہت سے مسائل سے خود کو بچانے کے قابل ہوسکتے ہیں۔ آپ اپنے اندر کے خزانوں کو دریافت کرکے اپنی دنیا کے میلنیر بن سکتے ہیں۔
اندر کے خزانے جاننے کی طریقے
1 ۔ وارن بفٹ سے کسی نے پوچھا، تم نے کب ڈھونڈا کہ تم دنیا کے اتنے بڑے بزنس مین بنو گے۔ اس نے جواب دیا کہ میں پارک میں لوگوں کو دیکھتا تھا۔ تھوڑے سے پیسے پکڑتا، بوتلیں خریدتا اور تھوڑے سے نفع پروہ چیزیں بیچ کر پلان بناتا تھا کہ مجھے دنیا کا سب سے بڑا بزنس مین بننا ہے۔ وہ لمحہ ہوتا تھا کہ جب میں بوتل پر منافع کا مارجن نکال کر سوچتا تھا کہ میں پڑھوں نہ پڑھوں، ہوں تو میں کاروباری!
2 ۔ زندگی میں ان تمام تعریفوں کی فہرست بنائیے جو زندگی میں اندر کے خزانے کی تلاش کے حوالے سے ملیں۔
جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ جب میں نے ممتاز مفتی پر پہلا فیچر لکھا تو مفتی صاحب نے بلا کر کہا کہ تیری تحریر زمانہ پڑھے گا۔ میں نے جب اپنی تحریر کی طرف دیکھا تو سوچا کہ میری تحریر کہاں زمانہ پڑھے گا۔ میں نے تو کبھی لکھا ہی نہیں۔ یہ تو پہلی تحریر ہے، لیکن اسی پیشین گوئی نے مجھے کالم نگار بنادیا۔ زندگی میں کسی کا جملہ ایسا ضرور ہوتا ہے جو آدمی کو جگا دیتا ہے۔ عین ممکن ہے، آپ کام کوئی کر رہے ہوں، لیکن شاباشی کسی اور کام میں مل رہی ہو۔
3 ۔ ایسے کاموں کی فہرست بنائیے جنھیں کرتے ہوئے آپ کو تھکاوٹ محسوس نہ ہوتی ہو ۔ کام تھکانے والی چیز ہے اور اگر کوئی ایسا کام ہے جو تھکاتا نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ کام نہیں ہے، وہ محبت ہے اور محبت سے کوئی نہیں تھکتا۔
4 ۔ وہ کون سے لو گ ہیں جن کے ساتھ بیٹھ کر توانائی ملتی ہے۔
حضرت مولانا جلال الدین رومیؒفرماتے ہیں، میں نے دیکھا کہ بھیڑوں کے ایک گلے میں شیر کا بچہ رہنے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کی ساری عادات بھیڑوں والی ہوگئیں۔ ایک دن اس نے شیروں کا جھنڈ دیکھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہاں سے ایک شیر نکلا اور اس نے ایک بھیڑ کو چیر پھاڑ دیا۔ اس عمل سے اس بچے کے اندر کا شیر جاگ گیا۔ دنیا میں کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ آدمی اگر اُن کے ساتھ ر ہے تو موٹیویشن کا لیول انتہائی بلند ہوجاتا ہے۔
5۔ ان کہانیوں، ان کتابوں، ان فلموں کی فہرست بنائیے جن سے موٹیویشن ملتی ہے۔
6 ۔ ان خواہشوں کی فہر ست بنائیے جن کیلئے دعا مانگتے ہوئے آنکھیںبھیگ جاتی ہیں۔
7۔ ان خوابوں کی فہرست بنائیے جن کے بارے میں آپ اکثر سو چتے رہتے ہیں۔
8۔ ان خیالات کی فہرست بنائیے جو آپ کو اکثر آتے رہتے ہیں۔
9۔ دنیا میں دوبارہ آنے کا موقع ملے تو کیا کر یں گے؟
10۔ کس نا م کے ساتھ دنیا میں جینا چاہتے ہیں؟ شناخت کیا ہوگی؟ شناخت انسان کی مجبوری ہے۔ یہ مادہ اللہ تعالیٰ نے صرف انسان کے اندر رکھا ہے، کسی اور مخلوق میں نہیں۔
