جب قوم اور سماج کو ترقی یافتہ بنانے کی بات چلتی ہے تو ہمارے پالیسی میکرز کی خود اعتمادی لڑکھڑانے لگتی ہے۔ ہمارے ملک کے بنانے اور پھر اس کو چلانے میں جو ہم نے غلطیاں کی ہیں، ہماری دو سو سالہ برطانوی اور 70 سالہ امریکی غلامی کا اثر اس میں صاف طور جھلکتا ہے۔ ہمارے سماج اور پالیسی میکرز کو کحچھ باتیں ذہن نشین رکھنی چاہیں،وہ یہ کہ اپنے لیے خود ہی سوچنا پڑتا ہے۔ کوئی دوسرا پلیٹ میں رکھ کر نہیں دیتا۔ اگر دیتا بھی ہے تو اس کی قیمت وصول کرتا ہے۔ یہ ایک بین الاقوامی سچائی ہے اور اس کا ادراک جتنا جلدی ہو سکے، ہم کو کر لینا چاہے۔
پاکستان کے پاس جو بھی میراث ہے: مذہبی، سماجی، سانئسی، دفاعی یا تکنیکی اداروں کی صورت میں یا دنیا میں ہمارے کردار کے حوالے سے، وہی ہمارا موجودہ مقام ہے۔ لیکن ہمارے موجودہ فیصلے ہمارے آنے والے حالات کا فیصلہ کریں گے۔ ہمارے پرانے فیصلے اگر ٹھیک ہوتے تو آج ہم موجودہ حالات سے بہتر زندگی گزار رہے ہوتے۔ ہمارے پرانے فیصلوں اور اس کے نتیجے میں برپا ہوئی تبدیلیوں کو ہم نے سمجھنا ہے اور مستقبل کے دوست اور دشمن کا فیصلہ کرنا ہے۔
اگر ہم دنیا کے طاقت ور ملکوں کی لسٹ بنائیں تو ہمیں دنیا کو مشرق اور مغرب میں تقسیم نہیں کرنا چاہیے۔ آج مغرب کے سارے ملک معاشی طور پہ خوشحال نہیں ہیں۔ آج شمال اور جنوب کی لسٹ زیادہ کارآمد ہو گی۔ آج دنیا کے شمال میں رہنے والے اکثر ممامک خوشحال ہیں جبکہ جنوب کے ممالک جن میں افریقہ، جنوبی ایشیاء، جنوبی امریکہ، اور جنوب مشرقی ایشیاء کا خطہ آتا ہے، غربت کا شکار نظر آئے گا۔ ان خطوں کو چھوٹی چھوٹی یورپ اقوام نے اپنا غلام بنایا تھا، جو دوسری جنگ عظیم میں خود اپنی پیدا کردہ جنگوں کی بھینٹ چڑھ گئے اور فطرت نے خود ہی ان کو کمزور کر دیا۔ لیکن ان چھوٹی چھوٹی اقوام کے اندر وہ کیا صلاحیت تھی جس نے ان کو غالب کیا؟ وہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ تاریخ ہمارے لیے عروج اور زوال کے راستے کا تعین کرنے میں مدد گار ہو گی۔
سب سے پہلی بات تو یہ سمجھنے کی ہے کہ ان اقوام نے اپنے دم پہ بھروسہ کیا اور وقت کے تقاضوں کے حساب سے اپنہ لاحہ عمل بنایا تھا۔ ان اقوام نے تجارت کے ذریعے اپنا لوہا منوایا تھا۔ ان اقوام نے اپنے اندر قوت ارادی اور اپنے طےشدہ اہداف کو حاصل کرنے کے لیے متبادل ذرائعے تلاش کرنے کی حکمت عملی اختیار کی۔ انہوں نے ان مقاصد کے لیے ادارے بنائے اور ان کو طاقت دی۔ انہوں نے معاشرے کو علم کا گہوارہ بنایا۔ ۔ نظریات بدلے، عقائد بدلے۔ دوست اور دشمن بدلے، دوستیوں کو دشمنیوں میں بدلہ اور دشمنوں کو گلے لگایا۔ ترقی کے عمل میں یہ سارے کام کرنے پڑتے ہیں اور انہوں نے کیا۔ تب جا کر دنیا کے پورے جنوب پہ ان کا غلبہ ہوا۔
لڑائی قوم کو طاقت ور بھی بناتی ہے اور کمزور بھی کرتی ہے۔ یہ امریکہ تھا جو جنگ عظیم دوم کی لڑائی کی وجہ سے دنیا کا چوہدری بن گیا اور یہ برطانیہ تھا جو اس چوہدراہٹ سے نیچے گر گیا۔ بات صرف فیصلے کی ہے۔ کس نے، کس وقت، کیا فیصلہ کیا۔ ایک ہی عمل دو مختلف افراد کے لیے مختلف نتائج پیدا کر سکتا ہے۔
اب واپس اس بات پہ آتے ہیں کہ ہمیں کتنا، کن کن پہ، اور کس وقت تک انحصار کرنا ہے؟ چائینہ ہمارہ دوست ہے، مغرب ہمارہ آقا ہے، انڈیا ہمارہ دشمن ہے اور کچھ اجنبی ممالک ہیں۔ 21 کروڑ انسانوں کا بوجھ پاکستان کے سر پہ ہے۔ جن میں اکژ کے پاس وقت کے تقاضوں کے حساب سے کوئی فن، ہنر اور علم نہیں ہے۔ جن کو اپنی غربت کا احساس نہیں، جن کو اپنی ذلت کا احساس نہیں، جن کو اپنی جہالت کا احساس نہیں ہے۔ ایسی افرادی قوت کیا نتائج دے گی؟ ایسی افرادی قوت کو ہم کیسے اپنی طاقت بنائیں گے؟ ایسے دشمنوں کو کیسے دوست بنائیں گے؟ ایسے آقاؤں کو کیسے اس بات پہ مجبور کریں گے کہ برابری کی بنیاد پہ ہم سے بات کریں؟ اور اگر یہ سب کحچھ وقت پہ نہ کر سکے تو دوست کب تک دوستی نبھائیں گے؟ اور اگر دوست بدل گئے اور دشمن بھی دوست نہ بن سکے تو وجود ختم ہو جائے گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ اپنے لیے خود پالیسیاں بنانا ہوں گی۔ اپنے ادارے خود بنانا ہوں گے۔ ان کو جدید کرنا ہو گا اور ان کو کسی فرد یا قبیلہ کی بجائے پوری پاکستانی قوم کے مفادات کے لیے چلانا ہوگا۔ اپنے دم پہ بھروسہ کرنا ہوگا۔ معاشیترقی کے لیے دوسرے ملکوں پہ انحصار کی پالیسی ختم کرکے اپنے اندر خود اعتمادی کو جنم دینا ہوگا۔