وہ آج سکول سے نکلا تو اداس تھا. باپ نے پوچھا کیا بات ہے بیٹا آپ پریشان کیوں ہو بیٹے نے جواب دیا بابا آج میرے ایک کلاس فیلو کا نیا بیگ ٹوٹ گیا ہے. باپ نے پوچھا تو اس میں آپ کیوں پریشان ہو؟ کون سا آپ کا بیگ ٹوٹا ہے اس نے اپنے باپ سے سوال کیا :
َََّّّّ ۔۔ با با اگر میرا نیا بیگ ٹوٹ جاتا تو آپ مجھے کیا کہتے ؟باپ کے لیے یہ سوال کافی حیران کن تھا. بہرحال اس نے کچھ دیر توقف کے بعد جواب دیا کہ بیٹا میں آپ سے وجہ پوچھتا کہ ایسا کیوں ہوا ہے اور کیسے ہوا ہے. بیٹے نے پھر پوچھا نہیں بابا آپ نے مجھے غصے ہونا تھا؟ باپ نے جواب دیا نہیں بیٹا میں آپ کو سمجھاتا کہ جو ہو گیا ہے اس کو چھوڑو آئندہ ایسے نہیں ہونا چاہئیے. باپ نے اسے نصیحت کی کہ ..بیٹا جو چیز واپس آ سکتی ہے اس کے لیے کبھی لڑائی نہیں کرنی.. ابھی وہ بیٹے کو مطمئن کر کے بیٹی کی طرف متوجہ ہوا تھا کے بیٹے کی طرف سے ایک اور سوال آیا جو کہ پہلے سے زیادہ عجیب تھا. بیٹے نے پوچھا:
بابا اس کے بیگ کے ٹوٹنے سے مجھے کیوں تکلیف ہوئی ہے؟
باپ نے جواب دیا بیٹا آپ کے اندر ایک بہت اچھا اور نرم دل بچہ ہے جس کو کسی اور کے نقصان پر تکلیف ہوئی ہے. اس کا مطلب ہے کے آپ کے دل میں دوسروں کے لیے درد ہے. باپ نے بات ختم کرتے ہوئے دونوں بچوں کو گھر اتارا اور کھانا کھانے کی تیاری کرنے لگے. اگلی شام کو وہ دوبارہ اپنے باپ کے پاس آیا اور سوال کرنے کی اجازت مانگی. اجازت ملنے پر پوچھا:
بابا آپ کہتے ہیں کے ساری چیزیں، سارے بندے اور ساری دنیا اللہ پاک نے بنائی ہے تو مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ اللہ پاک کو کس نے بنایا ہے؟
اپنی خیرانگی پر غیر محسوس طریقے سے قابو پاتے ہوَئے باپ نے جواب دیا:بیٹا اللہ پاک کو کسی نے نہیں بنایا . وہ شروع سے لے کر آخر تک موجود ہے. دنیا ختم ہو جائے تب بھی وہ موجود ہے. شاید اسے بات پوری طرح سمجھ نہیں آئی تھی اس لئے فوراً بولا :
اچھا یہ بتائیں اللہ پاک سے پہلے کون تھا؟
اس سے پہلے کہ خِفگی کے تاثرات نمایاں ہوتے اور باپ بچے کو ڈانٹ دیتا؛ باپ نے بڑے اطمینان سے بیٹے سے کہا .. دس سے الٹی گنتی گنو.. اس نے الٹی گنتی گننی شروع کر دی اور زیرو پر پہنچ کر رک گیا. باپ نے فورا سوال کیا .. بیٹا زیرو پر رک کیوں گے ہو اس سے پیچھے کیا ہے؟ بیٹا بولا بابا اس کے پیچھے تو کچھ نہیں ہے. باپ نے فوراً اسی کی بات کو آگے بڑھایا اور کہا بیٹا اسی طرح اللہ پاک کے پیچھے بھی کچھ نہیں ہے. ہر طرف اور ہر جگہ اللہ پاک ہے. لاجواب تو وہ ہو گیا تھا لیکن مطمئن نہیں. باپ نے سورتحال کو تبدیل کرتے ہوئے اسے کوئی اور کام کہہ دیا. اس بچے کا پورا نام محمّد عبدللہ کاشف ہے اور وہ مصنف کا بیٹا ہے.
حضور والا سوال تو کئی اٹھتے ہیں لیکن میں صرف چند کی طرف توجہ مبذول کروانا چاہوں گا
۱) کیا ہم اپنی رکی ہوئی سوچ کے ساتھ آج کل کے بچوں کی تربیت کر سکتے ہیں؟
۲) کیا ہماری ہر وقت کی ڈانٹ بچے کے لیے صحیح ہے؟
۳) کیا ہمارے پاس بچوں کے سوالات کے جوابات ہیں؟
۴) کیا ہم میں بچوں کو سمجھانے کے لیے بچوں کے لیول پر جانے کی صلاحیت موجود ہے؟
۵) کیا ہم بغیر کوئی روک ٹوک کے بچے کی اچھی تربیت کر سکتے ہیں؟
۶) کیا ہمیں اپنے سمجھانے /روک ٹوک کرنے کے انداز کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے؟
میں ان سارے سوالات کے جوابات آپ لوگوں پر چھوڑتا ہوں. اس امر کی شدّت سے ضرورت ہے کہ ہم اپنے آپ کو بہتر بنائیں تاکہ آنے والی نسل کی تربیت ہو سکے. اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے بچوں کو اچھی طرح سمجھنے اور سمجھانے کی توفیق عطا کرے. اللہ پاک آپ کا حامی و ناصر ہو. آمین