11۔ جس شناخت کے ساتھ جینا چاہتے ہیں، اس کے ساتھ کون سی سروس جوڑنا چاہتے ہیں۔
وہ لوگ جو وسائل کا انتظار کرتے ہیں، وہ غلط کرتے ہیں۔ وسائل کو ئی چیز نہیں ہوتی۔ ارادہ اصل شے ہے۔ جب ارادہ سچا ہوتو جو کچھ اس وقت موجود ہے، اسی کے ساتھ کام شروع کردیجیے۔ ہم لوگ اچھے وقت کا انتظار کرتے رہتے ہیں جبکہ اچھا وقت کبھی نہیں آتا۔ جس وقت میں آپ موجود ہیں، وہی سب سے اچھا وقت ہے۔ انسان عجیب مخلوق ہے کہ جب وہ دنیا میں رہ رہا ہوتا ہے تو کہتا ہے کہ ابھی بہت وقت ہے۔ یہاں تک اسی دھوکے میں اس کی زندگی کا اختتام ہوجاتا ہے۔
حضرت شیخ سعد ی شیرازیؒ فرماتے ہیں، ’’جو کہتا ہے، میرا کل آئے گا تو میں کروں گا، اس کا کل کبھی نہیں آتا۔‘‘ لہٰذا، آج آپ کے پاس جو ذرائع ہیں، انھیں کے ذریعے اپنی کشتی پار لگائیے۔
بہت سے لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہمارے پاس پیسہ بہت ہے، لیکن خوشی نہیں ہے۔ جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ خوشی کیوں نہیں ہے تو جواب دیتے ہیں، پیسہ تو آگیا ہے، لیکن اندر کا میلینیر کہیں دب گیا ہے۔
میلینیرر کون ہے
1۔ میلینیر وہ ہے جس کے پاس سکون اور خوشی ہے۔ جس کے پاس بینک بیلنس ہے، لیکن سکونِ قلب نہیں ہے، وہ میلینیر نہیں ہے۔ میلینیر وہ شخص ہے جس کے پاس وسائل نہیں بھی ہیں، لیکن سکونِ قلب ہے۔
2۔ میلینیر وہ ہے جس کے پاس اطمینان ہے۔
حضرت واصف علی واصفؒفرماتے ہیں، ’’خوش نصیب انسان وہ ہے جو اپنے نصیب سے خوش رہے۔‘‘ ہر کوئی اپنی زندگی تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ ہر ایک چاہتا ہے کہ مجھے فلاں کی سی زندگی مل جائے۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہم زندگی تو تبدیل کرنا چاہتے ہیں، لیکن جس زندگی کو اپنانا چاہتے ہیں، اس کے مسائل کو نہیں اپنانا چاہتے۔ آدمی اپنی تکلیف کو دنیا کی سب سے بڑی تکلیف سمجھتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کی تکالیف کے علاوہ بھی بہت سی تکلیفیں ہوتی ہیں۔ دنیا کس کس تکلیف میں ہے، ہم سوچ بھی نہیں پاتے۔
3۔ اللہ تعالیٰ نے جو وسائل دیئے ہیں، ان کا ذائقہ چکھئے۔ اس سے بڑا میلینیر ہونا اور کوئی نہیں ہے۔ یہ دنیا ایسے انسانوں سے بھری پڑی ہے جن کے پاس بے شمار چیزیں ہوتی ہیں، مگر وہ ان سے لطف اندوز نہیں ہوپاتے۔ جو آدمی اپنی زندگی سے مطمئن ہے، وہ امیر ہے۔
4۔ جو وسائل اللہ تعالیٰ نے دیئے ہیں ان کے ذائقے کو محسوس کیجیے۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جب اُن کے پاس وسائل ہوتے ہیں تب وہ ان کے ذائقے کو محسوس نہیں کرپاتے اور جب ان کے پاس وسائل نہیں ہوتے، تب ان کی تمنا کرتے ہیں، یعنی فرصت کی نماز نہیں پڑھتے۔ جو اپنے موجودہ وسائل کو لطف نہیں لیتا، وہ میلینیر نہیں ہے۔ میلینیر وہ ہے جو سوکھی روٹی سے لطف اندوز ہوتا ہے۔
