آج تک قومیں لڑائیوں کے ذریعے دوسری قوموں کو فتح کرتی رہیں۔اسلام کے رہبر محمدؐ نے اپنی زبان کے ذریعے اپنے اخلاق کے ذریعے اپنے عمل سے لوگوں پر بادشاہوں پر فتح حاصل کر لی۔
ان کے نقش قدم پر چلتے ہوۓ مجھے لگتا ہے کہ اپنی فتح حاصل کر لینے کے بعد انسان کسی بھی شخص پر فتح حاصل کر لیتا ہے۔ لیکن انسانوں کی فتح سے پہلے اس کو اپنے نفس سے مقابلہ کرناہوگا۔سب سے مشکل کام ہے اپنے نفس سے مقابلہ کرنا لیکن ناممکن نہیں۔ جب یہ مقابلہ ہم جیت لیتے ہیں تو دنیا کا کوئی کام کرنے میں ہمیں ڈر نہیں لگتا۔ پھر دنیا کے لوگوں کے دلوں پر راج کرنا مشکل نہیں ہوتا۔ مشکل تو بس اپنے نفس کی خواہشوں کو کچلنا ہے۔ اپنی خواہشوں کو جب انسان مار لیتا ہے تو پھر وہ اپنے لیے نہیں جیتا۔اس کو موت سے ڈر نہیں لگتا موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی ہمت اس میں پیدا ہو جاتی ہے۔
دینا گواہ ہے کہ آج تک جیتنے والے لشکر کا سپہ سالار موت کے ڈر سے بے خوف ہوتاہے۔ وہ کھل کر جنگ کرتا ہے اور آخرکار دنیا پر فتح حاصل کر لیتاہے۔ یہی معاملہ ہمیں نفس کے ساتھ کرناہے اگر ہم لوگوں سے پیار و محبت کرنا چاہتے ہیں مخلوق کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں نفس سے لڑنا پڑے گا جب ہم نفس سے لڑ گئے ۔ ہم نے نفس کی غلامی چھوڑ دی ہم ایک آزاد انسان بن کر کچھ بھی کر سکتے ہیں خدا پر بھروسہ رکھتے ہوۓ ہم ساری دنیا کو راہ مستقیم پر لانے میں کامیاب ہوسکتے هیں.