5۔ جس کے ہاتھ، پاؤں اور جسم کے دیگر اعضا سلامت ہیں، وہ انھیں محسوس کرتا ہے اور انھیں کام میں لاتا ہے تو وہ میلینیر ہے، کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا انعام ہے۔ جب وہ کسی محروم کو دیکھتا ہے تو پتا لگتا ہے کہ یہ اعضا جن کی قیمت اربوں روپے ہے، اگر ان میں ذرا سی بھی تکلیف ہوجائے تو زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔ جوانسان اربوں کے ہاتھ پاؤں استعمال کررہا ہے، وہ میلینر ہے۔
6۔ وہ شخص میلینیر ہے جو آج کے لمحے میں زندہ ہے۔ کل کا نہیں پتا۔ وہ تو جب آئے گی، تب دیکھا جائے گا۔ آج کے لمحے میں موجود رہ کر دیکھئے۔ لمحہ موجود سے وہ شخص محظوظ ہوسکتا ہے، جو موجودہ حالت کو تسلیم کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جو کچھ اس لمحے میں ہو رہا ہے، وہ سب کچھ ٹھیک ہے اور میں اسے تسلیم کرتا ہوں۔ یہ تسلیم کرنا اسے خوشی دیتا ہے۔ کبھی موجودہ لمحے میں موجود رہ کر دیکھئے۔ سکون ہی سکون ملے گا۔ ہم سکون کے لمحے کو کھولے بغیر یا تو ماضی میں رہ رہے ہوتے ہیں یا پھر مستقبل میں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ’’جو میرا دوست ہے، نہ اس کے پاس ماضی کا خوف ہے اور نہ مستقبل کا حزن ہے۔‘‘ خوف اور حزن سے آزادی اللہ تعالیٰ سے دوستی کی علامت ہے۔
سچا سوال
جس شخص کا یہ سوال سچا ہے کہ مجھے خود کو جاننا ہے، اسے قدرت جواب دینا شروع کردیتی ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارا یہ سوال ہی سچا نہیں ہوتا۔ جیسے جیسے انسان کا خودشناسی کا سفر بڑھتا ہے، جواب ملنا شروع ہوجاتا ہے ۔
تخیل میں سوچئے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کہاں سے یہ فائلیں آرہی ہیں کہ اے اللہ، مجھے امیر بنادے، مجھے اولاد عطا کردے، میرا کاروبار بڑھا دے؛ اور کہاں یہ فائل ہو کہ اے اللہ، ’’میں اپنی تلاش کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ ان فائلوں میں یہ فائل علیحدہ رکھ لی جاتی ہے۔
حضرت امام مالکؒ فرماتے ہیں، ’’انسان کی دو پیدائشیں ہیں۔ ایک پیدائش وہ ہوتی ہے جب وہ پیدا ہوتا ہے۔ دوسری پیدائش وہ ہوتی ہے جس دن وہ تلاش کرتا ہے کہ میں کیوں پیدا ہواتھا۔‘‘
اگر ہمارے دنیا میں آنے سے کوئی فرق نہیں پڑا تو پھر جانے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا، لیکن ہونا یہ چاہیے کہ آنے سے فرق پڑا ہے یا نہیں، جانے سے فرق ضرور پڑنا چاہیے۔
آج سے خودشناسی کو تہجد بنائیے۔ خودشناسی کو سجدہ بنائیے۔ خودشناسی کو دعا بنایئے۔ خودشناسی کو آنسو بنائیے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگئے کہ اے میرے مالک، جہاں اتنی خواہشیں تو نے پوری کی ہیں، اسی طرح میرے اندرکا میلینیر بھی مجھ پر آشکار کر دے۔ آمین۔